"پاکستان سمیت دنیا بھر میں آن لائن فراڈ" 166

’’آہ ضیا شاہد بھی آسودہ خاک ‘‘

’’آہ ضیا شاہد بھی آسودہ خاک ‘‘

تحریر اکرم عامر سرگودھا
فون نمبر،03008600610
وٹس ایپ،03063241100
ضیاء شاہد کی وفات کی خبر شعبہ صحافت سے وابستہ ہر فرد کو اس طرح لگی جیسے ان کا کوئی عزیز دنیا سے رخصت ہو گیا ہو،کیونکہ ضیاشاہد ملکی صحافت میں یونیورسٹی کی حیثیت رکھتے تھے ،جن کے تربیت یافتہ قلم کار آج بڑی تعداد میں ملک کے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے سرخیل سمجھے جاتے ہیں۔ مرحوم نے اپنی زندگی کا طویل حصہ صحافت اور شعبہ صحافت سے وابستہ قلم کے مزدوروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے بسر کیا،ضیاء شاہد مرحوم صحافت کے ہر پہلو نشیب و فراز سے بخوبی واقف تھے،وہ خبر اور خبریت کو پرکھنے کی صلاحیت رکھتے تھے،

یہ ان دنوں کی بات ہے جب راقم شعبہ صحافت میں طفل مکتب تھا اورلاہور سے شائع ہونے والے کسی اخبار سے وابستہ ہونے کی کوشش میں تھا،اسی سلسلہ میں 2دسمبر 1990کو 41 جیل روڈ پر روزنامہ پاکستان کے آفس میں میری ستار چوہدری جو کہ 25دسمبر1990کو منظر عام پر آنے والے روزنامہ پاکستان کے انچارج نمائندگان تھے کی وساطت سے ضیاشاہد صاحب سے پہلی ملاقات ہوئی،کافی دیر سوال جواب کے بعد ضیا شاہد صاحب نے مجھے اپنے زیر ادارت 23 روز بعد منظر عام پر آنیوالے روزنامہ پاکستان میں سرگودھا سے نامہ نگار رکھ لیا اور ساتھ تلقین بھی کی

ادارہ کو حقائق پرمبنی خبریں بھجوانی ہیں اور اگر کسی مظلوم کے ساتھ کوئی زیادتی ہو تو ظالم چاہے کتنا بھی بااثر کیوں نہ ہو اس کی خبر(سٹوری)ادارہ کو ضرور بھجوائیں، ظالم کو کیفرکردار تک پہنچا کر اور مظلوم کو انصاف دلا کر دم لینا ہے،اس میں میری(ضیا شاہد) کی ہر مقام پر آپ کو سرپرستی حاصل ہو گی، آپ چھوٹے شہر میں آپ اپنے آپ کو تنہا نہ سمجھنا۔
اس طرح پہلی ہی ملاقات میں ضیاء شاہد نے مجھے اپنا گرویدہ بنا لیا،روزنامہ پاکستان کے مالک ومدیر ایک سیاسی شخصیت ایم این اے اکبر علی بھٹی مرحوم تھے اور میں باہر نکلتے ہی سوچ رہا تھا کہ ایک سیاستدان اور قلمکار کا ذہن میں ہم آہنگی کیسے ہو پائے گی کیونکہ اخبار میں تو حکومت اور اپوزیشن سمیت ہر طبقہ کے حق اور خلاف خبریں شائع ہوتی ہیں ،اور پھر یہی ہوا چونکہ ضیاشاہد اور اکبر علی بھٹی کا مزاج مختلف تھا، یہی وجہ تھی کہ ضیا ء شاہد نے کچھ عرصے کے بعد ہی نمائندگان کے اشتراک سے روزنامہ خبریں کا اجراء کردیا، یہ پہلا اخبار تھا جس میں ہر چھوٹا بڑا نمائندہ شیئر ہولڈر تھا،

اس طرح ضیاء شاہد نے شعبہ صحافت میں جدت پیدا کی، پھر پاکستان سمیت دنیا بھر نے دیکھا کہ ضیاء شاہد ہر مقام پر مظلوم طبقے کی آوازبنا اور صحافت کو نیا رنگ دیا، ضیاء شاہد اور ان کی ٹیم کی رات دن کی محنت سے خبریں کئی شہروں سے شائع ہونے لگا جسے “جہاں ظلم وہاں خبریں ” کے نعرے سے بہت زیادہ پذیرائی ملی۔ ضیاء شاہد کی ذہین سوچ نے کئی علاقوں کی مادری زبان میں خبراں، خبرون، جیسے کامیاب اخبارات شائع کیے اور پھر دوپہر کے اخبار کی بنیاد رکھی، جس کے بعد دوپہر کے کئی روزنامے ضیاء شاہد کے اخبار کی تقلید کرنے لگے،گو کہ میں اس وقت ان کی ٹیم میں نہیں تھا، کیونکہ ضیاء شاہد میرے محسن تھے اور اسی نسبت سے میرا ان کہ ساتھ ایک طویلہ عرصہ تک تعلق رہا، میں نے جب بھی ان سے رابطہ کیا تو مرحوم نے اپنے ادارے سے تعلق نہ ہونے کہ باوجود میری ہر طرح کی راہنمائی کی، ضیاء شاہد کہا کرتے تھے

کہ عزت زلت عروج وزوال صرف خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے انسان کو اپنا کام نیک نیتی سے کرتے رہنا چاہیے، اس کا صلہ خدا کسی نہ کسی وقت ضرور دے دیتا ہے ،ضیاء شاہد نے پرنٹ میڈیا میں وہ عروج پایا جو کم صحافیوں کو نصیب ہوا،الیکٹرانک میڈیا کا دور آیا تو انہوں نے چینل 5کی بنیاد رکھ کر الیکٹرانک میڈیا کے زریعے مظلوم کی آوازوقت کے حکمرانوں تک پہنچائی،پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے پلیٹ فارم سے ضیاء شاہد نے وقت کے بڑے بڑے فرعونوں کو للکارا،مگر وہ اپنے اصول سے نہ کبھی پیچھے ہٹے اور نہ کبھی اصولوں پر سودے بازی کی،ضیاء شاہد سرائیکی صوبے کے بڑے حامی تھے اور اکثر اپنے چینل پر اس حوالے سے پروگرام اور اخبار میں فورم کرتے رہتے تھے جن میں ملک کی مقتدر

شخصیات کو بلا کر سرائیکی صوبے کی اہمیت بارے آگاہ کرتے تھے،میرے نزدیک ضیاء شاہد سرائیکی صوبے کی آواز بلند کرنے والے قافلے کے سپہ سالار تھے،مرحوم ضیاء شاہدایک سچے محب وطن قلم کار تھے جو اپنے ملک سے قلبی محبت رکھتے تھے،راقم سے عرصہ قبل ملاقات میں ضیاء شاہد نے باور کرایا تھا کہ آئندہ جنگ پانی پر لڑی جائے گی، اور پھر چند ماہ بعد بھارت نے پاکستان کا پانی بند کردیا جس پر وقت کے حکمرانوں سے زیادہ ضیاء شاہد پریشان دکھائی دیئے۔ اور یہی وجہ تھی کہ ضیاء شاہد نے اپنے چینل پر اس حوالے سے لاتعداد پروگرام اور اخبار پر کئی فورم کئے ،

میرے خیال میں انڈیا کی جانب سے پانی کی بندش پر قلم اور آواز کے ذریعے بھارت کیخلاف سب سے زیادہ احتجاج ضیاء شاہد نے کیا تھا ،اور آخری دم تک مرحوم قلم اور آواز کے ذریعے پسے ہوئے طبقے کی آواز وقت کے حکمرانوں تک پہنچا کر ان کا ضمیر جھنجھوڑ تے رہے ،میں ان کی یہاں کون کون سی خوبیاں اور ملک وقوم کے لئے خدمات کا ذکر کروں، لکھنا شروع کروں تو قلم کی سیاہی ختم ہو جائے گی لیکن ضیاء شاہد کی قوم اور ملک کیلئے خدمات ختم نہیں ہونگی، ضیاء شاہد تو صحافت کے طالب علموں کے لئے ایک یونیورسٹی کی حیثیت رکھتے تھے اور ظالم کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن جانے والے محب وطن انسان تھے جو گزشتہ دنوں آسودہ خاک ہوگئے ہیں، ان کی وفات سے شعبہ صحافت میں پیدا ہونے والا خلاء مدتوں پورانہیں ہوگا، اللہ پاک مرحوم کی آخری منزل آسان کرے،آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں