کیا مغل حکمرانوں نے بھارت میں دین اسلام کو پھیلایا تھا؟ 252

یکم مئی مزدور دیوس

یکم مئی مزدور دیوس

نقاش نائطی
۔ +966504960485

*”مزدور کو اس کی اجرت، اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دو-“. (ابن ماجہ)*

پورا سال عام مزدوروں کا پوری طرح استحصال کرنے کے بعد یکم مئی ایک دن، مزدور دیوس مناتے ہوئے، مزدوروں کو مٹھائی کھلاتے فوٹو کھینچ فیس بک ٹیوٹر 5انسٹاگرام پر پوسٹ کرنے سے عام مزدوروں کو فائیدہ نہیں پہنچتا ہے اس بات کا ادراک مزدوروں کے تئیں آج کے دن زبانی ہمدردی جتانے والے عالمی و ملکی لیڈروں کو احساس ہونا چاہئیے۔ آج سے تقریبا ڈیڑھ ہزار سال قبل جب عالم کی منڈیوں میں انسانوں کو غلام بنا کر بیچا اور خریدا جاتا تھا اور ان مزدوروں کی کوئی آواز ان کا درد سننے والا نہ تھا اس زمانے میں سب سے پہلے عام مزدوروں کی بھلائی کا نعرہ ہم مسلمانوں کے آخری نبی خاتم الانبیاء، رحمت العالمین حضرت محمد مصطفی ﷺ نے “مزدوروں کو انکا پسینہ خشک ہونے سے پہلے مزدروی دو جائے” یہ حکم صادر کر عالم کے مزدوروں کے ساتھ بھلائی والا کام کیا تھا

ثانیا” اپنے عدل و انصاف والی مثالی حکومت سے رہتی دنیا تک ایک مثال قائم کر جانے والے مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے زمام وقت میں ایک یہودی کی طرف سے ایک مسلمان غلام کے خلاف دائر چوری کے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے مزدوروں کے متعلق انصاف کر پوری عالم کو متوجہ کیا تھا۔ ایک یہودی نے اپنے مسلمان غلام کے خلاف خلافت راشدہ آمیر المومنین حضرت عمر رض کی عدالت میں اپنے مسلمان غلام کے خلاف شکایت درج کرتے ہوئے اسکے روزانہ کچھ نہ کچھ چوری کئے جانے پر اسے سخت سے سخت سزا سنانے کی گوہاڑ لگائی تھی۔

حضرت عمر رض کے جرح کرنے پر اس غلام نے کہا جہاں پناہ میں تو ایک غلام ہوں اپنے مالک کا ہرحکم بجا لاتا ہوں لیکن غلام ہونے کے ساتھ ہی ساتھ میں ایک انسان بھی ہوں میں نے بھی شادی کی ہے میرے بھی بچے ہیں ہیں اور ایک غلام ہونے کے ناطے میں اپنے مالک کے علاوہ کہیں کام بھی نہئں کرسکتا اور میرا مالک مجھے میرے اتنے سارے کام کے باوجود اتنی کم اجرت دیتا ہے کہ میرے بچے اکثر بھوکے پیٹ ہی سوجاتے ہیں۔ مجھ سے انکی بھوک برداشت نہیں ہوتی اس لئے کچھ روٹی میں مالک کی اجازت کے بغیر اپنے گھر لیجاتا ہوں۔ حضرت عمر رض نے اس یہودی سے جرح کی کہ کیا اسے اپنے اس غلام سے کام کے بارے میں کچھ شکایت ہیں تو اس یہودی نے کہا نہیں مائیں باپ اس کے کام کے سلسلے میں کوئی شکایت نہیں۔

بلکہ وہ تو میرے کہنے سے پہلے ہی میرا پورا کام کردیتا ہے۔ آپ نے پوچھا کہ کیا اس کے بیوی بچوں کے یونے کا علم آپ کو ہے؟ اور آپ کے علاوہ کسی اور کے پاس کام کرنے کی کیا اسے اجازت بھی ہے؟ تو پھر آپ کیوں کر اسے اتنی کم اجرت دیتے ہیں کہ وہ آپ کے مال سے کچھ چوری کرنے پر مجبور ہو جائے۔جب یہودی سے کوئی جواب بن نہ پڑا تو آپ نے پھر پوچھا کہ کیا وہ تمہارا غلام روٹی کے علاوہ کچھ اور بھی چوری کرتا ہے؟

جواب نا میں ملنے پر آپ رض نے یہ حکم صادر کردیا کیا کہ چونکہ غلام اپنے مالک کے علاوہ کہیں اور کام نہیں کرسکتا اور اپنے کام کے سلسلے میں اس کے مالک کو کوئی شکایت بھی نہیں ہے اور مالک اس کے صاحب اولاد ہونے کے بارے میں جانتے بوجھتے کم از کم اتنی اجرت نہیں دیتا کہ اسکے بیوی بچوں کا پیٹ ہی بھرسکے اس لئے پوری دیانت داری سے کام کرنے کے باوجود مناسب تنخواہ اپنے غلام کو نہ دیتے ہوئے اسے چوری پر مجبور کرنے کے جرم میں اتنے عدد کوڑے اس غلام کے مالک کو لگائے جائیں

کیا آج کے اس تمدنی ترقی پزیر اس دور میں بھی امراء کے خلاف انکے معمولی نوکروں کے ساتھ ایسا انصاف کیا ہوپاتا ہے؟ اسی لئے کہتے ہیں کہ آج کے اس ھندو مسلم منافرتی دور میں بھی ہم مسلمان اپنے ماتحت کام کرنے والے مزدوروں کے ساتھ حسن اخلاق اور حسن سلوک سے پیش آنے والے بنیں تو ہمارے اخلاق حمیدہ ہی سے اغیار میں اسلام کی دعوت عام کی جاسکتی ہے۔ اللہ ہی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں صحیح معنوں اسلام پر عمل پیرا رہتے کی توفیق دے واللہ الموافق بالتوفیق الا باللہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں