“تمام پیشوں کا سردار پیشہ تجارت” قول رسولﷺ
نقاش نائطی
+966504960485
محمد فاروق شاہ بندری
کیرالہ بزنس اینٹرپرنر کی تفصیل
جب گھر میں بچہ روتا ہے تو اس کے ہاتھ میں کوئی کھلونا یا جھنجنا دیتے ہوئے، اسے چپ کرانے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ گھر کے اور لوگ دیگر کام سے نپٹ سکیں۔ بعض بچے ایک کھلونے سے جب اوب یا تھک جاتے ہیں تو وہ کھلونا بار بار دئیے جانے کے باوجود، پھینک دیا کرتے ہیں ایسے بچوں کو چپ کرانے ایک نئے کھلونے کا انتظام کرنا پڑتا ہے
بلکل ایسے ہی ہم مسلم امہ کو، ایسے نماز پڑھتے روبوٹ یا اس اقسام کے ذہن بھٹکانے والے متعدد کھلونے ہمہ وقت، ہمارے سامنے رکھے جاتے رہے ہیں۔ کبھی جائے نماز پر غیر اسلامی کلمات و تصاویز طبع کروا کر یا چپل جوتے پر نام رسول ﷺ یا نام خالق کائینات کنندہ کروا کر، ہم مسلمانوں کو اسےمتواتر فارورڈ کرتے اپنے غم و غصہ کا اظہار کرتے، انہی کفار و مشرکین کے ایجنڈے پر عمل پیرا رہتے، اسلام کے خلاف مغلظات کو دنیا کے ہر کونے تک فارورڈ کرنے میں منہمک رکھا جاتا ہے۔ کوئی بتائے ہم آپ کے کپڑے پر کسی دشمن اسلام کافر نے غلاظت لگادی تو کیا ہم دنیا بھر کو؟ اس غلاظت کو دکھاتے ہوئے، اپنے لئے ہمدردی استوار کرتے اور دشمنان اسلام کے لئے غیض و غضب پیداکرنے کی راہ ہموار کرتے پائے جائیں گے؟ یا سب سے پہلےاپنےبدن کی غلاظت پاک و صاف کریں گے؟ اسی لئے عقل مندی کا تقاضہ ہے کہ جب بھی ایسےاسلام کی تضحیک کرتی کسی پوسٹ کو دیکھیں تو اسے وہیں پر ڈیلیٹ کرتےہوئے،دشمنان اسلام کی سازشوں کو ناکام کرنے کی سعی کریں نہ کہ، اسے ہم خود دشمنان اسلام کےایجنٹ بن کر، انکے مشن کواپنے طور پورا کرتے پائے جائیں
سابقہ مسلم ادوار کے خلافت راشدہ ہوں کہ خلافت عثمانیہ، انکے تابناک اسلامی ادوار کے دیکھنے اور پڑھنے کے بعد، دراصل یہود و نصاری ہم مسلمین کو، اپنے آباء و اجداد کے اسلامی اعلی اقدار کے مطابق کامیاب تاجر قوم یا دین حنیف پر عمل ہیرا ہوتے دیکھنا نہیں چاہتے ہیں اس لئے ہم میں سے بعض کو اپنے ایجنٹ کی طرح ہمارے درمیان رکھتے ہوئے، ہم میں شب کے آخری پہر تک لہو لعب میں وقت گزارتے، دن ڈھلے تک سوتے، دین کے معاملے کے ایسے خرافاتی مشغلوں میں توضیع وقت کرتے وصف کو، ہم میں جاگزین کرتے ہوئے، دن ڈھلنے کے بعد، مختصر وقت میں آسان دولت کے حصول میں سرگرداں ہمیں رکھنے کی کوشش میں وہ کامیاب لگتے ہیں
اللہ رب العزت کے نبی آخرالزماں محمد مصطفی ﷺ پر اتاری گئی دوسری آیت کریمہ “خلق الانسان من علق” ، “ہم نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا” ارض و سماء، بر و بحر کے رموز واسرار کو، قرآنی علوم کی کسوٹی پر پرکھتے ہوئے، انسانی صلاح و فلاح کے لئے، نت نئی ایجادات ظہور پذیر کرنے کے حکم خداوندی کو تو، ہم مسلمانوں نے، اپنے لئے لائق عمل نہ مانا بلکہ الٹا حکم خداوندی کے عین خلاف،علم عصر حاضر حاصل کرنےوالوں کو، ابن الحرام اور بنت الحرام کہنے والوں کی عزت و توقیریت کو ہم نے, اپنے اوپرلازم ملزوم کرلیا ہے۔اللہ کے رسول ﷺکےحرب اول،اسیران بدر کو، ان میں موجود علم و ہنر،مسلمین مدینہ میں منتقل کرتے ہوئے، رہائی پانے والے معرکہ الآرا فیصلہ کو، اور علم حاصل کرنے اس دور جہالت میں، چین تک کا سفر کرنے کے آپﷺ کےحکم کو، نظر انداز کر، علوم دین ہی کو ہم مسلمین کے لئے ضروری قرار دیتے،
ہمیں علوم عصر حاضر سے ماورا، مسجد و مدارس کی دیواروں میں مقید کر، الا اللہ کی ضربیں لگاتے، اوصول و ضوابط عالم بیان کرتے احکام قرآنی کو سمجھنے کے بجائے، طوطوں کی طرح رٹہ مار حفاظ قرآن کی ایک لامتناہی کھیپ تیارکرنے ہی کو دین اسلام سمجھنے اور سمجھانے لگے ہوئے ہیں۔ کیا کوئی اہل علم یہ بتا سکتاہے؟ مسلمین مدینہ کوکونسے علم سکھانے کے بدلے اسیران بدر کو، رہائی کا پروانہ ملا تھا؟ کیا تجوید قرآن،رتل و ترتیل قرآن یا افہام و تفہیم قرآن اسیران بدر سے سیکھنا مقصودتھا؟ یا ان میں موجود ہنر حرب یا دنیوی علوم عصر وقت کو مسلمین مدینہ میں منتقل کروانا اصل مقصود تھا؟ ان ایام پیدل و گھڑ سوار سفر کے دور میں، مدینے سے چایئنا،کم و بیش ساڑھے سات ہزار کلو میٹر دور،وہ کونسا علم حاصل کرنے،
خاتم الانبیاء سرور کونیں رسول محمدمجتبی ﷺ نے،ہم مسلمین کو ہدایت کی تھی؟ کیا اس وقت چین کے پاس کوئی آسمانی علم دین تھا؟ یا ان چینیوں میں، علوم عصر حاضر حاصل کرنے کی تڑپ تھی؟ جو آج بھی ان کی دریافت شدہ مقناطیسی شعاؤں سے، دشمن امریکہ کے آلات عصر جدید، آگ اگلتے بمبار طیاروں، خودکار ڈرون سسٹم، ہزاروں میل دور اھداف کو تباہ کرتے میزائل سسٹم اور طیارہ بردار جنگی بحری بیڑوں کو، اپنے مستقر صاحب امریکہ کے مکتب رئیسی پینٹاگون سے ربط ختم کر،اسے مفلوج کر رکھنے والی چینی صلاحیت، ایک طرف سربراہ عالم پر متمکن صاحب امریکہ کو متحیر العقل، ہواس باختہ کئے ہوئے ہے، وہیں پرچائیناکے، اگلے سربراہ عالم کی دعویداری میں سب سے آگے ہونے کی دلیل کے طور بھی دیکھا جارہا ہے
چودہ سو سال قبل اونٹوں پر مال برداری کر ان کی نکیل پکڑ پیدل چلتے، علم و عرفان سے نابلد زمانہ جاہلیت میں، آپ ﷺ اپنے پاس مال و دولت کے فقدان باوجود، عملی محنت، شراکت داری (ورکنگ پارٹنر) وصول کے تحت،مکہ کی تاجر رئیسہ حضرت خدیجہ الکبری رض کے مال تجارت کو، شام و مصر تجارتی سفر پر لیجاتے ہوئے، اور پیشہ تجارت کو تمام پیشوں کا سردار پیشہ کہتے، پیشہ تجارت کی افادیت و اہمیت کو ہم مسلمین پر اجاگر کرنے کے باوجود، ہم کتنے فیصد عاشقین محمد مصطفی ﷺ پیشہ تجارت سے جڑے ہوئے ہیں؟ اللہ کے رسول ﷺ نے یونہی ہم مسلمانوں کوعلم حاصل کرنے چین تک کا سفر کرنے کو نہیں کہا تھا؟ آپﷺ کے عملی طور، کر دکھائے پیشہ تجارت کو من حیث القوم اگر دنیا کی کوئی قوم نے،
اجمالی طور اپنایا ہے تو وہ ہے قوم چین۔ آج دنیا چائینا کے اس اوصول تجارت کی معترف ہے کہ ان کے لئے دوستی دشمنی سے اوپر باہمی تجارت ہی ہے جس کی بنیاد ہی پر آج وہ اپنے سب سے بڑے حربی دشمن، صاحب امریکہ کو مختلف اشیاء، خصوصا آلات حرب عصر حاضر تیار کرنے والے، میزائل و بمبار طیارے کی صنعت میں استعمال ہونے والا، دو تہائی خام مال برآمد کیا کرتی ہے۔اور صاحب امریکہ چائینا کو اپنے وجود کے لئے خطرہ ماننے کے باوجود، اور ساوتھ چائینا سمندر میں ایک دوسرے کے خلاف آلات عصر حاضر کے ساتھ ایک دوسرے کے سامنے حالت جنگ میں کھڑے رہنے کے باوجود، چائینا سے اپنی تجارت جاری رکھنے پر مجبور ہے۔
اب ہمارے بھارت ہی کو لے لیجئے، گذشتہ ستر سال دوران تین جنگ آپس میں لڑچکے پاکستان کے خلاف ہمہ وقت ہرزاسرائی کرنے والا بھارت، اور ہمہ وقت پڑوسی دشمن ملک پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کی امنگ رکھنے والے یہ سنگھی حکمران، پاکستان سے ہزاروں کروڑ کی تجارت غیر قانونی طور ہی جاری رکھے ہوئے ہیں، پاکستان کے راستے افغانستان و سابق روسی آزاد ریاستوں کو سڑک کے راستے بھیجے جانے والے شپمنٹ کے نام سے، غیر قانون بند پاک تجارت جاری ہی ہے
آزادی ہندو پاک کے دو سال بعد 1949 میں کیمیونسٹ آزاد ملک کی حیثیت عالم کے نقشہ پر ابھرنے والا ملک چین شروعات دور میں ھند و پاک کے عوام ہی کی طرح سست مزاج، بے ایمان قوم ہوا کرتی تھی چینی سیاسی لیڈران نے چین کی ہر بڑی کمپنیوں کو نیشنلائز کرتے ہوئے سرکاری تحویل میں لیتے، ہر چینی باشندے کو سرکار کے لئے کام کرنے والا بناتے ہوئے، ان میں، ایمان و ارکان اسلام کے علاوہ اسلام کے وہ شعار رگ رگ میں پیوستہ کئے کہ آج پوری چائینیز قوم سورج کی کرنوں کے ساتھ، اٹھتی ہے اور غروب سورج کے تھوڑے وقفہ بعد، وقت العشاء، اپنے آپ کو حوالہ بستر کرنے کی عادی سی ہوگئی ہے۔ محنت ایمانت داری وقت کا پاس ولحاظ وعدہ وفا کا جذبہ اگر کوئی سیکھے تو عملا چائینیز سے سیکھے۔
یہ اس لئے کہ پورےعالم کے ہم مسلمان اجمالی طور، دیر رات گئے تک جاگنے اور دن ڈھلے تک بستر کی سلوٹوں کو مسلنے ہی میں مست پائے جاتے ہیں۔الا ماشاء اللہ کچھ ذاتی عمل پیرا مسلمانوں کو چھوڑ کر، من حیث القوم وعدہ وفا کرنے کے معاملے میں کوتاہ تر، اپنے آس پاس کے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے میں گیا گزرا، یا محنت و مشقت کے مقابلے، آسان دولت کے حصول میں،ہم مسلمانوں کا ٹانی کوئی بڑی مشکل ہی سے ملتا ہے۔ہمارے بزرگان دین کے ہمیں مکرر یہ بتانے کے باوجود، کہ طلوع شمس کےکچھ وقفہ بعداشراق کی نماز کے وقت آسمان سے
فرشتہ زمین سے قریب تر اونچائی پر آکر آواز دیتا ہے کہ کوئی ہے جو رزاق کائینات کی طرف سے بٹنے والی رزق میں اپنے لئے حصہ پالے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ دن بھر محنت مشقت سے، رزق کے دروازے کو اپنے لئے وا کردے اور اس وقت، عالم بھر کے ہم مسلمانوں میں سے زیادہ تر، اپنے بستر پر پڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں یورپ و امریکہ جاپان و چین میں شب کے پہلے پہر بعد نوے فیصد رہائشی علاقوں میں تجارتی سرگرمیاں مفقود کراتے ہوئے، یہاں تک گاڑی کے ہارن بجانے تک کو ممنوع قرار دیتے ہوئے،شب کو آرام و سونے کا وقت نہ صرف بتلایا
اور جتلایا جاتا ہے بلکہ ان رہایشی علاقوں میں ہارن بجانے یا شور شرابہ کرنے پر قانونی شکنجہ بھی کسا جاتا ہے۔ جو قوم شب کی تاریکیوں میں آرام کرنے کی اور صبح کی پہلی کرن کے ساتھ معاش کی تلاش میں سرگرداں رہتی پائی جاتی ہے رزاق و مالک دوجہاں، ان پر رزق کبھی تنک نہیں کیا کرتے ہیں۔ انہی اسلامی اوصاف کو من حیث القوم، جب چائینیز نے اجمالی طور اپنایا اور اللہ کے رسولﷺ کے عملا کر دکھائے سب سے بابرکت پیشہ تجارت کو اپنے لئے متعین کیا تو،آج دو تین دہوں کی محنت بعد کل عالم یہ دیکھ کر حیران و ششدر رہ جاتا ہے کہ، کس طرح سے چائینیز قوم نے پورے عالم کے اکثر ملکوں کی دو تہائی تجارتی وصنعتی ضروریات کو تجارت طرز برآمد کرتے ہوئے، عالم کا معشیتی سربراہ تو بن چکا ہے بلکہ حربی طور، بعد امریکہ،عالم کی سربراھی کرنے قابل رہتے ہوئے بھی،اپنے دیرینہ حربی و تجارتی دوست پاکستان کو عالم کی سربراہی کی دوڑ میں آگے کرتے ہوئے، خود عالمی تجارت ہی میں مسرور و مسحور رہنے کو ترجیح دیتے پایا جاتا ہے۔
ہم اہل نائط ہزاروں سال سے عرب و بھارت تجارت کرتے، جنوبی بھارت میں ہزار بارہ سو سال مستقلا سکونت اختیار کر بھارت ہی کو اپنا مستقل وطن قرار دینے والے، ابھی سالوں قبل تک برما سیلون تجارت کرتے کرتے بھارت کے اکثر شہروں میں اپنی کامیاب تجارت کے جھنڈے گاڑنے والے ، اسی کے دیے بعد پیٹرو ڈالر سے مالا مال مختلف عرب ریاستوں میں بھی اپنے فن تجارت سے عرب کے بازاروں پر چھا جانے والے، خلیج کی آسان دولت حصول کے دروازے، ہم خارجئین اقوام پر بند ہوتے پس منظر میں، آج ہم اپنے میں سے اکثر بھائیوں کو، کڑی محنت و مشقت سے جان چراتے، آسان دولت کے حصول کے منتظر ہم انہیں پاتے ہیں۔ جب کہ عالم اس بات کا گواہ ہے کہ آج بھی محنت و مشقت سے اگر اپنے آبائی پیشہ تجارت کو صحیح معنوں اپنایا جائے تو بھارت و پاکستان کے مختلف شہر گاؤں میں، بے شمار تجارت کے مواقع موجود ہیں۔ قبل از وقت اگر اور مگر کا راگ الاپنے والے یا اتنی کثیر رقم کے بغیر شہروں میں تجارت ممکن نہیں سوچنے والے، سوچتے ہی رہ جاتے ہیں۔ اور اپنے لئے مواقع تیار کرنے والے اپنی محنت سے آگے بہت آگے نکل جاتے ہیں۔
یہاں ہم کیرالہ کے ایک کامیاب مسلم تاجر کا واقعہ بیان کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ بزنس ایڈمنسٹریشن کی اعلی ڈگری حاصل کرتے ہوئے ایک کامیاب تاجر بننے کا خواب ہمہ وقت دیکھنے والا نوجوان بارویں میں فیل ہونے پر، اس کے سرپرست اس کی مرضی کے خلاف اسے کھیت جوتنے پر مجبور کرتے ہیں تو اپنے والدین کو کچھ کر دکھانے کے وعدے سے،بنگلور اپنے دوست کے پاس چلا آتا ہے۔اسکا دوست تو صبح سویرے اپنی ڈیوٹی پر چلا جاتا ہے
وہ رہائشی کمرے کے پاس چھوٹے سے ہوٹل میں ناشتہ کھاتے وقت دو ایک دنوں بعد ناشتہ مصالحہ دوسہ میں کھٹاس محسوس ہوتے جرح کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ دوسے کا آٹا بنانے والا کاریگر لڑکا اچانک ایمرجنسی چھٹی پرجانے کی وجہ سے، کسی دوسرے کے ہاتھ پسا آٹا کچھ کھٹاس محسوس کرارہا ہے۔ چونکہ وہ گھر میں امی جان کی مدد کرتے دوسے کا آٹا پیسنے کے فن سے آشنا تھا۔ دن بھر سوچ کر خالی رہنے کے بجائے اپنے کمرے ہی میں دوسے کا آٹا پیس اس ہوٹل والے کے پاس جا پہنچتا ہے اور اس آٹے کو دیتے ہوئےکہتا ہے کہ آپ اس آٹے سےدوسہ بنا کر آج بیچ لیں، اگر میرا پیسا آٹا آپکے گراہکوں کو پسند آجائے تو میں روزانہ صبح سویرے ایسا آٹا پیس کر لادیا کرونگا۔
وہاں سے اس کی قسمت کے دروازے وا ہوتے ہیں۔وہ چھوٹے سے ہوٹل والا اس سے روزانہ کی بنیاد پر اتنے کلو پسا ہوا دوسہ آٹا لینے لگتا ہے ۔ وہ نوجوان اپنے لئے مزید گراہک ڈھونڈتے آس پاس کے کئی چھوٹے ہوٹل والوں سے رابطہ قائم کر، کافی مقدار میں،ریڈی میڈ دوسہ آٹے کا آرڈر لانے میں کامیاب رہتے، اپنے اسی کمرے میں شروعاتی دنوں میں، ایک الکڑیکل گرائینڈر لاتے ہوئے،اپنی دوسہ آٹا سپلائی کرنے کا کاروبار شروع کرتا ہے
اور جیسے جیسے اس کا کام بڑھنے لگتا ہے تو ایک پورا رہائشی گھر کرائے پر لیتے یوئے، دوسہ آٹا سپلائی فیکٹری بناتے ہوئے، کئی ملازمین کو اپنے ماتحت رکھ کر پورے بنگلور شہر کو ریڈی میڈ دوسہ آٹا سپلائی کرنے لگتا ہے۔ اور یوں ایک وقت بعد کئی شہروں میں اس کی تجارت کی شاخیں کھلتے ہوئے، ہائیجینک پیکنک میں مختلف دوسہ اٹلی ریڈی میڈ آٹا ایکسپورٹ کرنے والی اپنی تجارت کو6 ہزار کروڑ کی کمپنی میں تبدیل کرتے ہوئے، بعد کے دنوں میں ماسٹر آف بزنس ایڈمنسٹریشن کی ڈگری حاصل کر ، بیسٹ اینٹرپرنر آف دی ائر کا ایوارڈ تک حاصل کرنے میں کامیاب وہ رہتا ہے
زمانہ اس بات کا شاھد ہے جب بھی حضرت انسان محنت و مشقت ایمانت داری سے کوئی بھی رزق حلال کے طریقے پر توکل علی اللہ اپنی تجارت شروع کرتا ہے تو یقینا رزاق دو جہاں اس کی تجارت میں اس کے لئے برکت ڈالتے ہوئے، اس کی تجارت کو ترقی پذیر ی کی راہ پر گامزن کردیا کرتے ہیں اس لئے آج کے کورونا قہر کرام والے، بڑھتی بے روزگروان کی ایک لامتناہی فوج کے ہر گاؤں شہر میں موجود رہتے پس منظر میں بھی، اگر اللہ کا کوئی بندی رزاق دو جہاں پر تو کل کرتے ہوئے،چھوٹے سے چھوٹے رزق حلال کے طریقہ کو اپنے لئے اپناتے ہوئے، مستقل مزاجی کے ساتھ محنت و مشقت کے ساتھ اس تجارت کو شروع کرے تو یقینا رزاق دو جہاں اس کے لئے اسی تجارت میں بے پناہ برکت عطا کرتے ہوئے کامیاب تاجر بنا سکتے ہیں۔واللہ الموافق بالتوفیق الا باللہ