’’ بلدیاتی اداروں کی بحالی، کپتان کی جمہوریت کو پھر خطرہ‘‘ 180

’’شوگر سکینڈل پر کپتان ڈٹ گئے‘‘

’’شوگر سکینڈل پر کپتان ڈٹ گئے‘‘

تحریر ،اکرم عامر سرگودھا
فون نمبر، 03008600610
وٹس ایپ،03063241100
ملک میں 25جولائی 2018کو ہونے والے انتخابات کے نتیجہ میں پی ٹی آئی کی حکومت برسر اقتدار آئی اور عمران خان ملک کے کپتان بنے ،تو جہانگیر خان ترین کو کپتان کا قریبی ساتھی ہونے کی بنا پرسیاسی حلقوں اور بیوروکریسی میں سیکنڈ وزیراعظم قرار دیا جانے لگا،کپتان کے بعد جہانگیر خان ترین کے ہر فرمان کو حکومتی مشینری کے ہر طبقہ میں شاہی فرمان کا درجہ حاصل تھاایسا لگ رہا تھا کہ ملک میں ایک نہیں دو وزیر اعظم ہیں،وفاق،پنجاب ،سمیت صوبوں میں اہم عہدوں پر سرکاری افسران کی تعیناتیاں جہانگیر ترین کی مشاورت سے ہوتی تھیں،رکن پارلیمنٹ نہ ہونے کے باوجود جہانگیر ترین کابینہ کے اجلاسوں میں شریک ہوتے اور ان کی ہر رائے کو کپتان سمیت کابینہ کی اکثریت ترجیح دیتی تھی،

کیونکہ وفاق میں عمران خان کو وزیر اعظم اور پنجاب میں عثمان بزدار کو وزیر اعلی بنوانے میں جہانگیر ترین اور ان کے طیارے کا اہم کردار تھا،جہانگیر ترین اور ان کے طیارے کی بدولت 2018 کے الیکشن میں ملک سے آزاد جیتنے والے ارکان قومی اسمبلیزاورارککان پنجاب اسمبلیز کی اکثریت نے کپتان کے کارواں میں شمولیت اختیار کی تھی، جس کے باعث پی ٹی آئی ملک میں سندھ کے علاؤہ وفاق دیگر صوبوں میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی، جہانگیر خان ترین کی ملکی سیاست اور اداروں میں بڑھتی ہوئی مداخلت پر جنوبی پنجاب کے کچھ سیاست دان ان سے نالاں تھے، جو جہانگیر ترین کو کپتان سے دور کرنے کیلئے کام کرنے لگے، جنوبی پنجاب کے اس سیاسی گروپ اور جہانگیر ترین اور ان کے

حامیوں میں محاذ آرائی کا سلسلہ عروج پر تھا کہ وزیراعظم عمران خان کی تشکیل کردہ جے آئی ٹی نے شوگر سکینڈل کی انکوائری رپورٹ وزیراعظم عمران خان کو پیش کردی،جس میں حکومت اوراپوزیش کی کئی قد آور شخصیات کے نام سامنے آئے تو کپتان عمران خان نے شوگر سکینڈل میں ملوث شخصیات کا احتساب بلا امتیاز کرنے کا اعلان کردیا،لیکن نامعلوم وجوہ کی بناء پر فائل گیارہ ماہ تک دفتر میں دبی رہی، اچانک سال رواں کے ابتداء میں شوگر سکینڈل بابت جے آئی ٹی کی رپورٹ پر پیش رفت ہوئی، اور جہانگیر خان ترین ان کے بیٹے علی ترین اور ساتھیوں کے خلاف ایف آئی اے نے دو مقدمات درج کرلیے،جبکہ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے خلاف ایک مقدمہ درج ہوا، جہانگیر ترین ان کے بیٹے اور

ساتھیوں نے اپنے خلاف درج ہونے والے مقدمات میں عدالت سے عبوری ضمانت کرارکھی ہے، دوسری طرف جہانگیر ترین کے ساتھیوں نے پی ٹی آئی میں پریشر گروپ قائم کرلیا ہے جس میں اب تک 11 ارکان قومی اور 22ارکان صوبائی اسمبلی کھل کر جہانگیر خان ترین کی حمایت میں سامنے آگئے ہیں، بقول سیاسی زرائع بہت سے ارکان قومی وصوبائی اسمبلیز و وزراء جہانگیر ترین،اورباغی گروپ سے رابطے میں ہیں، پی ٹی آئی کا پریشر گروپ جہانگیر ترین کو مظلوم قرار دے کر اسے انصاف دلانے کیلئے کوشاں ہے،اور اس پریشر گروپ نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کیلئے پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن اور ق لیگ کی قیادت سے بات کرنے کا عندیہ دیا تو حکومت کی صف میں شامل بڑوں نے

حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے کپتان کو جہانگیر ترین کے حامی ارکان اسمبلیز سے ملاقات پر راضی کیا اور گزشتہ دنوں جہانگیر ترین کے حامی ان ارکان اسمبلیز نے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کی،مگر اس ملاقات میں جہانگیر ترین کا شامل نہ ہونا بہت سے سوالات پیدا کر رہا ہے؟ مخالف ذرائع کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان جہانگیر ترین سے ناراض ہیں، اور اسی بناء پر باغی ارکان اسمبلیز کو جہانگیر ترین کو ساتھ لانے سے روکا گیا تھا، جبکہ پریشر گروپ کے ارکان اسمبلی کے ذرائع کہتے ہیں کہ ایک حکمت کے تحت جہانگیر ترین کو وزیر اعظم سے ملاقات کیلئے ساتھ نہیں لے کر گئے، اگر جہانگیر ترین کو ساتھ لے کر جاتے تو تاثر پیدا ہوتا کہ جہانگیر ترین عمران خان سے ڈیل کرنے گئے تھے،

ذرائع کہتے ہیں کہ جہانگیر ترین کے حامی ارکان اسمبلیز (پریشر گروپ) نے عمران خان کو باور کرایاکہ جہانگیر ترین کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے،یہ دس سال پرانا معاملہ ہے، جس کے مقدمات اب درج ہوئے ہیں، وفدنے پی ٹی آئی کیلئے جہانگیر ترین کی خدمات اور فنڈنگ بارے بھی کپتان کو جتلایا اور اور بتلایا اور جہانگیر ترین کے خلاف انکوائری روکنے اور دوبارہ انکوائری کمیشن بنانے کی استدعا کی، زرائع کہتے ہیں کہ کپتان نے جہانگیر ترین کے حامی ارکان اسمبلیز کو واضح کہا کہ وہ اصولوں کی سیاست پر سمجھوتہ نہیں کریں گے، نہ تو دوبارہ انکوائری کیلئے کمیشن بنے گا

اور نہ ہی ایف آئی اے میں جاری شوگر سکینڈل کی انکوائری روکی جائے گی اداروں کو آزادی سے اپنا کام کرنے دیں گے، اس بات کا اظہار عمران خان نے برملا الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے ذریعے بھی کیا کہ احتساب بلا امتیاز ہو گا، اسی تناظر میں ڈائریکٹر ایف آئی اے پنجاب ڈاکٹر رضوان کو تحقیقاتی ٹیم کی سربراہی جاری رکھنے کا حکم دیتے ہوئے انکوائری مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے، یاد رہے کہ ڈاکٹر محمد رضوان کی پنجاب پولیس سے ایف آئی اے تک شہرت قابل رشک ہے، اور ان کا شمار ایماندار اور دبنگ آفیسرز میں ہوتا ہے، اور وہ کسی سیاسی یا غیر سیاسی کے دبائو میں نہیں آتے، سو اب وفاقی وزیر خسرو بختیار بھی ایف آئی اے کے ریڈار پر ہیں، اس طرح کپتان نے جہانگیر ترین کے حامی پریشر گروپ کے

ارکان کو ’’کورا‘‘ جواب دیا ہے، یوں آنے والے وقت میں کپتان کو اپوزیشن کی (پی ڈی ایم)کے ساتھ پی ٹی آئی میں موجود جہانگیر ترین کے حامی ارکان اسمبلیز کی بھی مخالفت کا بھی امکان ہے، جو کپتان کس حد تک برداشت کرسکیں گے یہ کہنا قبل ازوقت ہے سیاسی زرائع کہتے ہیں کہ جہانگیر ترین۔ کے ساتھ اب ان کے حامی ارکان اسمبلیز کے بھی کڑے امتحان کا وقت آرہا ہے ،چونکہ مطالبات تسلیم نہ ہونے کی صورت میں جہانگیر ترین کے حامی ارکان اسمبلیز نے وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کا عندیہ دیا تھا جس کی کامیابی کی صورت میں وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کی بڑھک ماری تھی، بالکل اسی طرح جس طرح پی ٹی آئی کی حکومت کے برسر اقتدار آنے

پر اپوزیشن نے (پی ڈی ایم) بناکر حکومت کو للکارتے ہوئے ضمنی وسینٹ الیکشن کے بائیکاٹ، اپوزیشن کے ارکان اسمبلیز کے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے استعفے، اور لانگ مارچ کا اعلان کیا گیا تھا لیکن حکومت کے پس پردہ شخصیات نے ایسی چال چلی کہ پیپلز پارٹی اور اے این پی نے پی ڈی ایم سے علیحدگی اختیار کرلی ہے اور پی ڈی ایم کے عہدوں سے بھی استعفے دے دئیے ہیں، پی ڈی ایم بننے سے اب تک خود ڈانواں ڈول اور ایک دوسرے کو سنبھالتی رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم کی قیادت پوری تحریک کے دوران اب تک کسی مرحلہ پر بھی کسی ایک ایجنڈے پر متفق نظر نہ آئی اورہرایشو پر پی ڈی ایم کو بار بار یوٹرن لینا پڑا۔
سو بات کہاں سے کہاں نقل گئی بات ہورہی جہانگیر ترین کی حمایت میں بننے والے ارکان قومی وصوبائی اسمبلیز کے پریشر گروپ کی جس کی وزیراعظم عمران خان سے ملاقات بے نتیجہ نظر آرہی ہے دیکھنا یہ ہے کہ اب یہ پریشر گروپ پی ٹی آئی میں رہتا ہے یا علیحدگی اختیار کر کے فارورڈ بلاک بنا کر اپوزیشن کے ساتھ ملکر کردار ادا کرتا ہے،اور اپنے اعلان کے مطابق اپوزیشن جماعتوں کو ساتھ ملا کرپہلے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کا اعلان کب کرتا ہے؟ دیکھنا یہ بھی ہے کہ حکومت اپنی پارٹی کے باغی ارکان اسمبلیز کووزیر اعلیٰ پنجاب کے

خلاف عدم اعتماد لانے سے روکنے کے لئے انہیں کس طرح رام کرتی ہے؟ کیونکہ پی ٹی آئی میں جہانگیر ترین کا حامی پریشر گروپ نے وزیر اعلی پنجاب کے خلاف عدم اعتماد منظور ہونے کی صورت میں وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کا اعلان کررکھا ہے، تا ہم یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ کون کسے زیر کریگا؟ لیکن یہ بات واضح ہے کہ حکومت میں شامل جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والی مٹھی بھر سیاسی شخصیات کا گروپ کچھ عرصہ سے ملک کے سیکنڈ وزیراعظم کہلانے والے جہانگیر ترین پر بھاری ثابت ہورہاہے، یہی وجہ ہے کہ جہانگیر ترین اپنی ہی پارٹی کی حکومت کے دور میں اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں اور کپتان سے انصاف مانگ رہے ہیں، حالانکہ شوگر سکینڈل عدالت میں زیر سماعت ہے اور اب سزا جزا کا تعین بھی عدالت نے کرنا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں