"پاکستان سمیت دنیا بھر میں آن لائن فراڈ" 128

’’کپتان جی صرف جہانگیر ترین احتساب کے کٹہرے میں کیوں؟‘‘

’’کپتان جی صرف جہانگیر ترین احتساب کے کٹہرے میں کیوں؟‘‘

تحریر اکرم عامر سرگودھا
وٹس ایپ،03063241100
موبائل،03008600610
شوگر مافیا کی انکوائری کیلئے تشکیل دی گئی جائینٹ انوسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی)نے جب مارچ 2020میں اپنی رپورٹ وزیراعظم پاکستان عمران خان کو پیش کی تو اس رپورٹ میں اپوزیشن کے ساتھ حکومتی اہم شخصیات کے نام بھی تھے جن میں عمران خان کو اقتدار میں لانے میں نمایاں کردار ادا کرنے والے جہانگیر خان ترین بھی شامل تھے،شوگر مافیا کے بارے رپورٹ پر عوام قیاس آرائیاں کررہے تھے کہ جن شخصیات کے خلاف رپورٹ آئی ہے وہ اتنے بااثر ہیں کہ ان پر ہاتھ ڈالنا حکومت کے بس کی بات نہیں، کیونکہ یہ وہ سرمایہ دارمافیا ہے بیوروکریسی جن کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی ہے، پھر اپریل 2020 میں پی ٹی آئی میں شامل جہانگیر ترین اور پی ٹی آئی میں ان کے مخالف ایک دھڑے میں لفظی جنگ شروع ہوئی

تو عوام اسے بھی پی ٹی آئی کے کھلاڑیوں میں نورا کشتی قرار دے رہی تھی، کیونکہ یہ ان دنوں کی بات ہے جب جہانگیر خان ترین سیکنڈ وزیراعظم جتنا پروٹوکول رکھتے تھے اور وزیر یا مشیر نہ ہونے کہ باوجودِ وفاقی کابینہ کے اجلاسوں میں شریک ہوتے تھے،اور پی ٹی آئی میں ان کی رائے کو ترجیح دی جاتی تھی،کپتان کے اہم فیصلوں میں جہانگیر ترین کی مشاورت شامل ہوتی تھی اور پنجاب ،سندھ ،بلوچستان،خیبرپختونخواہ میں پولیس آئی جیز، چیف سیکرٹریز اور اہم عہدوں پر تعیناتیاں جہانگیر خان ترین کی مرضی کے مطابق ہوتی تھیں، بیوروکریسی اور پی ٹی آئی میں جہانگیر خان ترین کاطوطی بولتا تھاکہ مئی2020 میں کپتان کا شوگر مافیا کے بارے بیانیہ سامنے آگیا اور عمران خان نے

جے آئی ٹی کی رپورٹ پر احتساب بلا امتیاز کا عندیہ دے دیا،پھر سب نے دیکھا کہ پی ٹی آئی حکومت کے مشیر احتساب نے جہانگیر خان ترین پرکرپشن کا الزام لگایا اور شوگر مافیا کا سرغنہ قرار دیا تو جہانگیر ترین نے باوجوہ چپ سادھ لی اور بیرون ملک چلے گئے، اور چند ماہ گزار کر وطن واپس آئے، اس دوران ایف آئی اے اس معاملے کی انکوائری کرتا رہا،مگر قانون نافذکرنے والے کسی ادارہ نے شوگر سکینڈل میں ملوث کسی بھی شخصیت کی گرفتاری کے لئے نہ تحرک کیا اور نہ ہی کسی شخصیت نے ضمانت کیلئے عدالت سے رجوع کیا ،چند روز قبل شوگر سکینڈل میں جہانگیر خان ترین اور ان کے بیٹے علی ترین نے اپنی اوراپنے اہلکاروں کی عدالت سے رجوع کرکے عدالت سے ضمانت قبل از گرفتاری کرالی

جہانگیر خان ترین جب عدالت میں پیش ہوئے تو حکومتی 14 ارکان قومی وصوبائی اسمبلی انکے ساتھ تھے جن کا کہنا تھا کہ وہ جہانگیر خان ترین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے پیش ہوئے ہیں۔ 2018 میں جہانگیر ترین اگر کوشش نہ کرتے تو کپتان کا وفاق اور پنجاب میں اقتدار میں آنا مشکل تھااگر جہانگیر ترین کوشش نہ کرتے تو عمران خان کو اعتماد کا ووٹ ملنا مشکل تھا۔ جبکہ جہانگیر خان ترین کا کہنا تھا کہ وہ تودوست تھا دشمنی کی طرف کیوں دھکیلا جارہاہے؟جس کہ جواب میں مشیر احتساب نے پھر2020,والے الفاظ دہرائے کہ اپنوں کا بھی احتساب کرناہوگا،

جہانگیر خان ترین کے ارکان اسمبلی کے ساتھ عدالت میں پیش ہونے کی خبر میڈیا پر چل رہی تو راقم کو جولائی 2018کے وہ دن یاد آگئے جب ملک میں جنرل الیکشن ہوچکے تھے اور پاکستان تحریک انصاف کو حکومت بنانے کیلئے بالخصوص وفاق اور پنجاب میں آزاد حیثیت سے جیتے والے ارکان اسمبلی کی حمایت ہر صورت درکار تھی، جہانگیر خان ترین جو خود عدالت سے الیکشن لڑنے کیلئے نااہل قرار دیئے جا چکے تھے اور ان کہ بیٹے علی ترین قومی اسمبلی کا الیکشن ہار چکے تھے کہ اچانک جہانگیر خان ترین کا طیارہ فضا میں بلند ہوا،اور پنجاب کے آزاد ارکان صوبائی اسمبلی، اور ملک سے آزاد جیتنے والے ارکان قومی اسمبلی کی اکثریت کو بنی گالا لاکر اکٹھا کر کے کپتان کی یاترا کرائی اور انہیں کپتان کی ٹیم میں بطور کھلاڑی شامل کرایا،

مسلم لیگ ق اور دیگر جماعتوں سے پی ٹی آئی کا اتحاد کرایا جس کے نتیجہ میں کپتان وزیراعظم پاکستان،اور عثمان بزدار وزیر اعلیٰ پنجاب بنے تھے، ان خدمات کے صلہ میں سیاست میں نااہل ہونے کہ باوجود جہانگیر ترین ملکی سیاست اور ملکی امور چلانے میں اہم کردار ادا کر رہے تھے کہ نادیدہ طاقتوں نے اپنا کام دکھانا شروع کیا اور چینی سکینڈل کی صورت میں جہانگیر خان ترین سمیت دیگر شخصیات کے خلاف کیس سامنے آ گیا، لیکن حیران کن امر یہ ہے کہ چینی سکینڈل میں جہانگیر خان ترین کے علاوہ کسی اپوزیشن یا حکومتی شخصیت نے عدالت سے ضمانت کیلئے رجوع نہیں کیا،

جبکہ جہانگیرترین کے خاندان کے 36 اکائونٹ منجمد کر دیئے گئے ہیں، جن میں کروڑوں روپے کی رقم موجود ہے، ان میں 2 برطانوی پائونڈز اور 30 پاکستانی کرنسی کے اکائونٹ بھی شامل ہیں، جہانگیر ترین اور علی ترین گزشتہ روز ایف آئی اے لاہور میں اپنے وکلاء کے ہمراہ شامل تفتیش بھی ہوئے، تو یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ شوگر سکینڈل میں صرف جہانگیر ترین کو ہی گرفتاری کا خطرہ تھا اور گرفتاری سے بچنے کے لئے جہانگیر ترین، ان کے بیٹے علی ترین اور ان کے ملازمین نے عدالت سے عبوری ضمانت کیلئے رجوع کیا، جہانگیر ترین، علی ترین جیل جائیں گے؟

یا عدالت ان کی ضمانت کنفرم کردے گی؟ جہانگیر ترین، علی ترین شوگر سکینڈل میں عدالت سے بری ہوں گے یا سزا پائیں گے؟ یہ فیصلہ اب عدالت نے کرنا ہے؟ کیونکہ جہانگیر ترین نے عدالت سے رجوع کرلیا ہے،اور وہ کپتان کو اب بھی اپنی وفاداری جتلارہے ہیں، جبکہ 14 ارکان قومی اسمبلی بھی کھل کرجہانگیر ترین کی حمایت میں سامنے آگئے ہیں اور دعویٰ کیا جارہاہے کہ جوں جوں کیس چلے گا جہانگیر ترین کے حامی ارکان اسمبلیز میں اضافہ ہوتا جائے گا، کہا جا رہا ہے کہ یہ جہانگیر ترین کا ہم خیال گروپ ہے جن کے اعزاز میں جہانگیر ترین کی جانب سے گزشتہ شب عشائیہ بھی دیا گیا۔ جس میں ارکان اسمبلی کی جانب سے اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ وہ کسی صورت جہانگیر ترین کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔
سیاسی ذرائع کہتے ہیں کہ جہانگیر ترین اور ان کے گروپ کے خلاف کی جانے والی کاروائیوں کی اصل وجہ پی ٹی آئی کے اندر دو گروپس کا آپس میں طاقت ظاہر کرنا ہے،ان دونوں گروپوں کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے،ایک گروپ کی قیادت جہانگیر ترین اور دوسرے کی وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کر رہے ہیں، جہانگیر ترین کے بارے میں تاثر ہے کہ وہ پیسے کہ بل بوتے پر سیاست کرنے کہ ساتھ ساتھ کپتان کے خیر خواہ اور کپتان کی طرح اکھڑ مزاج سیاست دان ہیں اور نادیدہ طاقتیں شاہ محمود قریشی کو پی ٹی آئی کے اندر اس وقت کیلئے تیار کررہی ہیں جب عمران خان انکے ہاتھ سے نکلے گا

تو پھر نادیدہ قوتیں شاہ محمود قریشی کو پی ٹی آئی میں ایک مہرے کہ طور پر استعمال کریں گی، جہانگیر ترین کے خلاف کارروائی بھی اسی سلسلہ کی کڑی نظر آ رہی ہے تاکہ جہانگیر ترین کوشاہ محمود قریشی کے راستے سے ہٹایا جاسکے، ورنہ جے آئی ٹی نے تو 2020ء میں جو رپورٹ پیش کی تھی اس میں وہ صرف جہانگیر ترین کیخلاف تو نہیں تھی، رپورٹ میں تو متعدد حکومتی ارکان اور حکومت کے اتحادی بھی شامل تھے، لیکن اور کسی شخصیت کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہورہی اور قانون شوگر سکینڈل میں شامل دوسری شخصیات کے بارے چپ سادھے ہوئے ہے، ذرائع کہتے ہیں کہ گزشتہ روز جہانگیر ترین کے ہی ساتھی خسرو بختیار کے بھائی کو طلب کیا گیا ہے ، جب سے پی ٹی آئی کی حکومت برسر اقتدار آئی ہے

اس وقت سے پی ٹی آئی کے اندر جتنی کارروائیاں ہوئی ہیں ان میں اکثریت جہانگیر ترین کے حامیوں کی ہے جن میں سینئر وزیر پنجاب علیم خان، صوبائی وزیر جنگلات سبطین خان تو جیل بھی یاترا کر چکے ہیں ، حالات بتا رہے ہیں کہ جہانگیر ترین کے خلاف کارروائی بھی ایک ایجنڈے کے تحت ہورہی ہے،اگر میرٹ پر کاروائی ہوتی تو جے آئی ٹی کی رپورٹ جس میں حکومتی ، اس کے اتحادی اور اپوزیشن کے سیاست دان بھی تھے سب کے خلاف کارروائی ہوتی،جیسا کہ کپتان نے مئی 2020 میں کہا تھا کہ شوگر سکینڈل میں احتساب سب کا بلا امتیاز ہوگا،لیکن سردست انکوائری و کارروائی جہانگیر ترین اور انکے بیٹے و ساتھیوں کے خلاف ہو رہی ہے جو کہ عجیب منطق ہے، شاہد کپتان یہ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں

کہ احتساب کا عمل پی ٹی آئی کی نمایاں شخصیات کے خلاف بھی ہو رہا ہے، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کپتان جی آپ احتساب بلا امتیاز کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آئے تھے اگر آپ کو کو یاد ہوتو آپ نے کہا تھاکہ کچھ سیاست دانوں نے ملک کو لوٹ لوٹ کر کھوکھلا کر دیا ہے میں ایسے سیاست دانوں کا احتساب کروں گا اور ایسے عناصر کا پیٹ پھاڑ کر رقم نکال خزانہ میں جمع کرائوں گا، تو کپتان جی آپ کی حکومت کا نصف سے زائد دورانیہ گزر چکا ہے مگر ایسی کوئی مثال دیکھنے میں نہیں آ رہی کہ کسی بڑے مگر مچھ سے لوٹا ہوا ملکی خزانہ برآمد ہوا ہو، کپتان جی ضرور کیجئے اپنے محسن جہانگیر ترین کا احتساب،

مگر اپنے وعدہ پر قائم رہ کر احتساب کیجئے بلا امتیاز، اور پکڑ لیجئے اپنے پرائے سب شوگر اور کرپٹ مافیازکو،کیجئے بے رحم احتساب وحساب، تاکہ سیاسی تاریخ میں آپ کا نام سنہری حروف سے لکھا جائے،کپتان جی اگر ایسا نہ کرپائے تو پھر آپ کا نام بھی ملک کی سیاسی تاریخ میں سابقہ سیاستدانوں کی طرح لکھا جائے گا جو نعرے تو احتساب کے لگاتے رہے مگر ملک کو کھوکھلا کرکے بیساکھیوں پر لاکھڑا کیا۔ کپتان جی ضرورت اس امر کی ہے کہ احتساب بلا امتیاز ایسے طریقے سے کریں کہ بڑے مگر مچھوں سے لوٹی ہوئی رقوم برآمد ہوں نہ کہ ان کی میڈیا پر تشہیر۔ تب بنے گا پاکستان ریاست مدینہ، کپتان جی ورنہ تو پرانا پاکستان ہی بہتر ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں