قربانی 226

قربانی

قربانی

تحریر:فاطمتہ الزہرہ،لاہور
جب بھی ہوا مسلم کے خون سے آغاز ہوا اور جب اس لہو کی چھینٹیں اس قدر پڑیں کہ کافر کے منہ پر پڑنے لگیں تو امن ہو گیا۔ مسلم خون کی قربانی کے بعد ہمیشہ امن ہی ہوا ہے اس دنیا میں یہ فتنے کا وہ دور ہے کہ ہر طرف مسلمانوں کا خون بہایا جا رہا ہے۔ ہر شہر میں، ہر ملک میں، ہر قصبے میں اور ہر گھر میں۔ مسلمان صرف اس بات کی سزا کاٹ رہا ہے

کہ اس نے اللہ کو ایک مانا ہے۔ وہ صرف اس بات کی سزا کاٹ رہا ہے کہ اس نے محمد صلی علیہ وسلم کو آخری نبی کہا ہے۔ وہ صرف کلمۂ حق بلند کرنے اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ دور جاہلیت کی نشانی ہے کہ جاہلوں کو عالم فاضل کا رتبہ دیا جائے گا اور ستم یہ کہ لوگ انہیں عاقل مانیں گے۔ قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کہ ہر شخص مسلمان ہونے کا دعوی کرے گا اور دین اپنے مطلب کا ہی یاد رکھے گا۔ جب مسلمان کا خون بہتا تھا تو صحابہ جہاد کرتے تھے۔ اللہ تعالی نے مسلمانوں پر انتقام کو فرض کیا ہے

۔ بے شک معاف کر دینا بھی افضل ہے لیکن ظالم کو معاف کرنے کی روایت کہیں نہیں ملتی اور جبکہ وہ وعدہ خلاف بھی ہو۔ اللہ تعالی نے جہاد مسلمانوں پر فرض کیا ہے لیکن افسوس جب مسلمان جہاد کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو اپنے ہی مسلمان بھائی اسے انتہاپسند، جنگ پسند، دہشت گرد اور فتنہ پرور کہہ کر راستے میں روڑے اٹکاتے ہیں۔

افسوس کہ آج مسلمان جسدِ واحد کی طرح نہیں رہا۔ حدیث کا مفہوم ہے کہ:” اگر جسم کے ایک حصے میں درد ہو تو پورا بدن تڑپتا ہے اسی طرح مسلمان جسدِ واحد کی طرح ہیں۔ اگر دنیا کے کسی گوشے میں بھی مسلمان درد میں ہو تو دنیا کا ہر مسلمان اس تکلیف سے اس اثرانداز ہوگا۔”
آج ہمارے سامنے ہمارے مسلمان بھائیوں کا خون بہایاجارہا ہے اور مسلمان اس امید پر ہیں کہ فرشتے اتریں گے مدد کو۔ دراصل مسلم یہ بھول گیاہےکہ فرشتے بھی نصرت کو اس وقت اترے تھےجب مسلمان جہاد میں نکل کر لڑتاتھا۔ آج ہم صرف گھر بیٹھ کر دعائیں ہی کریں گے تو فرشتے بھی فقط آمین ہی کہیں گے۔ شام میں ایک عرصے سے جنگ جاری ہے۔ وہاں کا مسلمان سزا کی زندگی گزار رہا ہے اور ہم اپنے آشیانوں میں مزے سے سو رہے ہیں۔

لبنان میں مسلمانوں کے سر سے چھت گرائی جا رہی ہے اور یہاں کا مسلمان اپنی منزلیں اونچی کر رہا ہے۔ فرانس گستاخِ رسول ہو کر بھی مسلمان کے خون بہنے کا تماشہ دیکھ رہا ہے اور اس سب کے بعد بھی فلسطین میں ہونے والے حملے، ناحق ظلم پر مسلمان امن کے معاہدے کر رہے ہیں۔ جنگ کو نہ ختم ہونے کے ڈر سے کوئی شروع کرنے پر راضی ہی نہیں۔ مسلمان کا خون بہتارہے تو پوری دنیا خاموش۔۔۔۔۔
واہ! انصاف تیرےعدل کے تقاضے۔۔۔۔
آج ہم نے صرف اپنے آپ کو سوشل میڈیا تک محدود کرلیا ہے۔ غزا (فلسطین کا شہر) میں حالات خراب ہوئے تو فیس بک، انسٹاگرام اور واٹس ایپ پر کافروں کو لعنت ملامت کر لی۔ یہ وقت تومسلمان کے خود شرمندہ ہونے کا ہے کہ ہمارے ہاتھوں کو اس طرح باندھ دیا گیا ہے کہ اپنے ہی ملک میں کلمۂ حق بلند کرنے پر اپنی فوج کی گولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ اب جب کہ ظالم اسرائیل نے جنگ بندی کر دی تب بھی ہم یوں خوش ہو رہے ہیں جیسا کہ ہم نے اس میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہو۔ مسلمان کا خون بہنے کے بعد کوئی جرگہ نہیں، کوئی عدل نہیں، کوئی شرائط نہیں

، کوئی انصاف نہیں صرف امن کی دلیل پر جنگ بندی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی انسانیت نہیں ایسی اقوامِ متحدہ کا کیا فائدہ کہ دو ارب مسلمانوں کی آواز سن نہ سکی۔ مسلمان کے لئے اس سے بڑھ کر شرمندگی اور کیا ہو گی کہ قبلۂ اول کافر کامحکوم ہو گیا ہے۔ اس پر مزید یہ کہ بقیہ مسلمان خاموشی سے بیٹھ کر تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ آج طارق بن زیاد پیدا نہیں ہو رہے، آج محمد بن قاسم پیدا نہیں ہو رہے، آج محمود غزنوی پیدا نہیں ہو رہے بلکہ آج مسلمان کی اولاد نیوٹن، بلگیٹس اور آئنسٹائن بننے پر زور دے رہی ہے۔ افسوس! آج اقبال پیدا نہیں ہو رہے۔ اللہ ہم سب پر اپنا رحم فرمائے۔ آمین!!

وہ معزز تھےزمانےمیں مسلمان ہوکر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں