کیا مغل حکمرانوں نے بھارت میں دین اسلام کو پھیلایا تھا؟ 137

علامہ گوگل مشہور ڈاکٹر میراں اب ہمارے درمیان نہ رہے

علامہ گوگل مشہور ڈاکٹر میراں اب ہمارے درمیان نہ رہے

نقاش نائطی
۔ +9666044960485

وہ شافی امراض تھے بلاری میڈیکل کالج سے انگریزی ادویات کی ایم بی بی ایس ڈگری حاصل کرتے ہوئے،انہیں سقم تفتیش میں کالج کی طرف سے تمغہ متمیز گولڈ میڈل ملا تھا۔بھٹکل انکی طبی سروس کے ابتدائی دن تھے ہمارے ہردلعزیز مربی و دوست ڈاکٹر بدرالحسن معلم علیہ الرحمہ کے یہاں ہماری اکثر بیٹھک ہوا کرتی تھیں۔ ڈاکٹر بدرالحسن معلم کے بڑے صاحب زادے دو تین روز سے بخار کے شکار تھے

ڈاکٹر بدرالحسن ھیومیو طب کے ماہر بھی تھے لیکن انکی دی ہوئی دوائیوں سے انکے فرزند شفایاب نہیں ہوپارہے تھے۔انکی زوجہ محترمہ کے ہم سے اس سمت شکایت کرنے پر، ہم نے بدارلحسن معلم کو قائل کرتے ہوئے ڈاکٹر میراں کو انکے گھر بلوانے کا انتظام کیا۔ ڈاکٹر میراں اپنے اسکوٹر پر آنے کے باوجود، جیسے گھوڑے پر سوار آئے تھے جلدی مریض،

ابن بدرالحسن کو دیکھ واپس لوٹنا چاہا۔ لیکن اس ضرب المثل کے مصداق انسان اپنی مرضی سے آتا ہے لیکن صاحب خانہ کی مرضی سے واپس چلا جاتا ہے۔ڈاکٹر بدرالحسن کے گھر کوئی مہمان آئے اور بغیر انکے گھر کی انتہائی چاہت والی چائے پیئے بناہی واپس چلا جائے یہ ممکن کہاں؟ لیکن ڈاکٹر میراں اپنے بے انتہا تھکے ہونے کا بہانہ بنائے جلدی واپس لوٹنا چاہتے تھے۔اور بدرالحسن کا اصرار انہیں چائے پلاکے ہی بھجنے کا تھا۔ ڈاکٹر بدرالحسن نے کہا

تمہاری تھکاوٹ دور کرنے کے لئے تمہیں ہومیو دوائی دیتا ہوں۔ ڈاکٹر میراں نے ذرا، بے تکلفی میں ہومیو طریقہ علاج پر طنز کستے ہوئے کہا کہ آپ کی ہومیو دوائی آج کھائیں گے تو اگلے ہفتہ شاید اسکا اثر محسوس ہو۔ آگر آپ کی ہومیو دوائی زود اثر ہوتی تو آپ کے بیٹے کو شفایاب کرانے انگرئزی ادویات کے ماہر کوبلایا نہیں جاتا۔ ڈاکٹر بدالحسن ڈاکٹر میراں کو اپنے ہاتھ کا ہنر ہومیو فوری شفایابی ثابت کرنا چاہتے تھے۔ تھوڑی دیر دوستانہ

ماحول میں تگ و دو کے بعد یہ طہ پایا کہ وہ ڈاکٹر میراں کو اپنی کوئی مخصوص ہومیو دوائی کا ایک ڈوس کھلائیں گے اور اندر سے چاء بن کر آنے تک ڈاکٹر میراں کی طبیعت میں پائی جانے والی تھکاوٹ یا کسلان ختم نہ ہوجائے تو وہ آئندہ سے ہومیو اپنا علاج معالجہ بند کردیں گے
ڈاکٹر بدرالحسن کی دوائی کھاکر چائے کے انتظار میں گپ شپ کرتے ہم بیٹھے تھے۔ چاء اور بسکٹ آنے پر اس کی چسکیاں لے رہے تھے کہ اچانک ڈاکٹر میراں نے ڈاکٹر بدرالحسن معلم سے پوچھا یہ کونسی جادوئی دوائی کھلائی تھی آپ نے، میں بالکل صبح سویرے کا اٹھا نہایت ہلکا پھلکا فریش محسوس کررہا ہوں۔ یہں سے ڈاکٹر میراں ہومیوپیتھی طریقہ طب سے متاثر ہوئے اور ڈاکٹر بدرالحس سے کچھ ہومیو ادویات کتابیں لے جا، ہومیو طب پر دسترس حاصل کرلی

اور ذندگی کے آخری لمحات تک اپنے انگریزی ادویات کے ساتھ ہومیو طب کو بھی ساتھ لئے، اپنے مریضوں کو شفا یاب کرتے رہے۔ بلکہ 80 کے دہے کے ان ایام میں ہومیوپیتھی طب کو انگریزی ادویات کی جدت پسندی میں ڈھال کر، اپنے مریضوں کو ہومیو دوائی، خالی ملنے والی کیپسول میں بھر کر انگریزی ادویات کی شکل میں اپنے مریضوں کو دیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ہمارے پوچھنے پر انہوں نے بتایا آجکل کے مریض انگریزی ادویات کے اتنے قائل ہوگئے ہیں

کہ انہیں ہزار سمجھاکر ہومیو دوائی دو تو انہیں انکے اعتماد میں کمی کے باعث ہومیو دوائیاں آثر نہیں کرپاتی ہیں وہ انگریزی والی زود اثر کیپسول ہی مانگتے پائے جاتے ہیں اس لئے میں نے ممبئی پرنسز اسٹریٹ سے مختلف رنگوں والی خالی کیپسول منگوا رکھی ہیں۔ایسے انگریزی ادویات عاشقوں کو ہومیو دوائی خالی کیپسول میں بھرکے دیتا ہوں اور انکے جھوٹے انگریزی ادویات بھرم سے وہ شفایاب بھی ہو جاتے ہیں
ان کی بہترین تشخیص مرض کا ایک واقعہ جو ہم کبھی بھول نہیں پائے ہیں۔اس کا تذکرہ آج ان کی موت کی خبر سن کر کرنا چاہتے ہیں

80 کے اوائل ہی کا واقعہ ہے ہمارے دو تین سالہ بھتیجے مہلک بخار کے شکار قریب المرگ ہوگئے تھے ان ایام ڈاکٹر سریش کی علاقے میں طوطی بولتی تھی اور بھتیجے کو انہی کا علاج چل رہا تھا دو تین دن کے علاج کے بعد اس نے بچے کے صحت یاب ہونے کی امید چھوڑ منگلور لیجانے کا مشورہ دیا ۔ان ایام مریضوں کو منگلور لیجانے کا رواج عام نہ تھا اور مینگلور لیجانے کے لئے ایک دو گاڑیاں ہی دستیاب تھیں۔ اس دن گاڑی نہ مل پانے کی وجہ، دوسرے دن مینگلور لیجانا طہ پایا تھا۔ بے سدھ پڑے بچے کو دیکھنے رشتہ دار جمع ہورہے تھے

کئی رشتہ داروں کی سفارش پر ڈاکٹر میراں کو بلوایا گیا۔ اس وقت ڈاکٹر میراں نے بچے کو دیکھتے ہی کہا کہ یہ نمونیہ کے آخری درجہ کا مرض ہے ۔ اور انشاءاللہ بچہ کو صحت یاب کرایا جاسکتا ہے لیکن ان کی عادت کچھ شروط پہلے رکھنے کی، اس کے مطابق انہوں نے کہا اس شرط پر وہ علاج شروع کرسکتے ہیں کہ کل صبح تک کچھ افاقہ ہوا تو آپ اسے مینگلور لیجانا کینسل کریں گے اور اگر کچھ افاقہ نہ ہوا تو بے شک مینگلور لے جاسکتے ہیں

۔ ہم گھر والوں نے مشورہ سے ان کا علاج شروع کیا اور الحمد للہ انہوں نے اس وقت انگرئزی ادویات کے ساتھ ہی ساتھ ہومیو ادویات دیتے ہوئے، تقریبا قریب المرگ ہمارے بھتیجے کو نہ صرف بفضل خدا صحت یاب کیا بلکہ آج وہ کئی بچوں کا باپ بنتے ہوئے شہر دوبئی مصروف معاش ہے
اللہ نے مرحوم ڈاکٹر میراں کے ہاتھ میں شفا بھی رکھی تھی انکی صاف گوئی یا حق گوئی سے لوگ ان سے دور رہنے ہی میں اپنی عافیت پاتے تھے۔ اس لئے انکے مطب میں مریضوں کا تانتا نہیں رہتا تھا لیکن مضمن سقم والے انہی کے پاس آتے تھے۔ چونکہ یہاں وہاں دھکے کھائے مریض ہی زیادہ انکے پاس آتے تھے اس لئے وہ ہومیو دوائی کے بھی ٹھیک ٹھاک پیسے لیتے تھے۔ کہتے تھے ہم دوائی کی قیمت کے حساب سے تھوڑی نا فیس لیتے ہیں بلکہ اپنے تجربہ کی بنیاد پر انہیں صحت یاب کرنے کے پیسے لیتے ہیں۔ کہتے تھے کم پیسہ سے مریضوں میں

ڈاکٹر کی وقعت بھی کم ہوجاتی ہے الغرض اللہ نے انکے ہاتھ میں شفا رکھی تھی ۔ بدنی علاج کے علاوہ اپنی گوگل معلومات کے بل پر دینی اعتبار سے قال الاللہ اور قال الرسولﷺ روحانی علاج خوب تر کیا کرتے تھے۔ چونکہ وہ حق گو اور صاف گو تھے انکا حلقہ احباب اتنا وسیع نہ تھا جتنا ان کی صلاحیتوں کے اعتبار سے انکا حق تھا۔ اللہ ہی سے دعا ہے کہ وہ مرحوم ڈاکٹر میراں کی بھرپور مغفرت فرمائے، قبر و برزخ کے مراحل کو ان کے لئے

آسان فرمائے اور جنت کے اعلی مقام کو ان کے لئے محجوز رکھے۔ چونکہ آج اس موقع پر قوم کے نامور خدمتگار ڈاکٹر بدرالحس مرحوم کا بھی تذکرہ آیا ہے اس لئے یا رب تو انکی بھی بھرپور مغفرت فرمادے اور اس کورونا وبا دوران جتنے بھی ہمارے گاؤں علاقے والے یا کہ ھند و عالم والے مسلمان انتقال کرگئے ہیں ان تمام کی بھرپور مغفرت فرمادے اور سبھوں کو جنت عطا کردے۔ واللہ الموافق بالتوفیق الا باللہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں