سیاحت کے شعبہ کی ترقی اور محترمہ مدحت شہزاد کا کردار
تحریر:راجہ محمد سہیل خان،ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفیسر مظفرآباد
آزادکشمیر کا خطہ قدرتی حسن سے مالا مال ہونے کی وجہ سے ہمیشہ سیاحوں کے لیے کسی جنت سے کم نہیں رہا۔ لیکن ماضی میں یہاں ذرائع رسل و رسائل کی کمی اور سہولیات کے فقدان کی وجہ سے سیاحت کو فروغ نہیں مل سکا۔ وزیرا عظم آزادکشمیر راجہ محمد فاروق حیدر خان کی قیادت میں قائم ہونے والی مسلم لیگ ن کی حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی سیاحت کے شعبہ کے پوٹینشل کو دیکھتے ہوئے اس کی ترقی کی جانب خصوصی توجہ دی اور سیاحت کے فروغ کے لیے ہنگامی اقدامات کیے۔وزیر اعظم کے ویثرن کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سابق سیکرٹری سیاحت محترمہ مدحت شہزاد نے انتہائی محنت،جانفشانی اور لگن سے کام کیا
اورمطلوبہ قانون سازی کرواتے ہوئے اس شعبہ میں سرمایہ کاری کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کیا جس کے باعث محکمہ سیاحت کو ترقی کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کیا۔وزیر سیاحت راجہ مشتاق احمد منہاس کی قیادت میں سب سے پہلے ٹور ازم کا ایک ماسٹر پلان ترتیب دینے کا فیصلہ کیا گیا جس کے تحت پانچ سال میں ٹورازم کو ترقی دینے کافیصلہ ہوا۔اس مقصد کے حصول کے لیے ایک consultancyکے ذریعے ”ٹورازم کو ریڈور“کی فزیبلٹی تیار کروائی گئی جس میں نہ صرف unexploredعلاقہ جات میں سڑکوں کے جال سے ایک نیا ٹورازم کو ریڈور بنوانا مقصد تھا
بلکہ ان سڑکوں کے جال کے ساتھ ساتھ 14 جگہوں پر پرائیویٹ سرمایہ کاری کے لیے مواقع پیدا کرنے کی غرض سے 14 ذیلی فزیبلٹی بھی تیار کروانا تھا۔ اس بڑے منصوبے کے لیے کس قدر بجٹ درکار ہوگا اس کا تخمینہ بھی مرتب کیا گیا جو کہ زیادہ تر حکومت پاکستان نے PSDPسے پورا کرنا تھا جو تاحال حکومت پاکستان کی جانب سے مزیدکا متقاضی ہے۔ حکومت آزادکشمیر کی جانب سے یہ فزیبلٹی تیار کروانا بذات ِ خود ایک بڑا کارنامہ ہے۔ جس پر کسی وقت بھی بجٹ میسر آنے پر کام شروع ہو سکتا ہے۔
سال 2018 ء میں زیادہ تر کام اسی ماسٹر پلان اور ویژن کے مطابق سیاحت کے لیے قانون سازی کی تیاری پر ہوا۔اس ریکارڈ قانو ن سازی کے ذریعے2019 ء کو ٹورازم کا سال قرار دیا جا کر مختلف علاقوں میں چھوٹے بڑے eventsکروائے گے اورمختلف جگہوں کی branding کے لیے چھوٹے بڑےevents کا بھی ا نعقاد کیا گیا۔ نتیجتاً نیلم ویلی کے علاوہ گنگا چوٹی، لس ڈنہ، باغ، راولاکوٹ، میر پور، سماہنی، کوٹلی، کھوئی رٹہ اور حویلی بھی ٹوریسٹ کے لیے متعارف ہوئے
اور سیاحوں کی بڑی تعداد نے یہاں کا رخ کیا۔ آزاد کشمیر ٹورازم پالیسی 2019 پہلی بار باقاعدہ کابینہ سے منظور کروائی جا کر جاری کر دی گئی۔ جبکہ اس وقت تک صوبہ سندھ، بلوچستان اور پنجاب کی ٹور ازم پالیسی بھی مرتب شدہ نہ تھیں۔ اسی دوران ٹورازم پروموشن ایکٹ 2019 باقاعدہ اسمبلی سے پاس کروایا جا کر ٹورازم سیکٹر کی سرمایہ کاری کے لیے ایک تفصیلی mechanismمرتب کر دیا گیا جس کی بناء پر آزادکشمیر کی تاریخ کی تین بڑی سرمایہ کاری کا پیر چناسی اور دھیر کوٹ میں آغاز کر دیا گیا۔
آزادکشمیر کی تاریخ میں پہلی بار اور آئی سی کے ذیلی ادارہ IRCICA کے تعاوم سے ثقافتی سیاحت کے فروغ کے لیے ایک قومی اور ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی مقالہ جات پڑھنے والوں نے بھی شرکت کی اور مقبوضہ کشمیر سے بھی کشمیر ی ثقافت پر بات کرنے والے تشریف لائے۔ مظفرآباد لال قلعہ کا بہت بڑا منصوبہ منظوری کے بعد والڈ سٹی لاہور اتھارٹی کے سپرد ہوا جو نہ صرف قلعہ کو اس کی اصل حالت میں بحال کریں گے بلکہ اس جگہ ٹوریسٹ hub تیار کر کے مظفرآباد جو کہ نیلم ویلی کا گیٹ وے ہے، میں بھی ٹوریسٹ کے لیے ایک بہترین stop overتیار کریں گے
تمام آزاد کشمیر کے ثقافتی ورثہ کی mapping، اسکی تاریخ اہمیت اور اس کی preservation کے حوالے سے منصوبہ سازی کے لیے ایک بہت بڑا پروجیکٹ منظوری کے بعد یونیورسٹی آف آزادجموں وکشمیر، قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد اور ہزارہ یونیورسٹی کے ماہرین کے محفوظ ہاتھوں میں دے دیا گیا۔ ٹور ازم ریگولیٹری بورڈ کی تشکیل کروائی جا کرپہلی بار ٹور آپریٹرز اور ہوٹل مالکان کو نہ صرف رجسٹرڈ کیا جارہا ہے بلکہ ان کی standardizationکے لیے ٹیمیں بھی تشکیل دی جارہی ہیں۔ ونٹر ٹورازم پورے آزاد کشمیر میں متعارف کروانے کے لیے گنگا چوٹی میں بین الاقوامی ٹرینرز سے skiingکا کامیاب انعقاد اور اڑنگ کیل میں گزشتہ تین سال سے باقاعدگی سے Skiingکا انعقاد کروایا گیا
جس کی بناء پر وہاں کے بچے نلتر میں جاکر مقابلہ جیت کر آئے۔ اس کے علاوہ لس ڈنہ، پیر چناسی، تولی پیر، نیلم ویلی اور گنگا چوٹی میں باقدگی سے ہر سال 5فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر snowکراس جیب ریلی میں پورے پاکستان کے جیپ کلب شرکت کرتے رہے۔ ایڈوانچر ٹور ازم کے لیے پیرا گلائیڈنگ اور white water raftingکے مقابلہ جات منعقد ہوتے رہے بلکہ پیرا گلائیڈنگ کا پہلا انٹرنیشنل کپ 27ستمبر 2019کو مظفرآباد میں منعقد کروانے کے لیے تیاریاں اپنے آخری مراحل میں تھیں کہ لیکن ہندوستان کی جانب سے 5اگست2019کے غیر آئینی‘غیر قانونی اور غیر اخلاقی اقدام کے بعدلائن آف کنٹرول کی کشیدہ صورتحال کی وجہ سے اسے منسوخ کرنا پڑا۔ جب دنیا دیکھ رہی تھی کہ ایک طرف مقبوضہ کشمیر کے نہتے مسلمان اپنے گھروں میں محصور تھے تو دوسری جانب آزاد کشمیر میں 20سے 25ستمبر تک مسلسل دنیا کے 30ممالک کے 70فارن مندوبین پیرا گلائیڈرز مظفرآباد میں رہائش پذیر اور ان حالات میں بھی مقابلہ کے لیے تیار تھے۔
سرمایہ کاروں کی سہولت کے لیے 500کا لینڈ بینک دوسال کی قلیل مدت میں محفوظ کر لیا گیا۔ 42میں سے 6ریسٹ ہاؤسز outsourceکر دئیے گئے۔ 220کنال اراضی سرمایہ کاری کے لیے دی جاچکی ہے۔جبکہ تقریباً250کنال مزید سرمایہ کیلئے تیار ہے۔ چیئرلفٹ کے 5منصوبہ جات بھی سرمایہ کاری کے لیے مشتہرگی کے پراسس میں ہیں۔ 19روڈ سائیڈ فیسلٹیز میں سے 9لوکل سرمایہ کار کے ذریعے چلائی جا رہی ہیں جبکہ بقیہ بھی outsourceکے لیے تیار ہیں۔ آزاد کشمیر کے پہلے دارالخلافہ جنجال ہل کی 60کنال اراضی، قدرت اللہ شہاب کے استعمال میں رہنے والا مٹی کا گھر اپنی اصل حالت میں اور اسی جگہ جناب سردار ابراہیم خان کے دفتر کی شکل کا tentتیار کرنے کا منصوبہ بھی کنٹریکٹر کے حوالے کیا جا چکاہے،
جو کہ ہماری تاریخ کی آگاہی کا ایک عظیم شاہکار بنے گا۔ امبور ٹنل کا cart-roadکی یاد گار بنانا اور آزاد کشمیر کی بہت سے ایسی جگہوں پر بنیادی سہولیات مہیا کرنے کے لیے ہر ضلع کی تقریباً5, 4جگہوں پر منصوبہ جات جاری و ساری ہیں۔ باغسر جھیل کو نئے سرے سے ٹھیک کیا جاکر پہلی دفعہ ٹوریسٹ کے لیے کھولا جارہا ہے۔ ترکی، جاپان اور CPECکے لیے سیاحت کے مختلف منصوبہ جات مرتب کر کے sponsorکے لیے بھجوائے گئے ہیں۔آزاد ٹور ازم Appکو پنجاب اور سندھ، بلوچستان سے پہلے launchکیا گیا۔آزاد کشمیر کے پہلے دو میوزیم (مظفرآباد اور میرپور) بنائے جانے کے لیے منصوبہ جات کا بھی آغاز ہوچکا ہے۔
آزاد کشمیر میں سیاحوں کی سہولیات کیلئے ٹور ازم سمارٹ کارڈ متعارف کروایا گیا جس سے آزادکشمیر میں داخل ہونیو الے سیاحوں کی مکمل ڈٹیا بیس دستیاب ہوگا اور سیاحوں کی صرف انٹری پوائنٹس پر ایک دفعہ رجسٹریشن ہوگی اور بار بار سکیورٹی چیک پوائنٹس پر شناختی کلیئرنس کی ضرورت نہ ہوگی۔ اسکے ساتھ ہی سیاحوں کو ہیلتھ انشورنس کی سہولت بھی مہیا کی جائے گی۔
گزشتہ سال دسمبر میں آزادکشمیر کی ثقافت کو اجاگر کرنے کے لیے اس وقت ”فیرن اور کانگڑی ڈے“ کامیاب انعقاد کروایا گیا جب مقبوضہ کشمیر میں فیرن پہننے پر پابندی لگائی جا چکی تھی۔ محکمہ سیاحت کی جانب سے سابق سیکرٹری سیاحت محترمہ مدحت شہزاد کے منفرد خیال کو سرکاری سطح پر فیرن ڈے منانے کو عملی جامہ پہنایا گیا۔ اسی طرح کشمیر کی خوبصورت ثقافت اور صدیوں پرانی روایات کی حامل ”بکروال“ثقافت کو اجاگر کرنے کے لیے یونیورسٹی آف آزاد جموں وکشمیر کے تعاون سے ایک عالمی ویب نار (webinar) منعقد کروایا گیاجس میں اس منفرد ثقافتی ورثے کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا اور مستقبل میں ان کے مسائل کے حل کی طرف بھی توجہ دلانا اس حکومت کا بڑا کارنامہ ہے۔
آزاد کشمیر میں سیاحوں کی حفاظت اور راہنمائی کیلئے محکمہ سیاحت اور پولیس کے باہمی اشتراک سے 2019میں ٹور ا زم پولیس کا قیام عمل میں لاتے ہوئے انہیں ٹور ازم ہاسپیٹلیٹی اور فسیلیٹیشن کی باقاعدہ ٹریننگ دی گئی۔ جو اس وقت پاکستان کے کسی بھی صوبہ کی مقابلہ میں سب سے زیادہ فعال اور موثر کردار ادا کر رہی ہے۔بدقسمتی سے ہندوستان کی جانب سے آئینی تبدیلی کے بعد لائن آف کنٹرول کی کشیدہ صورتحال اور کورونا وباکے باعث دنیا بھر کی طرح آزادکشمیرمیں بھی سیاحت کا شعبہ بری طرح متاثر ہوا لیکن امید ہے جلد ہی اس مہلک وبا پر کنٹرول سے سیاحت ایک مرتبہ پھر شروع ہوگی اوراب سیاحوں کو تقریباً وہ تمام سہولیات میسر ہونگی جن کے وہ سیاحتی مقامات پر خواہاں ہوتے ہیں۔
حکومت آزادکشمیر کے ان تما م اقدامات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سابق سیکرٹری سیاحت محترمہ مدحت شہزاد کی کارکردگی لائق تحسین ہے۔ محترمہ مدحت شہزاد نے سیاحت کے شعبہ کے فروغ کے لیے بہترین کام کیا اور ان کی کاوشوں کی وجہ سے آج محکمہ سیاحت کو ایک پلیٹ فارم مل چکا ہے۔اب محکمہ مکمل طور پر ٹریک پر آچکا ہے اور اسے آگے بڑھانے میں جو مسائل اور چیلنجز درپیش تھے وہ سارے حل ہو چکے ہیں۔ آئندہ آنے والے سالوں میں اگر اس تسلسل کو برقرار رکھا گیا تو محکمہ سیاحت ریاست کا سب سے بڑا ریونیو دینے والا محکمہ بن کر سامنے آئے گا جس سے ریاست کی معاشی ترقی میں ایک انقلاب برپا ہو جائے گا۔
٭٭٭٭٭٭٭