جو ڈر کیا سو وہ مرنے سے پہلے مرگیا 289

بھارت پر کورونا سقم کا یہ دوسرا حملہ کیا عذاب خداوندی ہے؟

بھارت پر کورونا سقم کا یہ دوسرا حملہ کیا عذاب خداوندی ہے؟

نقاش نائطی
۔ +966504969485

جب معصوم و بےقصور انسانیت ظالم انسانوں کےہاتھوں بےبس ہوجائے تو مالک و خالق دوجہاں کو اپنے بھٹکے ہوئے ظالم انسانوں کو آگہی کا پاٹھ پڑھانے، بھوکم، زیادہ بارش سیلاب، یا بغیر بارش پانی کا کال، بادل پھٹتے ہوئے ہونے والی تباہ کاری، یا ڈینگو ملیریا فلو انفلویبزا اور فی زمانہ کوئڈ 19دوسرے مرحلے کی مہاماری و تباہ کاری کی شکل ایسا کچھ کرنا پڑتا ہے تاکہ اس علاقے کی بھٹکے ہوئے انسان راہ راست پاسکیں۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور عالم کی پانچویں سب سے بڑی اور شکتی شالی افواج کی مالک بھارتیہ سنگھی مودی یوگی حکومت، جو اپنے پڑوسی دائمی دشمن پاکستان کے دوسرے طاقت ور پڑوسی چائینا سے قربت کی وجہ سے، دشمن کا دوست دشمن تصور کرتے ہوئے دونوں دشمنوں کو ایک ساتھ عقل سکھانے کی خاطر، دشمن پاکستان کے ازلی دشمن اسرائیل سے پینگیں بڑھاتے ہوئے، ان کی عسکری پشت پناہی سے دشمن پاکستان کو زیر کرنے کی کوشش میں ہمہ تن مشغول رہتےہوئے، انہی کے مشوروں سے بھارت میں ہزاروں سال سے چین و سکون و بھائی چارگی کے ساتھ رہتے آئے، بھارت کی سب سے بڑی اقلیت ہم 25 سے 30 کروڑ مسلمانوں کو، تمام تر شہریتی حقوق سے ماورا دوسرے درجہ کا شہری بنائے،

انہیں ذلیل و رسوا کئے رکھنے یا مجبورا پڑوسی دشمن ملک پاکستان بھاگ جانے پر انہیں مجبور کرنے ہی کے لئے، سابقہ چھ ساڑھے چھ سالہ سنگھی مودی کے دور اقتدار میں، گؤ پریم کے ڈھکوسلے نعرے کے ساتھ، بہانے بہانے سے دیش کے مختلف حصوں میں بے قصور مسلمانوں کو موپ لنچنگ کا شکار بنا، انہیں پست ہمت بنائے جینے پر مجبور کئے جانے لگا یے، گؤ پریم کا ڈھکوسلا نعرہ اس لئے ہمیں کہنا پڑا کہ ایک طرف سنگھی مودی یوگی حکومت اور ان کا برسراقتدار ٹولہ بھارت کی اکثریتی ھندو آبادی کو مذہبی آستھا کے دام فریب میں الجھائےرکھے،

انکے ووٹوں کے بل پر بھارت پر اپنی حکومت کو حیات دوام بخشنے کی سعی ناتمام کئے جا رہا ہے وہیں پر بعد آزادی ھند کانگریسی راج کے پینسٹھ سالہ دور اقتدار بعد، اب اس سنگھی مودی یوگی راجیہ میں گؤپریم کا دم بھرنے والے، ایک طرف جہاں دیش کی سب سے بڑی اقلیت ہم 25 سے30 کروڑ مسلمانوں کےعلاوہ دیش واسی دلت و ہچھڑی جاتی بیسیوں کروڑ بھارت واسیوں کو گؤ ماس سے محروم یا ونچت رکھتے ہوئے، خود سرکاری سنگھرشن کے بڑے بوچڑخانوں میں روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں گؤ ماتا کا ساموہک قتل عام کرتے ہوئے، گؤ ماس، بھینس گوشت کے نام سے کھاڑی کے مسلم دیش و یورپی ممالک کے ساتھ ہی ساتھ اپنے ازلی دشمن پاکستان کو بھی گؤماس کھلاتے یا ایکسپورٹ کرتے ہوئے،

یہ سنگھی مودی یوگی حکومت، اب سابقہ 5 لمبے سالوں سے پورے عالم کی سب سے بڑی بیف ایکسپورٹر ملک بن چکا ہے۔ ایکسپورٹ کیا جانے والا گوشت سرکاری رپورٹ میں بھینس کا گوشت بتایاجارہا ہے لیکن یہ ایکسپورٹ کیا جانے والا زیادہ تر گوشت، نہ صرف گؤ ماتاجی کا ہی ہوتا ہے بلکہ ان کی پرم پوجیہ گؤ ماتا کے چھوٹے ننھے بچھڑوں کو بھی کاٹ کاٹ کر، ان کا سفید تر یا وائیٹ میٹ کہا جانے والا، گؤ ماس اونچی قیمتوں پر ویل لیگ (Veal leg) کے نام سے ایکسپورٹ کرتے ہوئے، بے تحاشہ ڈالر سیمٹے جارہے ہیں۔ اس ویل لیگ کے نام سے چھوٹے بچھڑوں کا گؤ ماس ایکسپورٹ کرنے کا یہ بھی نقصان ہوتا ہے کہ کھاڑی دیش کے اکثر ہوٹلوں میں یہ ویل لیک بچھڑے کا گؤ ماس،بکرے کے گوشت کے ساتھ ملا کر، بکرے کا گوشت بتاتے ہوئے، نہ صرف دھڑلے سے بیچا جاتا ہے بلکہ کھاڑی دیش میں محنت مزدوری کرتے ہوئے،

اپنا خون پسینہ بہاتے ہوئے، بھارت ماتا کو اربوں ڈالر برآمدات مد میں فارئن ریزرو میں جمع کراتے ہوئے، بھارت کی معشیت کوسنبھالنے والےلاکھوں ھندو بھائی بھی انجانے میں ان بچھڑے کا گؤ ماس، بکرےکا گوشت سمجھتے ہوئے اطمینان سے کھاتے ہوئے، اپنا دھرم بھی بھرشٹ کررہے ہوتے ہیں۔ ویسے اصلی سناتن ھندو دھرم میں گؤ ماس کھانے کی بالکل ہی ممانعت نہیں ہے لیکن فی زمانہ بھارت میں اپنے سیاسی مفاد کے لئے، ھندو بھائیوں کو گؤماس سے محروم یا ونچت رکھنے والے نام نہاد سنگھی حکمرانوں کے لئے تازیانہ عبرت ہے کہ وہ کھاڑی مسلم دیشوں میں مصروف معاش،مختلف جات برادری کے لاکھوں ھندو بھائیوں کے ساتھ انیک برہمن جاتی بھارتیہ این آر آئی کو بھی بکرے کے گوشت کی شکل میں بچھڑے کا گؤ ماس کھلانے کا بندوبست کر رہی ہے یہ سنگھی مودی یوگی حکومت۔ ویسے بھی ان سنگھی حکمرانوں کو اس سےکیا فرق پڑتا ہے

انہیں تو ڈھیر سارے پیٹرو ڈالر جو ملتے ہیں۔ وہ تو کھاڑی دیش کا معاملہ ہے یہ سنگھی حکمران آرام سے اپنی لاعلمی کا ڈھونگ رچ سکتے ہیں۔ گذشتہ چھ ایک سالوں میں کیا ہم کروڑوں بھارت واسیوں نے اس بات کا مشاہدہ انتخابی دنوں میں نہیں کیا ہےکہ جھوٹے گؤ پریمی سنگھی حکمران اپنے بعض سنگھی صوبوں میں اپنے سیاسی فائیدے کے لئے امتناع گؤ ماس قانون پاس کئے، اپنے کروڑوں مسلم و ھندو بھارت واسیوں کو، گؤ ماس سے محروم رکھ رہے ہیں، وہیں پر گوا واسئوں کو سنگھی ریاست کرناٹک سے گؤ ماس بھیج کر، انہیں گؤ ماس کھلانے کا بندوبست کیا جارہا ہے۔ وہیں پر شمال مشرقی چھوٹے صوبے , اروناچل پردیش، آسام، منی پور، میزورم، میگھالیہ، ناگالینڈ ،تری پورہ اور سکم واسیوں کو،ان کے پڑوسی سنگھی ریاست بہار، اترپردیش، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، سے گؤماس بھیجا جارہا ہے۔ اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہ گئی ہے

کہ اب اس حالیہ 5 صوبائی انتخابات کے موقع پر جہاں یہ سنگھی مودی یوگی جیسے حکمران گؤ ماس امتناع قانون سے ھندو ووٹروں کو قریب کررہے ہیں، وہیں پر گؤماس بڑے شوق سے کھانے والی کیرالہ کی ھندو اکثریت کو رام کرتے ہوئے ان کا ووٹ حاصل کرنے لئے، کیرالہ کے سنگھی نیتا کیرالہ میں زیادہ سے زیادہ گؤماس کی دوکانیں لگانے کی بات تک کرتے پائے جاتے ہیں۔علاوہ ازیں یوپی گجرات کرناٹک سمیت دیگر سنگھی صوبوں کے مسلم اکثریتی شہروں میں چھپ چھپاتے بیچے جانے والے گؤ ماس کے لئے، کٹنے والی گائیں کہاں سے آتی ہیں کیا اسکا پتہ بھارت کی ھندو اکثریت کو ہے؟

کبھی جاکر دیکھیں یا انویسٹیگیٹیو جرنلزم کی خدمات حاصل کر معلوم کروائیں کہ ان سنگھی راج کے صوبوں والے شہروں میں کٹنے کے لئے گؤ ماتا کو سپلائی کرنے کا کام دھڑلے سے آر ایس ایس اور بے جے پی کے سنگھی یوا غنڈے کیا کرتے ہیں۔ اور حکومتی امتناع گؤ ماس قانون رہتے ہوئے بھی، اپنی ہی گؤ ماتا کہے جانے والی گایوں کو اچھی خاصی رقم کے عوض کٹنے اور کھانے کے لئے بیچا کرتے ہیں۔ یہی انکا دوہرے مکھوٹے والی شخصیت کا ایک لامتناہی سلسلہ، اوپر سب سے اوپر مسند وزات عظمی پر براجمان 56″ سینے والے مودی جی سےلیکر نچلی سطح تک قومی خدمات کا دم بھرنے والے سنگھی کاریہ کرتاؤں میں ہے۔

اگر بھارت پر حکومت کررہے ھندو حکمران واقعی میں گائےمحترمہ کو اپنی ماتا سمان مانتے ہیں اور گؤ ماتا کو کاٹتے دیکھنا نہیں چاہتے تو دیش کی تعلیم یافتہ سول سوسائیٹی افراد کی تنظیم پورے بھارت میں گؤماتا کو کاٹنا یا کاٹ کر اس کا گوشت بیرون ملک بھیجنا یا کاٹنے کے لئے گایوں کو سرحد پار بھیج کر، وہاں سے انہئں کاٹ کر اس کا ماس بیرون ملک بھیجنا بند کریں تو بات ایک حد تک سمجھ میں آتی ہے۔بصورت دیگر بھارت کی چند ریاستوں میں گؤماس امتناع ایک ڈھکوسلہ فریب سے زیادہ کچھ نہئں ہے

آپنی عوامی خدمات سے بھارت واسیوں میں مقبول ہونے والی “آپ” پارٹی کی مقبولیت اور دہلی اسٹیٹ اسمبلی انتخاب میں بی جے پی کی بہت بڑی اور بری ہار کے بعد، سقم کورونا کے چائینا سے اٹلی ہوتے ہوئے بھارت میں قدم رنجہ ہونے کی اطلاع ملنے کے باوجود، عالمی سطح پر اپنے مقام کو درشانے،بھارت میں اپنی گرتی ساکھ کو بچانے، سال گذشتہ امریکی صدر ٹرمپ اور ان کے ہزاروں سیکیورٹی اہلکاروں کو بھارت کے سب سے بڑے اسٹیڈیم افتتاح کے بہانے انہیں گجرات بلوانا اور نمستے ٹرمپ کا ڈرامہ رچنا، اور ان ایام منعقد انتخاب بعد، مدھیہ پردیش اسمبلی سپتھا کانگریس کے جیتنے کے باوجود، کانگرئس کے نئے جیتے ایم ایل آئیز کی وفاداری خریدتے ہوئے مدھیہ پردئش میں کمل کھلانے کی سازش پر عمل پیرا سنگھی مودی حکومت نے،

سقم کورونا قابوپانے، ایک لمبے عرصہ تک توجہ نہیں دی تھی۔ مدھیہ پردئش میں کمل کھلنے کے بعد 20 اپریل 2020 سب سے پہلے مودی جی کورونا کو ملک سے بھگانے کے لئے صبح سے شام تک تھالی اور تالی بجانے کی دیش واسئوں سے التجا کی تھی ۔ اور ان بھگت بکاؤ بھونپو سنگھی میڈیا کے 24/7 مکرر نیشنل میڈیا پر خبر نشر کرنے سے واقعی میں تھالی تالی سے کورونا کے بھاگ جانے کی امید پر تقریبا دیش واسیوں کی اکثریت نے مودی جی کی درخواست پر اپنے اپنے گھروں کی بالکنیوں میں کھڑے ہوکر اتنے اچھے انداز، سے تھالی اور تالی بجائی تھی کہ “موگامبو خوش ہوا” ڈائیلاک کے مصداق مودی جی نے 24 اپریل 2020 سے، صرف چار گھنٹہ کی مہلت سے دیش بھر میں کرفیو نما لاک ڈاؤن کے نفاذ کا اعلان کردیا
ماقبل آزادی ھند سے دہلی بنگلہ والی مسجد میں نہ صرف ہم بھارتیہ مسلمانوں میں، بلکہ عالم کے مسلمانوں میں اسلام، عملی زندگیوں میں عمل پیرا رکھنےکی کوشش کےطور،نہ صرف دعوت و تبلیغ کا کام ہورہا تھا بلکہ ہر سال پورے عالم کے تبلیغی ذمہ داروں کی مشاورت اجلاس بھی منعقد کئے جارہے تھے۔ سال 2020 یہ عالمی مشاورتی اجلاس بلاد شہر ممبئی میں ہونا طہ پایا تھا لیکن مہاراشٹرا حکومت کے اجازت دینے میں لیل و لعل کے بعد، یہ عالمی مشاورتی اجلاس پولیس و انٹیلیجنس ایجنسیوں کی باقاعدہ اجازت کے ساتھ دہلی مرکز نظام الدین رکھنا طہ پایا تھا اور اس کے دعوت نامہ مہینے دو مہینے پہلے سے دئیے گئے تھے اور اس کی تیاریاں بھی کافی قبل سے کی گئی تھیں۔

2002 حکومتی تمام تر اثر و رسوخ کا استعمال کر گجرات مسلم کش فساد میں ہزاروں گجراتی مسلمانوں کا قتل عام کرانے والے، گذشتہ دو دہائیوں سے گجرات پر حکومت دوران مودی جی کی شہرت کا گراف بڑھاتے رہنے کے لئے، سہراب الدین اورعشرت جہاں جیسے انیک فرضی اہنکونٹر کراتے رہنے والے، حتی کہ سپریم کورٹ کی طرف سے فرضی اینکونٹر کی تحقیق و جانچ کر رہے سپریم کورٹ جج، جسٹس لویا تک کو گجرات حکومتی گیسٹ ہاؤس میں مشکوک حالت مروانے والے، اس وقت کے گجرات کے صوبائی ہوم منسٹر اور فی زمانہ عالم کی سب سے بڑی جمہوریت، ملک بھارت کے

ہوم منسٹر کے دل و دماغ میں شاید،انکی غیرذمہ داری سے بھارت میں پھیل رہے کورنا قہر کا الزام دہلی مرکز نظام الدین میں حکومتی اجازت سے سالانہ مشاورت میں جمع دنیا بھر کے تبلیغیوں کو پھنساکر انہیں اور انکے ذریعہ بھارت کی سب سے بڑی اقلیت ہم 25 سے 30 کروڑ مسلمانوں کو، نہ صرف بھارت میں بلکہ عالمی سطح پر بھی دانستا” کورونا پھیلانے کا الزام لگا بدنام و رسوا کرنے کی سازش ان سنگھی اذہان میں شاید پہلے سے پل رہی تھی۔اسی لئے مہاراشٹرا حکومت کے ممبئی میں سالانہ عالمی مشاورت اجتماع نہ کرنے دینے کے فیصلے کے باوجود، مرکزی ہوم منسٹر کے ماتحت رہنے والی دہلی پولیس اور انٹیلیجنس ایجنسیوں نے، نہ صرف تبلیغی مرکز نظام الدین میں عالمی مشاورتی اجتماع کرنے کی اجازت دی تھی

بلکہ مہان مودی جی کی طرف سے، صرف 4 گھنٹہ کی مہلت کے ساتھ، 24 اپریل 2020 سے دیش بھر کرفیو نما لاک ڈاؤن شروع کئےگئے اعلان بعد، مرکز میں پھنس کر رہ گئے تین ہزار تبلیغیوں کو، خود ان تبلیغی ذمہ داروں کی طرف سے، کئی بس سواری مع پیٹرول بندوبست کر ان پھنسے ہوئے تبلیغیوں کو ان کے ان کے گاؤں صوبوں میں پہنچانے کی تبلیغی ذمہ داروں کی طرف سے دہلی پولیس و حکومتی حکام سے اجازت طلب کرنے کے باوجود، نہ صرف انہیں اجازت نہیں دی گئی تھی بلکہ ایک منظم سازش کے تحت مرکز نظام الدین میں حکومت کی پالتو بھونپو سنگھی میڈیا کوبھیج کر، مودی جی کے اچانک اعلان شدہ دیش بھر لاک ڈاؤن سے دہلی تبلیغی مرکز میں، پھنس کر رہ گئے ہزار ڈیڑھ ہزار تبلیغیوں کی لائیو کوریج 24/7 نیشنل سنگھی میڈیا پر دکھاتے ہوئے، دیش بھر میں کورونا پھیلانے کی، حکومتی سطح پر سازش جس انداز سے رچی گئی وہ کسی بھی صورت ناقابل معافی حکومتی جرم تھا

ہم میں سے ہر کسی کو نوٹ گنتے وقت اپنی زبان سے اپنی انگلی ٹچ کر، نوٹ گننے کی عادت ہوتی ہے۔ کسی صاحب ریش بوڑھے ٹھیلہ فروش فروٹ بیچنے والے کی بہت پہلے کی نوٹ گنتے وقت اپنی انگلی سے زبان ٹچ کر نوٹ گننے کی ویڈیو فوٹیچ، بھارت میں کورونا پھیلنے کے بعد، دانستا” سنگھی نیوز میڈیا پر 24/7 دکھاتے ہوئے،نہ صرف مسلمانوں کو دانستا” کورونا پھیلانے کا ذمہ دار ٹہرایا گیا بلکہ دہلی مدھیہ پردئش یوپی وغیرہ شہروں کے مسلم ٹھیلہ فروشوں سے سودا سلف نہ لینے کی ترغیب دیتے ہوئے، محنت مزدوری کرچار پیسے کما اپنی اولاد کی، عزت سے پرورش کرنے والے غریب مسلمانوں کو دانستا جس انداز سے بے روزگار کیا گیا وہ بھی سنگھی میڈیا کا ناقابل معافی جرم تھا

اوپر سے کورنٹائین کئے گئے تبلیغیوں کو کھانے میں ماساہاری کھانا نہ دینے پر تبلیغیوں کے ہاسپٹل ورانڈے میں پیشاب کرنے کی جھوٹی خبر 24/7 نیشنل میں اسٹریم سنگھی میڈیا پر دانستا” دکھاتے ہوئے، تبلیغیوں کوامن وشانتی کا دشمن دکھاتے ہوئے، انہیں بدنام کر دیش کے مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ سنگھی حکمرانوں کا، اپنی تساہلی سے کورونا پھیلنے کا الزام تبلیغی مسلمانوں پر عائد کر، کل عالم کے تبلیغی امیر مولوی سعد مدظلہ کو معمولی دو ٹکے کے ٹی وی اینکرسےبھی بھگوڑا مجرم، دہشت گرد اور پتہ نہیں کیاکیا الٹے سیدھے الزامات القابات ان پر عائد کرتے ہوئے یا یوں کہئں ان کے سر منڈھثے ہوئے، انکی اور مسلم سربراہان کی شخصیت کو بگاڑنے کا اختیار کل بھونپو میڈیا کے ان دو کوڑی کے اینکروں کو کس نے دیا؟ کیا یہ سب اپنی طرف سے کرنے کا اختیار انہیں ہے؟ یا وہ ایسا کرنے کی ہمت کرسکتے ہیں؟

دراصل بھارت کی سب سے اعلی اور ارفع تخت پر براجمان ان سنگھی لیڈروں نے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت بھارت کی سب سے بڑی اقلیت ہم 25 سے 30 کروڑ مسلمانوں کو بدنام و رسوا کرنے ہی کی خاطر دانستا یہ گھناونا کھیل جو کھیلا تھا، کیا مسلمانوں کے ساتھ ہی ساتھ عالم کی کل انسانیت کا پروردگار یہ سب چپ دیکھتا اور سہتا رہتا؟ دیش کی اکثریت ان ھندوؤں نے ان سنگھی رہنماؤں کو مسلمانوں کو سبق سکھانے کے لائق اپنا مسیحا مان 2014 میں ان سنگھی رہنماؤں کو جو چنا تھا مشیت ایزدی خود اس دیش کی عام جنتا کو یہ احساس دلانا چاہتی تھی کہ جن کو انہوں نے مسلمانوں کے خاتمہ کے لئے مسیحا مان انہیں عزت بخشی تھی مسلمانوں کے مقابلے، وہی سنگھی حکمران ان کے دشمن ہیں۔ ہزاروں سال سے اسی چمنستان ہندستان میں بھائی چارگی سے ساتھ ساتھ مل جل کر رہتے آئے مسلمان ہی برا وقت آنے پر ان کا ساتھ دیتے پائے جائیں گے۔

اپنی گؤماتا تک کو چار پیسوں کے لئے کاٹ کاٹ کر ودیشی مسلمانوں کو گؤماس کھلانے والے، اپنی ماں سمان دھرتی ماں بھارت کی املاک کو بیچ کھانے والے ان سنگھی حکمرانوں سے انہیں کچھ نہیں ملنے والا۔ اور سال گذشتہ پورے ملک پر نافذ کئے گئے مودی جی کے کرفیو نما لاک ڈاؤن میں بغیر رہل و بس سروس کے رہتے، جب کروڑوں روزانہ اجرتی مزدور دیش کے ایک حصہ سے دوسرے حصہ کی طرف ہزاروں میل کا سفر ننگے پیر پیدل ہی طہ کررہے تھے تو بھلے ہی مین اسٹریم سنگھی میڈیا نے اسے دانستا نہ دکھایا ہو لیکن سائبر میڈیا کے ذریعہ سے یا خود ان پرواسی مزدوروں کی زبانی سن سن کر، تقریبا دیش واسیوں کی اکثریت کو اچھی طرح معلوم ہوگیا ہے کہ اس دیش کے مسلمانوں ہی نے

گذشتہ سال رمضان خود بھوکے پیاسے رہتے ہوئے، بھارت بھر کی تقریبا تمام شاہراہوں پر،ان پرواسی مزدوروں کو کھانا پانی فراہم کرتے ہوئے ایک حد تک ان کی مدد کی تھی۔ آج اس کویڈ مہاماری میں بھی لاوارث ھندو بھائیوں کے پارتو شریر کو جہاں ان کی اپنی اولادوں نے ان کا انتم سنسکار تک کرنے سے انکار کر رہی ہیں، وہیں پر بغیر کسی لالچ کے، اس دیش کے مسلمان رضا کاروں نے ان تمام ھندو بہن بھائیوں کا انتم سنسکار اپنے طور کر، اپنے امن و شانتی سے رہنے والے چھوٹے بھائی کا کردار بخوبی نبھایا ہے وہیں پر سابقہ مہاراشٹرا چیف منسٹر فرڈنوئس کے ساتھ تقریبا سبھی بڑے سنگھی لیڈروں نے، ایسے کورونا وبا کے وقت بھی کورونا مرض سے جان بچانے والی دوائیوں کی اسمگلنگ کر، مرتے دئش واسیوں کو لوٹنے کا کام کیا ہے

آج جب بھارت دیش کے انیک حصوں ریاستوں میں خصوصا سنگھی راج والی ریاست گجرات یوپی مدھیہ پردیش میں کورونا نے اپنا بھیانک چہرہ جس انداز سے دکھایا ہے اور وہاں کی غریب عوام جس تیزی سے لقمہ اجل بن رہی ہے، کیا یہ سب کچھ یوں ہی ہوا ہے؟ دراصل جب جنگلی بھیڑیے کے مت ماری جاتی ہےتو وہ شہر کی طرف بھاگتا ہے اور انسانوں کے ہاتھوں مارا جاتا ہے بلکل اسی طرح سے سنگھی مودی امیت شاہ کے اقتدار کے دن اب گنے جاچکے ہیں جب وہ دیش کے مسلمانوں کو مختلف موپ لنچنگ اموات مارتے ہوئے انہیں تنگ کرتے تھے تو دیش کی اکثریت ھندو یا تو خوش ہوتے تھے یا خاموش تماشائی بن مسلمانوں پر ہوتا ظلم دیکھتے رہتے تھے۔ اب جبکہ ان سنگھی مودی امیت شاہ جیسے بڑے لیڈران نے بھارت میں اپنا بھیانک چہرہ دکھاتے کویڈ 2 کو قابو میں کرنے کے بجائے بنگال کیرالہ ٹمل ناڈو سیاسی طور فتح کرنے میں اپنا وقت ضیاع کیا ہے

تو آج کرورنا کی تباہی کا عالم یہ ہے کہ عمر رسیدہ بوڑھے چھوڑ جوان بھی کورونا کی وجہ نہ صرف مر رہے ہیں بلکہ دیش بھر میں کورونا متاثرین کی ایک بہت بڑی تعداد ہاسپیٹل میں بیڈ نہ ملنے اور آئی سی یو میں آکسیجن نہ ملنے سے تڑپ تڑپ کر مررہے ہیں۔ یہاں تک کورونا سے مرنے والوں کے رشتہ اپنوں کے پارتو شریر کے لئے شمشان گھاٹ لیجانے ایمبولینس کے لئے ترس کر رہ جاتے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ 2030 تک عالم پر حکمرانی کا خواب دیکھنے والے نہایت تیز رفتاری سے ترقی پزیر وشال دیش بھارت سے بھی بہت پچھڑے پڑوسی نیپال بنگلہ دیش پاکستان میں کورونا نے اپنا بھیانک روپ نہیں دکھایا جو بھیانک روپ وہ بھارت میں دکھاتےہوئے، دیش واسیوں کو موت کا تانڈو ناچ نچا رہا ہے

کیا یہ سب اپنے آپ ہی ایسے ہی ہوگیا ہے؟ دیش کے عقل وفہم و ادراک رکھنے والے سول سوسائیٹی افراد کو اس بارے میں تدبر کرنا چاہئیے کہ آخر بھارت ہی میں کورونا اپنے دوسرے مرحلے میں اتنا خطرناک روپ کیوں کر دھارن کئے ہوئے ہے؟ کیا یہ سب، دیش میں ہزاروں سال سے محبت چین و سکون کے ساتھ مل جل کر رہتے آئے، دیش کی سب سے بڑی اقلیت ہم 25 سے 30 کروڑ مسلمانوں پر اس سنگھی مودی راج میں دانستا ڈھائے گئے ظلم و ستم کی وجہ سے قہار وجبار مالک الملک یا ایشور کے کرودھت روپ دھارن کرنے کی وجہ سے تو نہیں ہے؟ آج جب کورونا سے متاثر ہزاروں کی تعداد میں لوگ مررہے ہیں تو ہزاروں کورونا متاثرین ھندو بھائیوں کو ہم مسلمان تبلیغیوں ہی نے اپنا پلازمہ دے ہزاروں ھندو بھائیوں کی جان بچائی ہے۔کل کو مودی امیت شاہ یوگی جیسے سنگھی لیڈران، پھر سے مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنا شروع کریں تو کیا دیش کے ہزاروں ھندو بھائی، مسلمانوں کے عطیہ کردہ خون پلازمہ سے زندہ، زندگی کے مزے جو لوٹ رہے ہیں کیا وہ بھی اپنے بدن سے بقول آرایس ایس فاونڈر گرو گولواکر کے ملیچھ مسلمانوں کے خون کا ایک ایک قطرہ اپنے بدن سے نکال موت کو گلے لگانے تیار پائے جائیں گے؟

تعلیم یافتہ اور تدبر و حکمت سے لبریز بھارت واسئوں کو یہ سوچنا اور فیصلہ کرنا پڑیگا کہ ہزاروں سال سے سکون و چین و آشتی سے، اسی سرزمین چمنستان بھارت پر بھائی بھائی کی طرح مل جل کر رہتے آئے ھندو مسلمان سکھ پارسی کو اسی طرح محبت سے رہنا ہے؟ یا ہم ھندو مسلم بھائیوں کے درمیان نفرت پھیلاتے اپنا سیاسی الو سیدھا کرنے والوں کو یکسر نکار سیاسی دنگل سے باہر کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے کہ نہیں؟ وما علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں