ذوالفقار علی بھٹو شہید’ ایک مدبر سیاستدان 184

ذوالفقار علی بھٹو شہید’ ایک مدبر سیاستدان

ذوالفقار علی بھٹو شہید’ ایک مدبر سیاستدان

ذوالفقار علی بھٹو شہید’ ایک مدبر سیاستدان
سید عمر گردیزی ، تیسری آنکھ
جو سولی پر بھی مسکرائیں ، پی کر زھر بھی نہ گھبرائیں
تم چلاؤ گولیاں ، خون کی کھیلو ہولیاں

پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو شہید کی شخصیت پاکستان کی سیاسی تاریخ میں افسانوی کردار کی حامل ہے۔ کوئی بھی سیاسی بحث ذوالفقار علی بھٹو شہید کے تذکرے کے بغیر نامکمل محسوس ہوتی ہے۔ انہیں پاکستان کی کروڑوں عوام نے سیاسی شعور بیدار کرنے کی جرم میں پاداش میں تختہ دار پر لٹکایا گیا کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو شہید نے سیاست کو محلات سے نکال کر گلی کوچوں کھیتوں کھلیانوں اور مزدوروں کی جھونپڑیوں تک پہنچا دیا تھا۔
دنیا میں ایسی شخصیات بہت کم ہوتی ہیں جو اپنے کردار اور اعلیٰ اوقاف حمیدہ کی بدولت تاریخ کا سنہرہ باب بن جاتی ہیں، ایسی ہی ایک شخصیت کا نام میر شاہنواز نے ذوالفقار علی بھٹو رکھا۔ میرشاہنواز ایک مدبر سیاست دان تھے، جن کا ہندوستان کی سیاست میں نمایاں کردار تھا۔ تحریک پاکستان کے وقت آپ کے والد شاہنواز بھٹو ممبئی کابینہ کے اہم وزیر بنے، شہید ذوالفقار علی بھٹو کے والد نے اپنے بیٹے کی پرورش اور تربیت دینی اور دنیاوی تعلیم سے کی۔ چھ سال کی عمر میں کراچی بشپ ہائی سکول میں داخل کروایا’ 1937ء میں آپ کا خاندان ممبئی منتقل ہوگیا جہاں انہیں

کینڈرل ہائی سکول میں داخل کروایا۔ 1947ء کے اوائل میں لاس اینجلس کی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں اعلیٰ تعلیم کیلئے داخلہ دلوایا، مزید تعلیم کیلئے 1949ء میں برکلے یونیورسٹی آف سٹی سے سیاسیات میں آنرز کی ڈگری حاصل کی۔ وطن واپس آنے کے بعد کراچی میں جزوی اور قانون کے پروفیسر کا پیشہ اختیار کیا۔ تعلیم وکھیل کے علاوہ تاریخ’ فلسفہ’ سیاست اور شخصیات پر لکھی کتابوں کا مطالعہ کرتے رہے، اس مطالعہ نے شہید بھٹو کو انسانیت دوست بننے میں کافی مدد کی اور شہید بھٹو اور اردگرد کے طبقاتی ماحول اور طبقات کی کشمکش کا مشاہدہ کرتے رہے،

وہ اپنی عزت نفس کیساتھ دوسروں کی بھی عزت نفس کا خیال رکھتے تھے۔ شہید بھٹو کی پہلی بیوی شیریں امیر بیگم سے کوئی اولاد نہ ہوئی جبکہ دوسری بیوی نصرت بھٹو کے بطن سے چار بچے’ بینظیر’ مرتضی’ صنم اور شاہنواز پیدا ہوئے۔16دسمبر1971ء میں نامساعد حالات میں بھٹو نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی’ انہوں نے ایک تھکی ہاری اور شکست خوردہ قوم کی رہنمائی کی، انہوں نے بچے کھچے پاکستان کو صرف 6سال میں مستحکم اور مضبوط اور تیسری دنیا کا ایک انقلابی ملک بنا دیا۔ انہوں نے نہایت پامردی’ ہمت اور بلند حوصلگی سے اپنے فرائض سرانجام دیئے۔ 20ستمبر 1971ء کو وہ اسی کرسی پر رونق افروز ہوئے جس کو بانی پاکستان نے شرف عظمت بخشا تھا۔ یہ کرسی پاکستان کی عظمت کی کرسی کہلاتی ہے

اور بھٹو عوامی تائید کی بناء پر ہی اس کرسی پر بیٹھنے کے حقدار ٹھہرے۔ وزیراعظم بھٹو شہید کا عہد حکومت 20دسمبر1971ء سے 4جولائی 1977ء تک محیط تھا، انہوں نے ملکی ترقی کا سفر پیچھے سے شروع کیا اور صرف چھ سال کے قلیل عرصے میں اسے بام عروج تک پہنچا دیا۔ ملکی ترقی وکمال کے بہت سے منصوبے شروع ہوئے اور پایۂ تکمیل کو پہنچے۔ مملکت خداداد کے تمام کلیدی ادارے بھٹو کے عہد حکومت میں ہی تشکیل پائے۔ ان منصوبوں میں سرفہرست پاکستان کا جوہری پروگرام’ پاکستان سٹیل ملز’ معیشت کی بحالی’ تعلیمی اداروں کا وسیع جال’ میڈیکل کالجز’ زرعی اصلاحات’ انگریزی خطابات کا خاتمہ’ محنت کشوں کا تحفظ’ عوامی سیاسی شعور کی بیداری اور افرادی قوت کی بیرون ملک برآمد شامل ہیں۔

ان کے دورحکومت میں ہی مملکت کو ایک متفقہ آئین بحریہ1973ء نصیب ہوا، ان کا ایک انمٹ اور زریں کارنامہ ہے۔ 90سالہ قادیانی فتنہ بھی آپ کے دورحکومت میںختم ہوا۔قادیانی آئین پاکستان کی رو سے غیرمسلم قرار پائے، آئین میں مسلمان کی متفقہ تعریف شامل کی گئی’ صدر’ وزیراعظم اور دیگر تمام کلیدی عہدوں کیلئے مسلمان ہونا ضروری قرار پائے۔ ختم نبوتۖ کے اقرار کو ہر کلیدی عہدے کے حلف نامے میں شامل کیا گیا، ملک عزیز میں پہلی بار شناختی کارڈ کا اجراء کیا گیا، عوام کو پاکستانی شناخت دی گئی، الغرض ملکی تعمیر وترقی کا ایک نیا سفر شروع ہوا۔ قائد عوام بھٹو خارجہ امور کے بہترین ماہر تھے، وہ صرف تیس سال کی عمر میں پاکستان کے وزیر خارجہ بن گئے۔ ذہانت ومتانت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی،

ایسا ذہین شخص پاکستان کو آج تک نہیں مل سکا۔ ماہر سیاست دان اور قادر الکلام خطیب تھے، لاکھوں انسانوں کے اجتماع سے گھنٹوں خطاب کرتے، انہوں نے متعدد بار پاکستان کی نمائندگی کی۔ چین’ ایران’ انڈونیشیا اور عرب ممالک سے روابط کا اہتمام کیا، امریکہ چین تعلقات کو بہتر بنانے میں خصوصی کردار ادا کیا، پاک چین لازوال دوستی کا آغاز انہی کے عہد میں ہوا۔ مسلم امہ کی یک جہتی کیلئے انتھک کوششیں کیں،1972ء میں لاہور دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کا پہلا اور آخری کامیاب انعقاد کرایا۔ اس کے بعد اسلامی سربراہی کانفرنس کا ایسا انعقاد آج تک نہ ہو سکا۔ قائد عوام کے کروڑوں چاہنے والے آج بھی ہیں اور ان کے مخالفین بھی ان کے مزار پر جا کر خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ ظاہری طور پر آج مسٹر بھٹو ہمارے درمیان نہیں ہیں

لیکن ان کی پارٹی’ ان کی یادیں اور زریں کارنامے ہمیشہ تاریخ کے اوراق میں زندہ رہیں گے۔ انہوں نے اپنے متعلق کہا تھا’ جب تک برساتوں میں غریب کے گھر کی چھتیں ٹپکتی رہیں گی میں زندہ رہوں گا، میں زندہ رہوں گا، میں کبھی نہیں مروں گا۔ میں اپنی قبر میں تمہارے آگے بڑھتے قدموں کی چاپ سنوں گا، میں تمہاری مشکل میں زندہ رہوں گا، میں اس دھرتی کی شکل میں زندہ رہوں گا، میں شاعر انقلاب ہوں، میں نے تمہارے لیے زندگی کے نغمے لکھے ہیں۔
آج ذوالفقار علی بھٹو شہید کی 42 ویں برسی منائی جارہی ہے آج کے دن پیپلز پارٹی کے کارکن انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے ان کے مزار پر حاضری دیں گے اور یہ عہد کریں گے کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کے افکار اور نظریات کے مطابق پاکستان کو ایک حقیقی جمہوری ریاست بنانے کیلئے اپنی اصولی جنگ جاری رکھیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں