ہم انسان کو انسانیت کا سبق بےزبان جانوروں سیکھنا پڑ رہا ہے
نقاش نائطی
۔ +966604960485
https://www.facebook.com/100012749744841/posts/1230365510731762/
اشرف المخلوقات کہے جانے والے، تمدنی ترقی یافتہ ہم انسانوں کو ان بے زبان جانوروں سے کیا انسانیت کا درس سیکھنا پڑیگا؟ کون ہے وہ خالق جہاں جو ان بے زبان جانوروں میں بھی ایک دوسرے کے تئیں ہمدردی رحم کے جذبات ڈالتا ہے یہ تو قدرت کا نیم ہے کہ اپنے پیٹ کی بھوک مٹانے کے لئے ایک جانور دوسرے جانور کا شکار کر اسے مار کھا جاتے ہیں۔
سھاکاری وجیٹیرین ھندو اور بدھ مت کے ماننے والوں کے اُصولوں پر دنیا چلتی تو کب کی ختم ہوگئی ہوتی ۔ مالک دو جہاں نے دنیا کو بنانے کے بعد مختلف جانوروں کے ذریعہ حضرت انسان کو بہت کچھ سیکھنے کے مواقع عطا کئے ہیں۔ جانوروں کا شکار کر انہیں کھانے کا نظم بھی حضرت انسان نے، ان بے زبان جانوروں ہی سے سیکھا ہے۔ وہ تو بعد کے دنوں میں اللہ کے رسول ﷺ نے کون سے جنگلی جانوروں کا شکار کر کھایا جائے اور کونسے پالتو جانوروں ذبح کر کھایا جائے اس کی تعلیم ہمیں دی ہے۔اسی کے چلتے ہم مختلف جانوروں کا شکار کر انہیں کھا جاتے ہیں۔
قدرت کے اسی نظام کے تحت ایک مگرمچھ ایک ہرن کا شکار کرتا ہے ۔اور یرن کو پوری طرح اپنے جبڑوں میں دبائے ہوئے، ہرن کی سانسوں کی دھمک سے مگرمچھ کو اس بات کا ادراک ہوجاتا ہے کہ ہرن حمل سے ہے اس لئے وہ جبڑے میں پھنسی ہرن کو پانی کے اندر گھسیٹ لے جا کھا جانے سے پہلے، اس ان جنمے ہرن کے بچے پر شاید ترس کھا، اسکے جبڑے میں پوری طرح پھنسی ہرن کو آزاد کر اسے جانے دیتا ہے۔
اللہ اگر چاہتا تو وہ مگرمچھ اس حاملہ ہرن پر حملہ کرنے کی جرآت ہی نہیں کرسکتا تھا لیکن ہم انسانوں کے کیمرہ میں یہ منظر ریکارڈ کرتے تناظر میں ہم انسانوں کو اس بے زبان مگرمچھ کے ذریعہ انسانیت کا پاٹھ پڑھانا غالبا اللہ چاہتا تھا اس لئے اس مگرمچھ کے ہرن کو شکار کر، پوری طرح ہرن کو قابو میں کرلینے کے بعد،ہرن کی سانسوں سے اس کے حاملہ ہونے کا ادراک مگرمچھ کو دیتے ہوئے، اسکے دل میں اس ان جنمے ہرن کے بچے کے لئے رحم کے جذبات جگاتے ہوئے، ہم انسانوں کو رحمدلی اور انسانیت کا پاٹھ پڑھانا چاہ رہا تھا
اس حاملہ ہرن کو شکار کر، اس کے حاملہ ہونے کا ادراک پالینے کے بعد مگرمچھ کے اپنے جبڑوں میں پھنسے ہرن کو چھوڑ دینے کے واقعہ کو دیکھ کر، ہمارے دماغ کے پردہ ثمین پر آج کے بھارت کے پرائم منسٹر شری نریندر مودی جی کے چیف منسٹر گجرات رہتے ان ہی کی ایما پر 2002 گجرات میں مسلم کش فسادات کے منظر گھومنے لگے ہیں۔ ایک طرح مسلمانوں کے محلہ کے محلہ آگ کی نظر کئے جارہے تھے آگ زد گھروں سے مسلم عورتیں اپنی جان بچانے محلوں میں نکلتی ہیں آر ایس ایس، بے جے پی کے غنڈے ہاتھوں میں ترشول، نیزے، بھالے لئے ان عورتوں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ عورتین اپنی جان بچانے بھاگنے لگتی ہیں۔
ان میں سے بعض عورتیں جو پورے حمل سے تھیں بھاگ کر اپنی جان بچانے میں ناکام رہتی ان سنگھی درندوں کے ہاتھوں لگ جاتی ہیں ۔وہ حاملہ مسلم عورتیں اپنے پورے 9 ماہ کے حمل سے ہونے کا انہیں بتاکر، ان سے رحم کی بھیک مانگتی ہیں اور سنگھی درندے اس پر کھل کھلا کرہسنے لگتے ہیں،ان میں انسان نما ایک وحشی سنگھی درندہ آگے بڑھتا ہے اور اپنے ہاتھ میں پکڑے چاقو سے اس مسلم نساء کے، رحم رحم بھیک درمیان اسکے پیٹ پر سے ساڑی ہٹا اپنے چاقو سے اسکا کھلا پیٹ چیر دیتا ہے ۔اور انجنما زندہ بچہ نظر آتا ہے
ان درندوں میں دوسرا اپنے ہاتھ میں پکڑے ترشول کو اس ان جنمے زندہ بچے پر مار اس کو ترشول کی نوک پر اٹھا پاس میں جلنے والے مسلمانوں کے گھروں کی آگ میں پھینک دیتا ہے اور سب سنگھی درندے زور زور سے قہقہے لگا ہنسنے لگتے ہیں اور سب مل کر اس زخموں سے چور مسلم نساء کو بھی زندہ آگ میں پھینک جلادیتے ہیں۔ 2002 گجرات مسلم کش فساد میں یہ ایک ایسا حاملہ مسلم نساء کا پیٹ چیر اسکے ان جنمے بچے کو مارنے کا واقعہ نہیں ہے
ایسے بیشمار گجراتی مسلم حاملہ عورتوں کے پیٹ چاقو سے چاک کر انکے انجنمے بچوں لو ترشول کی نوک پر اٹھا ماں بچے دونوں کو جلانے کے ان گنت واقعات اس وقت سامنے آئے تھے لیکن کیا ہوا؟ وہی کچھ ہوا جو اس وقت گجرات چیف منسٹر مودی جی اور اس کے وزیر داخلہ امیت شاہ چاہتے تھے۔ اس وقت گجرات بی جے پی پر اس سے پہلے والے کیشو بھائی پٹیل کا دبدبہ تھا۔ اس وقت مودی جی عارضی چیف منسٹر گجرات بنے تھے۔ سامنے گجرات اسمبلی کے انتخابات تھے اس لئے گجرات انتخابات میں ہندو ووٹوں کو حاصل کرنے کے لئے
مودی جی مسلمانوں کا دشمن ہندو ویر سمراٹ کا خطاب حاصل کرنا چاہتے تھے اسلئے معشیتی طور گجراتی مسلمانوں کی مسلم کش فساد میں تاراجی کی گھناؤنی سنگھی سازش رچی گئی۔ مودی جی کی پرم پوجیہ ایڈوانی جی کے ہاتھوں 1992 بابری مسجد شہید کئے جانے کے بعد ایودھیہ رام مندر بنائے جانے کے لئے پورے بھارت سے کارسیوک ایودھیہ آیا جایا کرتے تھے۔ ایسے ہی کم و بیش بیش بیش سے پچیس کارسیوک ریل کے ڈبہ میں سوار گجرات گودھرا ریلوے اسٹیشن سے گزرنے والے تھے، جس کی اطلاع قبل از وقت گجرات سنگھی مودی
امیت شاہ سرکار کو تھی اسلئے سرکاری مشینری کا استعمال کر کچھ منٹوں کے گودھرا اسٹیشن پر رکے،ریل گاڑی کے اس مخصوص ڈبے میں جس میں رام سیوک سوار تھے آگ بھڑکانے والا مخصوص کیمیکل ریل ڈبےکے اندر سے ڈال کر ان تمام رام کارسیوکوں کو زندہ جلایا گیا اور اس کا الزام گجراتی مسلمانوں کے اوپر زبردستی منڈھتے ہوئے، اس وقت کے گجرات چیف منسٹر مودی ان کے وزیر داخلہ امیت شاہ کے حکم سے گجرات سرکار کی پوری
مشینری کا استعمال کرتے ہوئے، کارسیوکوں کو گودھرا کانٹ میں مارنے کے بدلے کی کاروائی ظاہر کرتے ہوئے، بھارت کی تاریخ کا سب سے بھیانک مسلم کش فساد رچا گیا تھا اور یقینا آرایس ایس، بی جے پی کے سنگھی غنڈوں کو مسلمانوں پر ہر قسم کا ظلم ڈھانے کی کھلی چھوٹ دی گئی تھی اور اسی کھلی چھوٹ کا نتیجہ تھا کہ اس وقت ان سنگھی غنڈوں نے حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کر انکے انجنمے بچوں کو ترشول کی نوک پر اٹھا آگ
میں اچھال کر اپنی بربریتا کی تاریخ رقمطراز کی تھی اور یوں آٹھ سے دس ہزار کے قریب ان نہتے گجراتی مسلمانوں کو ان ہتھیار بند غنڈوں کے ہاتھوں ختم کرواتے ہوئے، اس وقت گجرات چیف منسٹر رہے شری نریندر دامودر داس مودی کروڑوں بھارتیہ ھندوؤں کے ویر سمراٹ کے خطاب کے حقدار بنے، 56″چوڑے سینے والے مودی جی بنے تھے
پتہ نہیں کتنے دنوں کی بھوکی اس بے زبان مگرمچھ نے، اپنے پیٹ کی بھوک مٹانے کے لئے بڑی محنت اور چالاکی کے ساتھ خود کے شکار کئے اپنے مضبوط جبڑے میں پھنسے ہرن کو، اس کی تیز تر سانسوں کی دھمک سے اسکے حاملہ ہونے کا ادراک پاتے ہوئے، اس انجنمے ہرن کے بچے پر ترس کھاکر، اس ہرن کو آزاد چھوڑ دیا تھا
لیکن تمدنی ترقی یافتہ انسانوں کے اس سنگھی درندوں کی وحشی فوج درموج نے،صرف اور صرف اپنے سنگھی آقاؤں کے حکم کی بجا آوری کے لئے اور انکے قلب و اذہان میں مسلمانوں کے خلاف بٹھائے زہر افشانی کی تسکین کے لئے،اپنے انجنمے بچے کی زندگی کی بھیک مانگتی مسلم نساء کے پیٹ چاقو سے چیرکر،ان جنمے بچے اور ان کی ماؤں کو زندہ آگ میں جلاتے ہوئے انسانی درندگی کی تاریخ رقمطراز کی تھی
ہم مسلمانوں کو لگتا تھا کہ پتہ نہیں ہم مسلمانوں سے آخر ایسی کیا خطا سرزد ہوگئی تھی کہ 2002 گجرات فساد برپا کرانے والے سرکاری اعداد و شمار مطابق دو ہزار اور غیر سرکاری طور کم و بیش دس ہزار ہم مسلمانوں کے قاتل، اب تک 19 سالوں سے اپنے کئے ظلم و ستم کی سزا قدرت سے پانے کے بجائے اس وقت سے اب تک قدرت سے
انعام کے طور، سیاسی ترقی کرتے ہوئے گجرات سی ایم سے عالم کی سب سے بڑی جمہوریت چمنستان بھارت کے ان ودھاتا بن بیٹھے ہیں۔ قدرت کی لیلا نیاری،اس کے دربار میں دیر ہے پر اندھیر نہیں۔اس کی منشاء کو سمجھنے میں ہم سے دیر ہوجاتی ہے لیکن وہ تو انصاف کر گزرتا ہے۔ گجرات مسلم کش فساد بعد، اہنے ہی گجراتی مسلمانوں کا قتل عام کرنے کے باوجود، جس طرح سے گجراتی ھندوؤں نے مودی جی کو ھندوؤں کے ویر سمراٹ کے
طور پیش کیا تھا اور انہیں دس لمبے سالوں تک گجرات کی گدی انعام میں دی تھی اور 2014 عام انتخاب بعد، پورے بھارت کے ہندوؤں نے، اسی قاتل گجرات مودی جی کو اپنی مسلم دشمنی میں، اپنے سروں پر اٹھا انہیں بھارت کا ودھاتا بنایا تھا اس دھرتی کے اصلی ودھاتا ایشور اللہ نے، اسی مودی جی کے ہاتھوں بھارت کے ان ہندوؤں کا ناش کرنے کا پلان جو بنایا تھا اس کا کسی کو ادراک نہ تھا۔ کچھ روز پہلے امریکی نیویارک ٹائمز رپورٹ کی مطابق بھارت میں کورونا اموات 50 لاکھ سے زیادہ اس خبر کو ذہن میں رکھتے ہوئے،اس بےزبان مگرمچھ کے اپنی جبڑوں میں پکڑے ہرن کو اسکے حاملہ ہونے کے ادراک بعد اسے کھائے بنا زندہ آزاد چھوڑتی ویڈیو کلپ نے ایشور اللہ کے بھارت واسیوں پر کروپ یا غصے کا اظہار کرتے انہیں سزا دئیے جانے کا ادراک ہوا ہے
https://youtu.be/0-0QfCvWuNM
اب اگر غور سے دیکھا جائے تو،قاتل گجرات کو ایشور اللہ کی طرف سے دی گئی ڈھیل دراصل اس قاتل گجرات کو اپنے ودھاتا کے مقام متمیز پر بٹھانے والے،اور بعد میں یکے بعد دیگرے بھارت میں ہونے والے واقعات، 14 سے زیادہ رام جنم استھان مندر ہونے کے دعوے والے ایودھیہ نگری ہی میں، 500 سالہ مسلمانوں کی جامع مسجد اراضی کو عدل کے نام پر رام مندر بنانے کے لئے دئیے جانے والے، انصاف کا گلا گھونٹتے عدلیہ کے فیصلے نے،
اور سرکاری مشینری کا استعمال کر انسانیت(مسلمانوں و دلتوں) پر ہوتے مظالم اور عام بھارتیوں کی مودی مودی جئے جئے کار کے چلتے ہوئے ہی، ایشور اللہ نے عالم میں پھیلے اس کورونا کو اسکے دوسرے مرحلے میں بھارت واسیوں پر قہر کے طور پیش کرتے ہوئے،انہی سنگھی مودی یوگی حکمرانوں کی دانستاغلطیوں کے تناظر میں، 50 لاکھ سے زیادہ دیش واسیوں کو مار کر انہیں سبق سکھانے کی کوشش کی ہے۔بے شک ان مرنے والوں میں گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جائے جیسا مسلمان مرنے والوں کی تعدادبھی اچھی خاصی ہے۔ لیکن گجرات یوپی سنگھیوں کے گڑھ میں کون زیادہ مرے ہیں اس کا ادراک بھارت کے ھندو بھائیوں کو گر وقت رہتے ہوجائے تو اچھا ہے۔ وما علینا الا البلاغ