مسلمانوں کیخلاف واقعات اسلامو فوبیا کا ثبوت 216

مسلمانوں کیخلاف واقعات اسلامو فوبیا کا ثبوت

مسلمانوں کیخلاف واقعات اسلامو فوبیا کا ثبوت

مغرب میں ایک بار پھر اسلامو فوبیا کا جن بو تل سے باہر آکر چہار سو دندناتا پھرتا ہے ، اہل مغرب نے کبھی اسے بوتل میں بند کرنے کی کوشش ہی نہیں کی ہے ، یہ مسلمانوں کو ذہنی اور جسمانی اذیت پہنچانے کیلئے ہمیشہ آزاد ہی رہا ہے،یہی وجہ ہے کہ مغربی دنیا میں اسلامو فوبیا حملے بڑھ رہے ہیں،گزشتہ روزکینیڈا کے صوبے اونٹاریو کے شہر لندن میں ایک پاکستانی نژاد کینیڈین فیملی کوبڑی سفاکی سے قتل کردیاگیا، نسلی اور مذہبی بنیاد پر دہشت گردی کے واقعے نے دنیا بھر میںمسلمانوں کے خلاف ہونے والے انتہا پسندانہ واقعات کی ایک بار پھر یاد تازہ کر دی ہے۔
یہ مغربی دنیا میں مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کا پہلا واقع نہیں ہے ،اس سے قبل مسلمانوں کے خلاف پر تشدد واقعات کی تفصیل بہت طویل ہے، 2005ء سے 2019ء کے دوران آسٹریلیا میں مذہبی بنیادوں پر مسلمانوں کے خلاف تشدد اور ہنگامہ آرائی کے 12 واقعات ہوئے‘ 2006ء سے رواں سال تک کینیڈا میں 15‘ ڈنمارک میں 20‘ فرانس میں 19‘ جرمنی میں 16‘ ناروے میں پانچ‘ سپین میں سات‘ سویڈن میں آٹھ‘ برطانیہ میں 30 اور 2001ء سے 2019ء تک امریکہ میں اسلاموفوبیا کے 48 واقعات ہوچکے ہیں، یہ تمام واقعات ثابت کرتے ہیں کہ مذہبی اور نسلی بنیاد پر مسلمانوں پر حملے مغربی معاشروں کا ایک بڑا تشویشناک مسئلہ بن چکے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ اہل مغرب مسلمانوں پر حملوں کے بعدبڑے خلوص سے افسوس کا اظہار کرتے ہیں اور مجرم کے خلاف ایکشن بھی لیا جاتا ہے ، مگر اس مسلمان مخالف سوچ کے مستقل سد باب کے اقدام سے گریزکیا جاتا رہا ہے ،کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے بھی ٹرک ڈرائیور کے ہاتھوں پاکستانی مسلم خاندان کو کچلنے کے واقعے پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نفرت کی کسی بھی قسم کو جڑ پکڑنے کی اجازت نہیں دینگے،ہم اپنی کمیونٹی کی حفاظت کیلئے ہرقدم اٹھائیں گے،تاہم اس جذباتی صورتحال میں اس قسم کے بیانات فطری بات ہیں،دیکھنا یہ ہے کہ کینیڈین حکومت اس معاملے میں اپنی ذمہ داری کس طرح پوری کرتی ہے۔
اس پرتشدت واقعہ میںپاکستانی کینیڈین شہری فیملی کے 5 افراد متاثر ہوئے، 4 شہید ہوگئے اور ایک 9 سالہ بچہ زندگی موت کی کشمکش میں ہسپتال میں داخل ہے،یہ کوئی عام حادثہ نہیں ، ایک کھلی دہشتگردی ہے،اس دہشت گردی کے واقعے کے بعد کینیڈا کی مسلم آبادی بالخصوص اور دیگر مذاہب کے تارکین وطن بالعموم خود کو غیر محفوظ محسوس کریں گے،یہ خوف ، دہشت کی فضا دیگر ممالک میں بھی مسلم تارکین وطن کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے

،اس دہشت و خوف کی فضا کے خاتمہ کیلئے اقوام عالم کو باہمی مشاورت سے عملی اقدامات کرنا ہوں گے، کینیڈا‘ امریکہ‘ یورپی ممالک میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے اور ان کے قانونی اور سماجی حقوق پامال کرنے کے واقعات پچھلے کچھ عرصے سے جس تواتر کے ساتھ ہو رہے ہیں، اس میں ان ممالک کی حکومتوں اور اداروں کی ناکامی نمایاں نظر آتی ہے۔
کینیڈا میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعے پر پاکستانی عوام بہت افسردہ ہے ،وزیر اعظم عمران خان نے بھی بہت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے عالمی برادری سے اسلاموفوبیا کے تدارک کیلئے بھرپور اقدامات کر نے کا کہا ہے،اسلاموفوبیا کا خطرناک رجحان جس تیزی سے بڑھ رہا ہے ،اگر اسے روکنے کیلئے مل کر آواز بلندکرنے کے ساتھ عملی اقدامات نہ کیے گئے

تو یہ آگ سب کچھ جلا کر راکھ کردے گی ،اس حوالے سے مسلم ممالک کی ذمہ داری زیادہ ہے کہ مسلم دنیا کے اہم رہنما اور تنظیمیں اسے اپنا مشن بنا لیں کہ وہ مغربی اور غیرمسلم ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کے شخصی‘ مذہبی اور سماجی حقوق کیلئے اپنا اثرورسوخ استعمال کریں گے۔ یہ مغربی دنیا میں بھی سوچ اُجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ نفرت اور تشدد کے ان واقعات سے ان کے ہاں بسنے والے صرف مسلمان ہی متاثر نہیں ہورہے، بلکہ عدم تحفظ اور نفسیاتی
دبائوپورے سماج کو ہی اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔
مغرب میں اسلام فوبیا کے نام پر جو نفرت پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے ،اس نفرت سے صرف ایک خاص مذہبی پس منظر رکھنے والی آبادی کیلئے مسئلہ نہیں، بلکہ ان ممالک کے سماج میں دوریوں اور عدم اطمینان کو بڑھاوا دینے کا سبب بھی بنتا ہے۔ یہ تہذیبوں کے مابین تصادم کی راہ ہموار کرنے والا عمل پوری دنیا میں مذاہب کے مابین ہم آہنگی کیلئے خطرہ ہے،اس لیے وقت آ گیا ہے کہ پوری دنیا اسلامو فوبیا ایشو پر سر جوڑ کر مل بیٹھے

اور اس کے سد باب کیلئے موثر حکمت عملی واضح کرے ، مسلمانوں کو بھی اپنے رویوں میں تبدیلی لاتے ہوئے مغربی پراپیگنڈے کے اثرات کو مکالمے کے ذریعے ذائل کرنا ہوگا،اگر ہم نے بھی مغرب پراپیگنڈے کا جواب تشدد اور ایک دوسرے کی جانیں لے کر دینے لگے تونفرت و تشدت مذید بڑھے گا او رکسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا،بلکہ اسلام مخالف قوتوں کومسلمانوں پر انگلی اٹھانے کاایک اور موقع مل جائے گا،اسلامو فوبیا کا توڑ تشدت نہیں، بہترین حکمت عملی اور تدبر کے ساتھ ہی ممکن ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں