’’اپوزیشن احتجاج اور یو ٹرن‘‘
تحریر محمد اکرم عامر سرگودھا
فون نمبر 03008600610
وٹس ایپ،03063241100
حکومت مخالف اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے ایک بار پھر باقی بچ جانے والی پی ڈی ایم کے ذریعے حکومت گرانے اور کپتان کو گھر بھجوانے کیلئے احتجاجی تحریک کا اعلان کرتے ہوئے ملک کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہروں کے شیڈول کا اعلان کردیا ہے، اور ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ حکومت گرانے اور کپتان کو گھر بھجوانے تک پی ڈی ایم چین سے نہیں بیٹھے گی، مولانا فضل الرحمان اس نوعیت کے
بیانات جولائی 2018 جب پی ٹی آئی کو الیکشن میں برتری حاصل ہوئی تھی اس دن سے دیتے آرہے ہیں، حکومت کو گرانے اور کپتان کو گھر بھجوانے کیلئے ہی اپوزیشن جماعتوں نے مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں پی ڈی ایم کے نام سے اتحاد بنایا تھا جو اب تک قائم ہے، لیکن پی ڈی ایم کی دو اتحادی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان عوامی نیشنل پارٹی اپوزیشن اتحاد سے الگ ہوچکی ہیں لیکن اپوزیشن اتحاد سے الگ ہونے والی دونوں جماعتیں اب بھی پی ٹی آئی کی حکومت اور کپتان کے بظاہر خلاف اور حقیقی اپوزیشن ہونے کی دعوے دار ہیں،
ابھی اس بات کا عندیہ کھلنا باقی ہے کہ سینٹ کے ایوان میں حکومت کے سینٹرز نے اپوزیشن لیڈر یوسف رضا گیلانی کی حمایت کیوں کی؟ اگر حکومتی سینٹرز ایسا نہ کرتے تو مسلم لیگ ن کے اعظم نذیر تارڑ ایڈووکیٹ جو حالیہ الیکشن میں پہلی بار سینٹرز منتخب ہوئے تھے سینٹ میں اپوزیشن لیڈر ہوتے، ابھی یہ عندیہ بھی کھلنا باقی ہے کہ یوسف رضا گیلانی کو سینٹ میں لیڈر آف دی اپوزیشن بنانے کے پس پردہ حقائق کیا ہیں؟ اور اس حوالے سے حکومت اور اپوزیشن میں کیا ڈیل ہوئی؟ کیونکہ پیپلز پارٹی اور اے این پی تو اب بھی حکومت مخالف اپوزیشن ہونے کی دعویدار ہیں۔
لیکن یہاں یہ بات واضح ہے کہ پی ڈی ایم کے اتحاد میں شمولیت کے دوران اور اتحاد سے الگ ہوکر دونوں صورتوں میں پیپلز پارٹی نے فائدہ اٹھایا ہے اور نہ صرف اپنے دو سینٹرزاضافی بنوائے بلکہ سینٹ کے مقتدر ایوان کا اپوزیشن لیڈر بھی بڑی حکمت عملی سے پیپلز پارٹی نے اپنی جماعت کابنوالیا،اور پھر پی ڈی ایم کو کک کرادی دی،پی ڈی ایم کے اتحاد میں شامل اپوزیشن جماعتیں اب پیپلزپارٹی کے لگائے زخم چاٹ رہی ہیں اور مولانا فضل الرحمان یہ کہہ رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی اوراے این پی کی قیادت معافی مانگ لیں تو انہیں پی ڈی ایم میں دوبارہ شامل کرنے
پر غور کیا جاسکتا ہے، جبکہ دوسری طرف اسی طرح کا بیان پیپلز پارٹی کی قیادت کی طرف سے دیا گیا ہے کہ مولانا فضل الرحمان پیپلز پارٹی کو نوٹس دینے پر معافی مانگیں، سو اس طرح پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم کی قیادت میں لفظی گولہ باری جاری ہے، لیکن شاید پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان بھولے بادشاہ ہیں اور وہ یہ بات بھول چکے ہیں کہ پی ڈی ایم کو کھوکھلا کرنے اور احتجاجی تحریک کو ناکام یا موخر کرانے میں پیپلز پارٹی کا بلواسطہ یا بلا واسطہ کردار رہا ہے، جب پی ڈی ایم کا اتحاد زوروں پر تھا اور مولانا فضل الرحمان نے ضمنی الیکشن اور سینٹ الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا تو پیپلز پارٹی ہی وہ جماعت تھی جس نے سب سے پہلے
مولانا فضل الرحمان کے بیانیہ کی مخالفت کی اور کہا تھا کہ ہم حکومت کے لئے کوئی محاذ خواہ وہ ضمنی الیکشن ہوں یا سینٹ الیکشن کا میدان کھلا نہیں چھوڑیں گے،پیپلزپارٹی کے اس بیان کے بعد پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور مسلم لیگ ن اوراپوزیشن اتحاد میں شامل دیگر جماعتوں کی قیادت کو ضمنی الیکشن اور سینٹ الیکشن کے بیانیہ پر یوٹرن لینا پڑا تھا، پی ڈی ایم نے اپوزیشن ارکان اسمبلی کے مشترکہ استعفے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے دینے کا اعلان کیاتو حکومت کے چھکے چھوٹ گئے تھے اور کپتان اپنی وزارت عظمی کے دوران پہلی بار پریشان دیئے کہ اچانک پیپلز پارٹی کی قیادت نے سب سے پہلے پی ڈی ایم سربراہ کے بیانیہ کی
مخالفت کی اور کہا تھاکہ پیپلز پارٹی کسی بھی صورت میں سینٹ الیکشن لڑے گی پھر پوری قوم نے دیکھا کہ پیپلز پارٹی نے نہ صرف سینٹ الیکشن لڑا بلکہ اپنی عددی تعداد سے سینٹرز کی دو نشتیں بھی زیادہ جیتیں اور سینٹ میں اپوزیشن لیڈر بھی اپنا بنوا لیا، اس دوران مولانا فضل الرحمان نے 26مارچ کو اسلام آباد میں لانگ مارچ کا اعلان کررکھا تھا کہ پیپلز پارٹی نے سب سے پہلے اعلان کیا کہ لانگ مارچ کیلئے موسم اور ملکی حالات سازگار نہیں ہیں، جس کے بعد پی ڈی ایم کو اسلام آباد لانگ مارچ پر بھی یوٹرن لینا پڑا تھا اور مولانا فضل الرحمان نے لانگ مارچ مؤخر کردیا تھا، یاد رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے آخری دور میں جب کپتان نے 126 دن کا طویل دھرنا دیا
اور اپوزیشن جماعتوں نے مسلم لیگ (ن) کی حکومت گرانے کی کوشش کی تو آصف علی زرداری وہ کھلاڑی تھے جنہوں نے اپوزیشن میں ہونے کے باوجود نواز شریف کی گرتی حکومت کو سہارا دیا، اسی بناء پر مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اپنے پانچ سال پورے کیے، جبکہ اب پی ڈی ایم میں پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی شامل نہیں ہیں تو مولانا فضل الرحمان نے ایک بار پھر بڑا اعلان کیا ہے کہ پی ڈی ایم جولائی کے پہلے ہفتہ سے ملک گیر احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ سوات سے شروع کرے گی، سیاسی ذرائع کہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان کو اس اعلان پر بھی یوٹرن لینا پڑے گا، کیونکہ اپوزیشن جماعتوں میں سردست اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ حکومت
کیخلاف احتجاجی مظاہرے اور لانگ مارچ کر سکیں، کیونکہ حکومت بنوانے اور گرانے والی بیورو کریسی ابھی پی ٹی آئی کا مکمل ساتھ دے رہی ہے، بگڑتے ملکی حالات کے باوجود بیورو کریسی کی جانب سے سب اچھا کی رپورٹ دی جا رہی ہے، سیاسی ذرائع کہتے ہیں کہ پی ڈی ایم کے احتجاجی مظاہروں کے جواب میں پی ٹی آئی کے حامی شخصیات ، وفاقی و صوبائی حکومتیں بھی کپتان کی حمایت میں جلسے اور جلوس نکالنے کا پروگرام مرتب کر رہی ہیں،
تا کہ اپوزیشن کے احتجاجی مظاہروں کا توڑ کیا جا سکتا، اس کیلئے پی ٹی آئی کا سیاسی ونگ پلاننگ کر رہا ہے، ذرائع یہ بھی کہتے ہیں کہ حکومت نے جس طرح پیپلز پارٹی کو پی ڈی ایم سے الگ کیا ہے، اسی طرح حکومت مسلم لیگ (ن) کو بھی مولانا فضل الرحمان سے دور کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ اس لئے اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے
کہ پی ڈی ایم جولائی میں لانگ مارچ یا مظاہرے کرے۔ تاہم سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی، آنے والے گرمیوں کے دنوں کا سیاسی ماحول بھی گرم ہو سکتا ہے۔ لیکن اس سلسلہ میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے؟ یہ وقت ہی بتائے گا کہ پی ڈی ایم احتجاجی مظاہروں میں کامیاب ہوتی ہے یا حکومت پی ڈی ایم کا شیرازہ بکھیرنے میں کامیاب ہوتی ہے، اس کیلئے قارئین کو وقت کا انتظار کرنا ہو گا۔