ظلم کہاں؟ 196

ظلم کہاں؟

ظلم کہاں؟

فاطمتہ الزھرہ، لاہور
جب جب میں سنتی ہوں کہ لڑکی کے ساتھ ناانصافی ہوئی۔ میرے کان کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن بخدا اپنی نظر دوڑانے پر مجھے ہمیشہ یہی نظر آتا ہے کہ ظلم لڑکے کے ساتھ ہوا۔آخر کیوں؟ لڑکی اور لڑکے میں فرق کیوں؟ اور اس فرق نے نقصان کس کا کیا؟ اچھی تربیت لڑکوں کا بھی حق ہے۔ ہنر سیکھنا لڑکوں کا بھی حق ہے۔تمیز، تہذیب اور آداب سیکھنا لڑکوں کا بھی حق ہے۔ساری مراعات لڑکیوں کے لیے ہی کیوں؟ اور ساری آوارگی لڑکوں کے لیے ہی کیوں؟ کیا حشر والے دن لڑکوں کی تربیت کا حساب نہیں ہونا؟
ایک آواز: ”سسرال جاکر ناک کٹوائے گی”
”ماشااللہ! میں نے اپنی بیٹی کی ایسی تربیت کی ہے کہ سسرال جاکر والدین کا نام روشن کرے گی”اچھا!! اب میں سمجھی! حشر کے دن کی فکر ہے ہی کسے؟ یہاں تو لوگوں کو اپنی دنیاوی عزّت کی فکر ہے، نام کی فکر ہے۔ کیوں؟افسوس!! صد افسوس! اگر ہم قرآن مجید کی اس آیت کا مفہوم پڑھ لیتے کہ:”تمہارا مال اور اولاد تمہارے لئے آزمائش ہیں”تو کوئی لڑکوں کے ساتھ ناانصافی نہ کرتا۔کوئی ان کو آوارہ شہنشاہ بننے کے خواب نہ د کھاتا۔ایک اور آواز: ”پڑھ لکھ کر کیا کرنا ہے، اگلے گھر جاکر کر نی تو چولہا ہانڈی ہی ہے۔”چولہا ہانڈی صحت بنا سکتا ہے لیکن نسل کی تربیت کے لیے تعلیم شرط ہے جو ایک لڑکی کا حق بھی ہے۔ یہ حق لڑکی سے لے کر نہ صرف اس کے ساتھ بلکہ اس کی پوری نسل کے ساتھ ظلم کیا جاتا ہے۔
ایک اور آواز:’’بیٹا! تم حاکم ہو،حکم دو۔ تم مجازی خدا ہو۔تم جو مرضی چاہے کرو تم مرد ہو اور عورت سے برتر ہو۔لڑکوں کے دماغوں میں یہ باتیں ڈالنا ان کی زندگی برباد کرنے کے مترادف ہیدرحقیقت یہ وہ ظلم ہے جسے ایک ماں لڑکے کی تربیت کا حصہ سمجھتی ہے۔ کیوں؟آخر کیوں؟یہ قبول ہے کہ مرد حاکم ہے لیکن حاکم کا شیوہ انصاف ہوتا ہے۔ حاکم کا وصف رعایا کی خوشحالی ہوتا ہے۔ یہ قبول ہے کہ تم مجازی خدا ہو۔پھر،خدا تو اپنے بندوں سے بہت محبت کرتا ہے اور تم، مان لیا تم حقیقی خدا نہیں مجازی خدا ہو تو تم مجازی خدا بنو۔ یاد رکھو! عورت کو تمہارے سر سے نہیں پیدا کیا گیا کہ تم پر حکمرانی کرے نہ ہی تمہارے پیر سے کہ تمہاری جوتی بنیبلکہ اسے تمہارے جسم کے قریب ترین حصے سے پیدا کیا گیا ہے کہ اس میں رہے۔
ہاں! غلط بات پر روکنا تمہارا حق ہے لیکن روکنے کے لیے بہترین طریقہ اپنا نا بھی تمہارا فرض ہے۔ کیا مارپیٹ سے عورت کبھی رکی ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں! بلکہ وہ باغی ہوگئی۔ یاد رکھو! اسے ٹیڑھی پسلی سے پیدا کیا گیا ہے۔ اسے سیدھا کرنے سے تمہیں منع کیا گیا ہے کہ ایسا کرو گے تو ٹوٹ جائے گی۔ اس کے ٹیڑھے پن کے ساتھ گزارا کرو، پس پیار سے اصلاح کرتے رہو۔ یاد رکھو! عورت پیار کے علاوہ کوئی زبان نہیں سمجھتی۔ اگر عورت کسی غیر مرد کو پسند کر رہی ہے تو اس کی وجہ وہ عدم تحفظ ہے جو تمہاری طرف سے اسے ملا۔ اگر وہ تم سے کچھ چھپا رہی ہے تو اس کی وجہ تمہارا عدم اعتماد ہے اور اگر وہ کسی غیر مرد سے محبت کر رہی ہے تو اس کی وجہ تمہاری محبت کی کمی ہے جو تم نادانستہ طور پراپنی برتری ظاہر کرنے میں کرتے ہو۔ ہاں! اگر تم عورت کو تحفظ، اعتماد اور محبت فراہم کرو اور پھر وہ خیانت کرے تو تم اپنے اختیارات استعمال کرو لیکن حدود سے آگے نہ بڑھو۔ عورت کے ساتھ انتقام کی ضد جہالت کا عملی ثبوت ہے۔
ایک اور آواز:’’نہیں مانتی تو دو چماٹ لگا!‘‘
اچھا ہے! اچھا ہے! لگا دو دو چماٹ خوشی سے! وہ تو دو چماٹ کھاکر رود ھو کر چپ ہو جائے گی لیکن تمہارے یہ چماٹ قرض رہیں گے جو قرض قدرت کے قانون کے مطابق تمہاری لاڈلی بیٹی ادا کرے گی اور پھر وہی بیٹی تمہاری عزت کی پاسداری کے لیے تمہارے کیے ہر ظلم کا قرض اتارے گی لیکن تم اس وقت بھی اپنے غم و غصے میں الزام عورت کو دو گے کہ تربیت اچھی نہیں کی۔ درحقیقت بے بسی میں ابلیس بھی فرشتوں کو ہی الزام دیتا ہے۔ جس میں جو کمی ہوتی ہے وہ دوسرے میں وہی کمی دیکھتا ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہوں گی کہ غلطی تمہاری نہیں۔
چند وحشتناک آوازیں:
’’فلاں کی لڑکی اغوا ہوگئی‘‘
’’فلاں کی بیٹی کے ساتھ زیادتی ہوگ?۔‘‘
’’چھوٹی سی بیٹی کچن میں برتن دھو رہی ہے اور بیٹا صحن میں سائیکل چلا رہا ہے۔‘‘کیوں؟’’بھئی لڑکی کو ابھی سے سب کچھ سکھاؤں گی نا تاکہ سسرال جاکر کوئی مشکل نہ ہو اور بیٹا، وہ تو شہزادہ ہے۔ بڑا ہو کر ہمارا بازو بنے گا۔‘‘اگر تم اپنی بہن کے محافظ بنتے تو کبھی وہ اغوا نہ ہوتی۔ اگر باپ کا، بھائی کا اور شوہر کا محبت اور شفقت بھرا ہاتھ سر پر ہو تو نہ کبھی کسی بیٹی کے ساتھ زیادتی ہو، نہ کسی کے سر سے دوپٹہ اترے۔ بیٹی کی تربیت سسرال والوں کے لیے اور بیٹے کی شہنشاہی اپنے لیے۔ واہ بھئی! واہ! آخرت کی کوئی فکر ہی نہیں؟ شہزادہ تو دوسری شہزادیوں کی بہت عزت کرتا ہے۔پھر تم جب دوسری لڑکی کی طرف دیکھتے ہو تو اپنی بہن کا نصیب کیوں یاد نہیں آتا؟

یاد رکھو! اگر یہ تمہارے ہوتے ہوئے گناہ میں ملوث ہو گ? تو اکیلے جہنم میں نہیں جائے گی۔ تمہیں لے کر جائے گی پھر خواہ تم کتنے ہی دین دار اور پرہیزگار کیوں نہ ہو۔ کیوں برتن دھونا مرد کو نہیں سکھایا جاتا؟ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی دھوتے تھے۔ کیوں آٹا گوندنا بیٹے کو نہیں سکھایا جاتا؟ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی تو گوندتے تھے۔ کیوں جھاڑو لگانے سے لڑکوں کو حقارت آتی ہے؟ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی تو لگاتے تھے۔ کیوں؟ آخر یہ ناانصافی لڑکوں کے ساتھ کیوں؟کیا ان کا حق نہیں کہ ان کی اچھی تربیت ہو۔
اپنی تحریر کے اختتام پر میں ان ماؤں سے معافی مانگتی ہوں جن کی تربیت پر میں نے انگلی اٹھائی لیکن بخدا یہ حقیقت کی آواز تھی جو آج میں نے بلا خوف و خطر قلم بند کر ڈالی کیونکہ اللہ کے حکم سے مجھے میرے بھائی کا تحفظ حا صل ہے، میرے باپ کا اعتماد حاصل ہے اور میری امی نے میری یہی تربیت کی ہے

کہ مناسب الفاظ میں ادب کے دائرے میں رہتے ہوئے حق بات کہ ڈالو پھر چاہے وہ زبان سے یا قلم سے۔ آج میں نے قلم اٹھایا ہے اب آپ کی باری ہے! آپ قدم اٹھائیں۔ اگر ایک ماں ہیں تو خدارا بیٹے کے ساتھ ناانصافی نہ کریں۔ اسے انسان بنائیں، حیوان نہیں۔ یاد رکھیں! ’’جہاں قوانین اور حدود لاگو ہوں وہاں آزادی ہے لیکن جہاں آزادی کے نام پر اور مہم جوئی کے نام پر قوانین کی دھجیاں اڑائی جائیں وہاں آوارگی ہے۔‘‘
اگر بہن ہو تو بھائی کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے دعا گو ر رہیں کیونکہ ’’دعا وہ ہتھیار ہے جو تقدیر کو بدل دیتی ہے پھر مرد کی فطرت کیا چیز ہے۔‘‘ اگر بیٹی ہو تو خدا کا شکر ادا کرو کہ رحمت ہو اور باپ کی عزت کی امین ہو۔ بس ماں باپ کی محبت کے لئے دعا گو رہو کیو نکہ ماں باپ کی محبت سے بیٹی کا مستقبل جڑا ہوتا ہے۔
جزاکہ اللہ!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں