حلقہ ایل اے 2کے نوجوانوں کے مسائل اورسیاسی قیادت
تحریر: محمدکاشف اکبر
ایک دور تھا کہ ضلع میرپور کا ہر دوسرا شخص یورپ میں جانے کے لئے منگیتروں کی لسٹ میں شامل تھا انھیں ناہی اعلیٰ تعلیم کی ضرورت تھی اور ناہی کسی ملازمت کی کیونکہ ان کا واحدمنشور پردیس میں جا کر محنت مزدوری کرنی تھا ۔پھر وقت ،حالات اورقانون بدلے منگیتر سسٹم کے تحت پہلے یوکے پہنچنے کی جو ریس لگی ہوئی تھی
اس میں خاطرخواہ کمی آئی اور اب یورپی و برطانوی قانون میں اتنی سختیاں آگئی ہیں کہ منگیتر بن کر یورپ جانے کا خواب جوئے شیر لانے کے مترادف ہے اس لئے اب وہ والدین جو پہلے اپنے بچوں کو یہ کہتے اکثر نظر آتے تھے کہ پڑھ کر کیا کرناہے میرے پتر نے جانا تو ولیت ہی ہے پھر کیا فائدہ جان جوکھم میں ڈالنے کا، وہی والدین اب اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلوانے کے لئے دن رات ایک کر رہے ہیں تاکہ وہ پڑھ لکھ کر کسی سرکاری ادارے میں ملازمت کرسکیںکیونکہ کشمیر انڈسڑیل علاقہ تو ہے نہیں اور ناہی پرائیویٹ سیکٹر میں کوئی خاطرخواہ نوکریوں کا رواج ہے
لہذا اُمیدِ واحد صرف سرکاری سیکٹر ہی ہے جہاں پر ملازمت کر کے بہتر روزگار کما کر اپنے خاندان کا سہارا بنا جاسکتا ہے۔اس لئے اب نوجوان بھی اسی امید کے سہارے تعلیم کے حصول کے لئے ہمہ تن مگن ہیں مگر ان نوجوانوں کے بھی مسائل ہیں خواہ وہ تعلیم کے حصول کی راہ میں رکاوٹ مہنگائی ،زیادہ فیسیں ، اچھے تعلیمی ادارے نہ ہونا کی
شکل میں ہوںیا تعلیم کے مکمل ہونے کے بعد نورکریوں کے لئے سفارش اورسیاسی لیڈران کی منت سماجت کی صورت میں ہوںالبتہ اکثرنوجوان ہی استعمال ہوتے ہیں اوران کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھا کر اپنے مفادات نکالے جاتے ہیں ۔حلقہ ایل اے2 اسلام گڑھ چکسواری کے نوجوانوں کے مسائل بھی کچھ ایسے ہی ہیں جو راقم قلمبند کرنے کے لئے صفحہ قرطاس پر لکیریں کھینچنے کے لئے قلم کو حرکت دے رہاہے۔
حلقہ ایل اے 2میں نوجوانوں کی
تعداد اتنی زیادہ ہے کہ وہ کسی بھی جماعت کے لئے کامیابی و ناکامی کا سبب بن سکتے ہیں اکثریت میں ہونے کے باوجود سیاسی لیڈروں اور اپنے اپنے قائدین کی محبت اور شخصیت پرستی میں پڑ تے ہوئے اپنامعیار گرا کر،مگر ڈگریاں ہاتھوں میں تھامے دھکے کھانے پر مجبور ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ کیا نوجوانوں میں شعور نہیں یا پھر وہ تعلق ،رشتہ داری یا پھر کسی لالچ میں آکر اپنے مسائل حل کرانے کے بجائے مفت میں نعرے مارتے ہوئے نظر آتے ہیں؟ حلقہ ایل اے 2میں ایک سابق وزیر اعظم اور موجودہ ایم ایل اے جس نے اپنے دور حکومت میںسابقہ کوتاہیوں کامداواہ کرنے کی حقیر سی کوشش ضرور کی نوجوانوں کے لئے
کھیلوں کے گرائونڈ بنائے جو کہیں مکمل ہیں تو کہیں زبوحالی کا شکار اور زیر التواہ پڑے ہیں ۔انھوں نے نوجوانوں کو سرکاری نوکریوں پر بھی بھرتی کرایا،یہ ایک الگ بات ہے کہ انھیں مستقل ہونے کے لئے اپنے افسران بالا سمیت ان ایم ایل اے صاحب کے سپوت کی جیبوں کو بھی گرم کیا۔جن کی اتنی ہی حیثیت تھی کہ وہ کسی ایک کی ہی جیب گرم کر سکتے تھے انھیںایڈھاک نوکری سے ہاتھ دھونے پڑے اور ان کی جگہ نئی بننے والی حکومت مسلم لیگ ن کے
سپوٹروںنے لے لی اور کچھ ایسے بھی تھے کہ جواہلیت تو نہ رکھتے تھے مگر جیب گرم کرنے کی حیثیت ضروررکھتے تھے بھرتی ہوئے مگر بعد ازیں این ٹی ایس ٹیسٹ یا پیشہ ورانہ ٹیسٹ میں کئی سال نوکری کرنے کے باوجود بھی فیل ہوکر گھر کی راہ لینے پر مجبور ہوئے۔ یہ تو تھی مختصرسی کارگزاری سابقہ حکومت پیپلز پارٹی کی اوران کے موجودہ اور شاید تاحیات ایم ایل اے کی بھی ۔اب توجہ کرتے ہیں اپوزیشن جماعت اور موجودہ حکومت مسلم لیگ ن کے سابق امیدوار محمد نذیرانقلابی کی جانب جنھوں نے سابقہ الیکشن میں تقریباََ گیارہ ہزار ووٹ لیے
ان کی حیثیت ایک میونسپل کمیٹی کے چیئرمین کی سی رہی یہاں یہ بات راقم واضح کر دینا چاہتا ہے کہ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں تو مسلم لیگ ن کی جانب سے الیکشن لڑنیوالے امیدوار کیپٹن (ر)محمد سرفرازخان مرحوم کی علالت وبعداز وفات کی وجہ سے حلقے میں اپوزیشن کی جگہ تقریباََ خالی رہی البتہ موجودہ امیدوار نے لیگی حکومت ہونے کی وجہ سے اپوزیشن کا اچھا کردار اداکیاہے جو مندرجہ بالا الفاظ میں رقم ہوچکا ہے جن کے لئے کوئی تبادلہ یا نئی بھرتی کروانا تو مشکل کام تھا البتہ انھوں نے اپنی حیثیت سے بڑھ کر نالیاں سڑکیں پکی کروئیںبجلی کے کھمبے ٹرانسفارمرسمیت دیگرتعمیر وترقی کے کام کیے بلکہ ایسی ایسی سڑکیں بھی پکی
کروائیں جو کیپٹن صاحب مرحوم نے تین چار دہائیاں پہلے بنوائی تھیں اور اس کے بعد ان کی طرف کسی نے نظر بھی نہ کی یہاں اگر ضلع کونسل کے چیئرمین کانام نہ لوں تو ان کے ساتھ زیادتی تصور کروںگا سڑکوں گلیوں اور دیگر تعمیراتی کاموں میں ان کابھی قلیدی کردار ہے جن کا تعلق بھی اسی حلقے سے ہے۔حلقہ ایل اے 2کی خوش قسمتی ہے کہ موجودہ دور حکومت میں حلقہ میں ایک اوورسیزسیٹ پر بننے والے ممبر اسمبلی اور بعد ازیں وزیر حکومت بننے
سمیت سابق وزیراعظم اور موجودہ ایم ایل اے کے علاوہ ایک عوامی ایم ایل اے بھی ہیںجس کی چیدہ چیدہ خوبیاں صفحہ قرطاس پر رقم ہو چکی ہیں ۔عوامی ایم ایل اے کا خطاب خداجانے کس نے ان کو دیا ہے راقم کو اس گوہر نایاب سے ملنے کا اشتیاق گزشتہ کچھ عرصے سے انتہائی عروج پر ہے خیر ان سے تو کبھی نہ کبھی ملاقات ہو ہی جائے گی یہاں بات ہورہی ہے نوجوانوں کی اور صد افسوس ہے کہ مندرجہ بالا وضاحتی الفاظ کے پیش نظر حلقے میں 3ایم ایل اے ہونے کے باوجود بھی نوجوانوں کے مسائل قطعاََ نہ حل ہو سکے درجنوں محکموں میں آسامیاں خالی ہونے کے باجود ناہی وہ بھرتیاں کرواسکے اور ناہی کوئی ایسا پروجیکٹ لگواسکے
کہ جس کی بدولت پرائیویٹ سیکٹر میں نوجوانوں کو نوکریاں مل سکتیں ناہی کھیلوں کے میدان بن سکے اور ناہی نوجوانوں کے لئے اس 5سالہ دور حکومت میں کوئی اقدام اٹھایا جاسکا الیکشن کے دوران کئے گئے وعدے سیاسی بیان ہی ثابت ہوئے ،اب پھر الیکشن کی تیاریوں کاموسم آچکا ہے موسمی لیڈر بھی سامنے آچکے ہیں اور کچھ آنے کی بھرپور تیاریوں میں ہیں کورونا وائرس کی وباء کے پھیلنے کے خدشے کو بالائے تاک رکھتے ہوئے ملاقاتیں ،میٹنگیں ،اوردعوتیںعام ہیںبلکہ جوں جوں الیکشن کے دن قریب آرہے ہیں اس گرمی میںبدتریج اضافہ ہو رہا اور
نوجوان اب کی بار پھر شایدچائے کی پیالی پر بکنے کے لئے تیار ہو رہے ہیں یا تیار کیا جارہا ہے !حقائق کو سمجھنے پرکھنے اور دیکھنے کے باجودکہ! ہمارے لئے بہتر کیا ہے اور مزیدکیابہتر ہوسکتا ہے؟ سوچنے سمجھنے سے قاصر ہیں شاید نام نہاد عہدوں کی لالچ یا پھر کنوویں کے مینڈک کی طرح کی سوچ ہم نوجوانوں کو مزید سوچنے سے باز رکھ رہی ہے بلدیاتی الیکشنز نہ ہونے کی وجہ سے بھی نئی قیادت سامنے آنے سے قاصر ہے جس کا نقصان باشعور نوجوان بخوبی سمجھ سکتا ہے اور عمر رسیدہ لیڈران نوجوانوں کے مسائل سمجھنے سے
قاصرہیں کیونکہ ان کی نظر میں آج بھی سیاست کا محور صرف ٹونٹی نلکا،گلی نالی ہی ہے۔راقم کاالیکشن کی کایاپلٹنے کی صلاحیت رکھنے والے70فیصد نوجوانوں کے لئے مختصرسا مشورہ ہے کہ وہ متحد ہو کر کسی ایک امیدوارجو نوجوانوں کے ساتھ مخلص ہو جس کامنشور نوجوانوں کے مسائل ترجیعی بنیادوں پر حل کرنا ہو البتہ یہ ایک الگ بات ہے کہ حلقہ 2کی پانچوں بڑی جماعتیں ابھی تک اپنا منشور عوام کے سامنے پیش نہیں کر سکی ہیں
یہ سیاست سابقہ 70سالوں سے ٹونٹی نلکے تک ہی محدود رہی اور آگے بھی قوی امکان ہے کہ ایسے ہی رہے گی اور نوجوان ڈگریاں ہاتھوں میں لئے یوں ہی سفارش اور نوکری کے لئے دھکے کھاتے رہیں گے۔اور ان کے حصے پر ڈاکہ اردگرد کے لوگ مارتے جائیں گے جس طرح ان گزشتہ سالوں میں ہوتا رہا ہے اور نوجوان اپنے قائد و لیڈر کے نعرے مارنے تک محدود رہے جبکہ وہ لیڈر ان کا حق کسی طاقت و دولت والے کے ہاتھ بند کمرے میں فروخت کرتے رہے اور عزر یہ پیش کیا جاتا رہا کہ کبھی جماعت مخالف حکومت ہے تو کبھی ہم ہارے ہوئے امیدوار کے ووٹر ہیں۔٭٭٭
مختصر تعارف :کالم نگار ضلع میرپور کے نوجوان بے باک صحافی و اینکرپرسن و اہم معاشرتی مسائل پر لکھنے والے غیرجانبدار کالم نگار و چنار پریس کلب اسلام گڑھ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل ہیں