’’ بلدیاتی اداروں کی بحالی، کپتان کی جمہوریت کو پھر خطرہ‘‘ 162

رابرٹ مسیح!!دی سیورمین

رابرٹ مسیح!!دی سیورمین

تحریر اکرم عامر سرگودھا
فون نمبر03008600610
وٹس ایپ،030632411
پاکستان کے ہر طبقہ اور شعبہ میں فلم ٹی وی ڈراموں کی طرح کوئی نہ کوئی کریکٹر رول ہوتا ہے، جو اپنے علاقہ میں ہر دلعزیز اور مقبول ہوتا ہے، کوئی دکھی انسانیت کی خدمت کر کے یہ رتبہ پاتا ہے تو کوئی اپنے شعبہ، کاروبار یا ملازمت میں نمایاں کردار ادا کر کے اس رتبے تک پہنچتا ہے، پاکستان میں ایک دو نہیں اس طرح کے لاکھوں کردار موجود ہیں، جو کسی نہ کسی حوالے سے اپنے علاقہ کے علاوہ گردونواح حتی کہ کئی کردار تو پاکستان اور دنیا بھر میں مقبول ہوئے، انہی میں سرگودھا کی تحصیل ساہی وال کا رابرٹ مسیح بھی شامل ہے، راقم آج رابرٹ مسیح کے کردار پر ہی قلم کشائی کرے گا

جو مسیح قوم سے تعلق رکھتا اور تحصیل کمیٹی ساہی وال میں ملازمت کرتا ہے لیکن وہ علاقہ کی مقبول ترین شخصیت ہونے کے ساتھ ایک کردار کے طور پر جانا پہچانا جاتا ہے۔وہ ستر کی دہائی کے آخری سالوں میں موضع بھاگیاں تحصیل وضلع شیخوپورہ سے اپنے خاندان کے ساتھ نکلا اور ساہیوال (سرگودہا) میں آ کر پناہ لی۔ پھر یہیں کا ہوکر رہ گیا۔ زندگی بھر ساہیوال شہر کی نالیاں صاف کیں اور چوہدریوں کی خدمت حرزجاں بنائے رکھی۔ دیانتدار اتنا کہ 1992کے سیلاب سے متاثرہ افراد میں پانچ پانچ ہزار تقسیم کرنے کے لیے فہرستوں کی تیاری شروع ہوئی تو اس وقت کے چیئر مین میونسپل کمیٹی نے اسے بھی اپنانام لکھوانے کا کہا تو اس نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ اس کے مکان کا کوئی نقصان نہیں ہوا

حالانکہ امداد کی اس بہتی گنگا میں علاقہ کے بہت سے سفید پوشوں اور کھاتے پیتے لوگوں نے بھی ہاتھ دھوئے تھے۔ عیسائی ہونے کے باوجودشراب اور دیگر خرافات سے دور بھاگتا تھا۔ مشہور ہے کہ اپنے ڈیرہ پر چوہدری داد عیش دے رہے ہوتے اور برکت مسیح خدمت گزاری کے لئے آنکلتا تو منقش جام اور آب جو چوہدریوں کو ادھرادھر کرنا پڑتے تھے۔ اسے ہمیشہ محنت کرکے کھانے کی عادت تھی۔ ایک بار اسے مقامی زمیندار نذیرجٹ نے گندم کی فصل اٹھانے کے بعد “پڑ”اور کھیتوں سے” سٹے”چننے کی پیشکش کی۔وہ اس کے کھیتوں میں پہنچا تو قریبی جھونپڑیوں میں مقیم خانہ بدوش سٹوں کا صفایا کرچکے تھے۔ زمیندار نذیر جٹ نے اس کی آمد کا احساس کرتے ہوئے اسے نصف بوری کے لگ بھگ گندم دینے کی کوشش کی

تو موصوف نے یہ کہہ کر لینے سے انکاری ہوا کہ بھائی نذیر میں محنت کش ہوں مجھے بھکاری نہ بنائو۔ سٹے جن کی قسمت تھی انہوں نے چن لیے۔ وہ زبان کی پاسداری عمر بھرکرتا رہا۔ بطور اقلیتی کونسلر اسے بہت سے لالچ دئے گئے۔ کھگے، بلوچ اور ان کے گروپ کونسلرز نے ہر جتن کر ڈالا لیکن وہ چوہدریوں کو دی ہوئی زبان سے نہ پھرا ۔ساہیوال اور اہل ساہیوال سے محبت اور وابستگی کا یہ عالم کہ ورثا کووصیت کررکھی تھی کہ مرنے کے بعد اسے یہیں دفن کیا جائے۔2003میں جب اس کاسفرزیست پورا ہوا تو لواحقین نے وصیت کے مطابق اس کے ممدوحین سے رابطہ کیا۔ قبر کے لیے دوگز زمین کی درخواست کا سن کر ساری عمر اس سے خدمت کروانے والے سکتے کا شکار ہوگئے۔ آخر سردار انور حیات نے انہیں اپنی زمین میں سے تدفین کیلئے جگہ دی، برکت مسیح کی قبر چراغ خان والا میں آج بھی سردارانورحیات خان کی انسانیت پروری کی گواہی دے رہی ہے۔
رابرٹ مسیح اسی برکت مسیح کا اکلوتا بیٹا اورتین بہنوں کا بھائی ہے۔ جو 1979میں پیدا ہوا۔میٹرک کا امتحان گورنمنٹ ہائی سکول ساہیوال سے 1995میں پاس کیا۔ ایک شرارتی اور لاڈلی اولاد والی ساری “خرابیاں” اس کی ذات کا حصہ تھیں۔ اب وقت کے ساتھ ساتھ وہ خوبیوں میں ڈھل گیا۔ رابرٹ اپنے والد کی وفات کے بعدخاندان کا پیٹ پالنے کے لیے 2003میں ٹاون کمیٹی کے عملہ صفائی میں سو روپے یومیہ اجرت پرشامل ہوا۔ ادھر ادھر کوشش بسیار کے باوجود اسے ڈھنگ کا کوئی کام نہ ملا تو “سیور مینی” کو قسمت کے لکھے کے طور قبول کرلیا۔اس کی جوانی کے 18 سال اہل ساہیوال کے گٹروں اور نالیوں کی صفائی اور خدمت کی نظر ہوچکے ہیں۔ غربت کے باوجود محنت اور دیانتداری کی موروثی صفات کو اس نے سنبھالا ہوا ہے

اب اس کی ماہانہ مجموعی اجرت ساڑھے انیس ہزار روپے کے لگ بھگ بن جاتی ہے۔ اسی آمدن میں تین بیٹوں، ایک بیٹی کے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے ساتھ ساتھ پورے خاندان کے نان ونفقہ کا بندوبست کرلیتا ہے۔ اس کے مطابق قناعت سب سے بڑی دولت ہے جو اس مہنگائی کے دور میں انسان کوپریشانی سے بچاتی ہے۔ رابرٹ کے بیٹے شیراز ایف اے اور داود میٹرک کرچکے جبکہ بیٹی سال اول کی طالبہ ہے۔ اسے موسیقی سے بھی اچھا خاصا لگاو ہے اور اپنے شوق کی تسکین کے لیے باقاعدہ تربیت حاصل کی۔ فرصت کے لمحات میں ساز و آواز کے تار چھیڑ کر سننے والوں کو متاثر کیے بنا نہیں رہ سکتا۔ رابرٹ مسیح ٹاون کمیٹی کا ایک محنتی، دیانتدار، خوددار اور بانکا “سیور مین”تو ہے ہی،وہ مذہبی حوالے سے اپنی کمیونٹی کا “مبشر”بھی ہے۔

عیسائیت میں مبشر،پاسٹر ،پوپ درجے ہیں۔ وہ اپنی زندگی سے مطمئن اور بچوں کے مستقبل کے لیے دعاگو ہے۔طبقاتی تفریق کے حوالہ سے رابرٹ کا کہنا ہے کہ جب والد شروع میں یہاں آئے تھے تو حالات مختلف تھے۔اب اہل ساہیوال نے انہیں” قبول” کرلیا یے۔ یہاں کے باسی محبت کرنے والے ہیں۔ ان سے کوئی شکائت نہیں۔ ایک “مبشر”کی حیثیت سے اس کا حکومت وقت سے مطالبہ ہے کہ ساہیوال سرگودہا میں آباد مسیح برادری کے لیے الگ کالونی بنائی جائے جس میں چرچ قائم ہو تاکہ وہ بھی دیگر مذاہب کے لوگوں کی طرح اپنی مذہبی رسومات اور عبادات ادا کر سکیں، رابرٹ اپنے کام کا پکا ہے

اور دھن کا سچا انسان ہے۔ جو ہر طبقہ کے دکھ میں شامل ہونا اپنا فرض سمجھتا ہے، اور کہتا ہے کہ دکھی انسانیت کی خدمت ہی عین عبادت ہے، دنیا میں جو لوگ ایک دوسرے کے کام آتے ہیں وہی آخرت میں فلاح پاتے ہیں۔ یوں رابرٹ مسیح سرگودھا کی تحصیل ساہی وال کا وہ مشہور کردار بن چکا ہے جسے علاقہ کا بوڑھا بچہ جوان قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے، کیونکہ وہ ہر بلانے والے انسان، محبت اخلاص سے پیش آتا ہے۔ اور کہتا ہے کہ پاکستان کی بقاء کیلئے سب کو مل جل کر اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ رابرٹ۔۔۔ دی سیور مین زندہ باد۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں