وقولو للناس حسنا (ہمارا اخلاق) 241

وقولو للناس حسنا (ہمارا اخلاق)

وقولو للناس حسنا (ہمارا اخلاق)

حنا وہاب۔ کراچی
ترجمہ۔ اور لوگوں کے ساتھ بھلی بات کرو (سورۃالبقرہ : آیت نمبر 83 )

بھلی بات سے مراد وہ بات ہے جو احسن اور اخلاق کے دائرہ کار میں کہے اور منکرات (جن کو کرنے سے منع کیا گیا) میں سے نہ ہو۔ عرف عام میں بھلی بات سے مراد

1. اللہ تعالیٰ کا کلام اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم

2. لوگوں کے ساتھ اچھی بات کو کرنا یا اخلاق کی ترویج ہے۔

اللہ تبارک وتعالی انسانوں کو جب قرآن کریم میں شریعت کے احکامات بیان فرماتے ہیں،تو وہیں ایک حکم بھلی بات کرنے کا بھی حکم ہے۔ یہ بھلی بات کہنے کو بس اچھی بات ہے مگر حقیقت میں اس میں معاشرے کی تمام تر بھلائی اور ترقی پوشیدہ ہے۔

اگر اس آیت مبارکہ کو دیکھا جائے تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی عبادت کے بعد والدین کے ساتھ احسان اور اپنے رشتہ داروں،یتیموں اور مساکین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا۔اس کے ساتھ ہی فرمایا کہ لوگوں کے ساتھ بھلی بات کی جائے۔
یہ بھلی بات معاشرے کے ہر فرد کے لیے ضروری ہے کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ الفاظ کے بھی دانت ہوتے ہیں اور یہ کاٹتے بھی شدید ہیں۔زبان کے گھاؤ کبھی بھی نہیں بھرتے،مگر ہم لوگ کبھی بھی اپنے آپ کو اس کی طرف آمادہ نہیں کرتے۔بعض اوقات چیزوں کو سیکھنا پڑتا ہے کیونکہ ہم معاشرے کے ہی حال پر چل رہے ہوتے ہیں۔جیسا دیکھتے ہیں ویسا ہی رویہ اختیار کرتے ہیں۔

اگر ہم پہلے اس آیت کے مطابق دیکھیں تو والدین ہمارے محسن اور ہمارے تعمیر کنندہ ہوتے ہیں جو ہمیں ذرے سے کمال کی طرف لے جاتے ہیں، اگر ہم ان کی ہی کے ساتھ برے طریقے سے پیش کریں گے تو ہمارے لیے ہی ہلاکت ہوگی۔اور اسی طرح یتیموں اور مساکین کے ساتھ جو کہ معاشرے کی سب سے زیادہ کمزور کڑی ہیں ان کو بھی دھتکاریں گے تو معاشرہ بگاڑ کا شکار ہو جائے گا کیونکہ نا انصافی ہی جرم کا آغاز کرتی ہے۔

تمہارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر بھلی بات صدقہ ہے ۱؎۔

Sunnan e Abu Dawood#4947

بھلی بات یعنی ہمارا اخلاق معاشرے میں ایک تبدیلی لاتا ہے کیونکہ یہ زبان سے نکلے الفاظ ہی ہیں جو کسی کے لیے کبھی مرہم بنتے ہی۔ اور کبھی یہی الفاظ کسی کے لیے جادو کی جھپی بن جاتے ہیں۔ جو کسی کو بھی اڑنے میں مدد دے سکتے ہیں اور کبھی کبھی کسی مقام پر کھڑا ہونے کے لیے سہارا دے جاتے ہیں۔انسان کی خوبصورتی اس کے اخلاق اور بولے جانے والے الفاظ میں پوشیدہ ہے,جو کہ اس کے عمل سے جھلکتا ہے۔یہ عمل اسے ملتا ہی سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے جو کہ ہمارے ایمان کا بنیادی جزو ہے۔

اگر ہم بد ترین اخلاق والے ہو یا دوسرے الفاظ میں جہالت کے اعلی درجات پر ہوں تو معاشرے میں ہونے والی بدتمیزیاں ہمیں ہی نہیں بلکہ۔ہماری آنے والی نسلوں میں بھی بگاڑ پیدا کرینگی۔ کیونکہ زبان کا بگاڑ دوسری بھی برائیوں کو جنم دے گا کیونکہ بھلی بات کے مقابل ہمیشہ بری بات ہی آتی ہے یعنی کہ غیبت،چغلی اور جھوٹ،گالم گلوچ،لڑائی جھگڑے اور فساد وغیرہ۔.

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اس پر لازم ہے کہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے، جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اس پر لازم ہے کہ اپنے مہمان کی عزت کرے اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اس پر لازم ہے کہ بھلی بات کہے ورنہ چپ رہے۔‘‘

اگر ہم بھلی بات میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی ترویج کو لیں تو اس سے بڑھ کر بھلی بات کوئی نہیں ہوسکتی۔اور یہ وہ بھلی بات ہے جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبے میں بھی موجود ہے کہ سب سے بہترین اور بھلی بات حدیث مبارکہ ہے۔یہ وہ بھلی بات ہے کہ۔جس پر اگر عمل کیا جائے تو انسان کے ہر ہر عمل۔مین بہت بہتری اور تبدیلی آئے گی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے اخلاق کی تربیت کے لیے ہی آئے تھے۔اور ہمارے مکارم اخلاق ہی ہمیں اللہ تعالیٰ کی نظر میں بلند درجہ عطا فرماتی ہیں۔

حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں آتا ہے
” جس نے اپنی زبان کو روک لیا تو اللہ تعالیٰ نے اسکی ستر پوشی کی ”

خلق کی کمی یا بدخلقی انسان کو بدترین درجات پر لے جاتی ہے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اس کی بدتمیزی کی وجہ سے لوگ اس سے ڈریں مگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ سب سے بدترین شخص ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

” بدترین وہ شخص ہے جسکی گفتگو کی وجہ سے لوگ اسے چھوڑ دیں ”

کوئی بھی معاشرہ ہمیشہ اخلاقیات پر ہی بنیاد پاتا ہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم جو بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں وہ ہمارے ہی کام آنے والی ہے،ہماری ہی آخرت کو بہتر بنائے گی مگر یہ صرف ہماری زبان سے ادا ہونے والے الفاظ ہیں جو کہ لوگوں کے سامنے آتے ہیں۔ ان کو ہماری نماز،روزہ،اور حج کوئی فایدہ نہیں دے گی بلکہ ان کو تو ہماری زبان کی گفتگو بہتری دے گی۔

”ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر ایک شخص آیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کون؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ وہ اپنے قبیلے کا بدترین شخص ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر گئے اور اس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے ”

ہم یہ بات بخوبی جانتے ہی کہ ہماری ہر ہر بات تحریر کی جارہی ہے مگر اس کے باوجود ہم جو زبان استعمال کرتے ہیں وہ ہمیں برترین کہلوائے جانے کے لیے کافی ہے۔ جب الفاظ کو لکھا جائے گا تو ہمیں بھی چاہیے کہ بھلی بات ہی کہیں۔
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

اللہ تعالیٰ ناپسند فرماتا ہے انکو جو
1.بے مقصد گفتگو کرئے2.،مال کو ضائع کرئے3. غیر ضروری سوالات کرئے”

یہ بھلی بات ہمیں آخرت کے اونچے منازل کی طرف لے جاتی ہے کیونکہ جب کسی بھی انسان کو حقیر جانے کے بغیر ہم اس سے عزت اور شفقت سے بھلی بات کہیں گے تو اس کے دل میں اٹھنے والا خیال ہو سکتا ہے کہ ہمارے لیے نیکی کا باعث بن سکے۔اللہ تعالیٰ زبان کی لغزشوں پر پکڑ فرمائے گا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بھلی بات کہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں