کیا مغل حکمرانوں نے بھارت میں دین اسلام کو پھیلایا تھا؟ 211

یہ کورونا وبا ہے کیا چیز؟

یہ کورونا وبا ہے کیا چیز؟

نقاش نائطی
۔ +966594960485

بھارت میں ہوئی کویڈ اموات کے بارے میں دیش کی جنتا کو کیا جاننے کا حق نہیں ہے؟اگر سرکار نے اپنی ذمہ داری نبھائی ہوتی تو کیا آدھی اموات سےبھارت واسیوں کوبچایا نہیں جاسکتا تھا کیا؟
https://youtu.be/hj5N0uVWAxQ

معاملہ پیچیدہ ہوکر بگڑنے سے پہلے صحیح علاج سے ہر مرض کو شفایاب کیا جاسکتا ہے؟

گھر کی تمام خانگی ذمہ داریاں سنبھالنے والی نساء اس حقیقت کا ادراک بخوبی رکھتی ہیں کہ گرمی کے دنوں میں سالن دوبارہ گرم کرنے، ذرا دیر ہوجائے تو نہ صرف سالن بدمزہ ہوجاتا ہے بلکہ اس حد تک خراب ہوجاتا ہے کہ وہ سالن دوبارہ استعمال لائق نہیں رہتا مطلب ہماری ذراسی بداحتیاطی یا بے توجہی سے یہ سالن گویا جیتے جی سڑ جاتا پے یا مرجاتا ہے۔

سالن کو محفوظ رکھنے فریج کی عدم دستیابی کی صورت وقت وقت پر سالن گرم کرتے رہاجائے تو سالن کبھی خراب نہیں ہوا کرتا، ذہین اور زیرک نساء پکےسالن پر جمنے والی تہہ سے اندازہ لگاتے ابتدائی مراحل میں سب کام چھوڑ جب سالن کو گرم کر لیتی ہیں تب ذرا بے توجہی سے اپنی موت آپ مرنے والاسالن نہ صرف خراب ہونے سے بچ جاتا ہے بلکہ اس کے ضیاء سے ہونے والے مالی نقصان سے بھی وہ بچ جاتے ہیں
یہی تو فی زمانہ ہماری بے توجہی یا تساہلی سے ہم میں پائے جانے والی بیماریوں کے ابتدائی مراحل ہمآری بد احتیاطی سے،

وہ مرض ناقابل علاج بنتے ہوئے ہمیں دنیوی اعتبار ہی سے، وقت سے پہلے آخرت سفر پر مجبور کرتا ہے۔ ایک مومن مسلمان ہونے کے ناطے جہاں ہمیں تقدیر اور ‘وقت موت، پر یقین کامل ہوتا ہے وہیں پر سائینسی اعتبار سے بھی ایک مکمل دین ہونے کے ناطے ہمارے رسول تاجدار مدینہ محمد مصطفیﷺ کی دی ہوئی ہدایات، ہمیں مجبور کرتی ہیں کہ ہم بھی اپنے آپ آپ کو اپنے میں موجود سقم سے بچانے کی جستجو کرتے ہوئے پائے جائیں۔ کیا ہمارے دین اسلام کے ذریعہ سے ہم پر اتارے گئے قرآن مجید کا یہ حکم ہم تک نہیں پہنچا ہے کہ
“وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ”
“اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔
اورہمارے آقائے نامدار رحمت للعالمین محمد مصطفی ﷺ کا وہ قول ہم تک نہیں پہنچا؟
۔ “لكلِّ داءٍ دواءٌ “
ہر بیماری کے لئے (لائق شفا) دوا ہے

“ما أنزل الله داء إلا قد أنزل له شفاء”
خدا نے کوئی بیماری نہیں اتاری ہے سوائے اس کے کہ اس نے اس کا علاج بھیجا ہے

پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اپنے آپ کو مومن کہنے والے ہم مسلمان بھی یہ کہتے پائے جائیں کہ یہ مرض لاعلاج ہے یا اس وبا کا سائنسدانوں نے ابھی تک کوئی علاج دریافت نہیں کیا ہے۔ کہنے دین کفار و مشرکین کو وہ جو جو کچھ انکے دل و دماغ میں آتا ہے اور بکے جاتے ہیں لیکن اللہ کی ذات پر اور اس کے خالق و مالک شافی کل الامراض ہونے پر یقین رکھنے والے ہم مومن مسلمانوں کو تو اس بات کا یقین کامل ہونا چاہئیے کہ نت نئے اقسام کے امراض میں ہمیں مبتلا کرتے ہوئے، ہمارا امتحان و آزمائش لینے والا بھی وہی اللہ ہے اور ہمیں اس سقم یا وبا سے محفوظ رکھنے والا بھی وہی شافی کل الامراض ہے
اگر اس ثم قاتل کورونا وبا میں کسی کو مارنے کی طاقت و استعداد ہوتی تو اس کے متاثرین میں سے 90 فیصد مریض شفایاب نہیں ہوتے اور 90 سال تجاوز کرگئے بڑے بوڑھے بھی اس کورونا وبا کے شکار بن جانے کے باوجود شفایاب نہیں ہوجاتے؟

دنیا کے جدت پسند سائنسدانوں نے اس فکر کو اپنے مشاہدات سے ثابت کیا ہے کہ دوا سے زیادہ ڈاکٹر پر مریض کا بھروسہ ہی، اسےشفایاب کرنے میں ممد و مددگار ثابت ہوا کرتا ہے۔اور جب ایک مریض کے سامنے بار بار یہ بات دہرائی جائے کے یہ لاعلاج مرض ہے اور اب اس سقم کے اس درجے میں پہنچنے کے بعد شفا ہاب ہونا ممکن نہیں، یقین ماننے مریض جب بار بار یہ سن کر اپنے ذہن کو علاج سے شفایاب ہونا ناممکن تصور کرتے ہوئے خود سے مرنے کے لئے ذہنی طور تیار پایا جائیگا تو ایسے مریض کو دنیا کا مشہور سے مشہور ڈاکٹر بھی شفایاب نہیں کر پائیگا
2020 جن عالم میں کورونا وبا نے اپنے پاؤں پسارے تھے انہی ایام 28 مارچ 2020 ہمارے لکھے اور چھپے مضمون کے کچھ اقتباسات کو ہم یہاں پیش کررہے ہیں

تمثیلا عرض ہے ایک امریکی سائینس دان نے اپنی اس تھیوری یا منطق کو ثابت کرنے کے لئے، باقاعدہ حکومت امریکہ سے اجازت لیکر جیل میں، اپنے کئے جرم کی پاداش میں موت کی سزا پانے والے ایک جوان سال صحت مند مجرم کو اپنی لیبارٹری میں لاتے ہوئے، اس کے بعد ہونے والے ہر عمل کی عکس بندی کا اہتمام کرتے ہوئے، اس مریض کو ایک سانپ بتاتے ہوئے اسکے ذہن و فکر میں یہ بات ڈالی گئی کہ اسے جو موت کی سزا عدلیہ نے سنائی ہے اس کے حسن آخلاق کو دیکھتے ہوئے، اسے آسان موت دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے،

ایک خطرناک ثم قاتل زہریلے ناگ کو لیبارٹری میں لایا گیا ہے اور آج سے ٹھیک دو دن بعد ایک مخصوص وقت اس سانپ سے ڈسواکر اسے آسانی سے موت دیجائی گی۔ دو دن تک اسی خبر کو مختلف لوگوں سے بار بار اسکے ذہن نشین کروانے کے بعد، تیسرےدن ایک مخصوص وقت، اسکی آنکھوں پر پٹی باندھتے ہوئے اس کے ذہن و فکر میں اچھی طرح یہ بات بٹھاتے ہوئے کہ ابھی کچھ لحظون بعد سانپ کے ڈسنے سے و مر جائیگا آن کیمرہ، ایک دو نوکی سوئی سے اس کی ہتھیلی کی پشت پر سانپ کے ڈنک مارے جیسا چھبویا جاتا ہے پھر کیا تھا

اس کے ہاتھوں رگوں میں لگے مختلف آلات کنکشن سے لوگوں نے دیکھا ایک ہلکی آہ کراہ کے ساتھ دھیرے دھیرے اس کا فشار دم کم ہونے لگا اور اس کی نبض ڈوبنے لگی اور کچھ لحظوں کے بعد اس کے منھ سے سانپ کے ڈسنے کے بعد آئے جیسا جھاگ آنے لگا اور وہ بالآخر دم توڑ مرچکا تھا۔ دراصل اسے اس سانپ کے زہر نے نہیں مارا تھا بلکہ اس کے ذہن و فکر میں دو دن سےبٹھائے گئے سانپ کے ڈسے سے مرنے کے خوف کو اس منظم طریقہ سے بٹھایا گیا تھا کہ اس ڈر اور خوف نے اس کی نہ صرف جان لی بلکہ خون تپش بعد، یہ بات سن کر سب لوگ ورطہ حیرت میں مبتلا ہوگئے کہ اس کے پورے بدن میں سانپ کا زہر پھیلنے سے اس کی موت واقع ہوئی تھی۔جبکہ سانپ نے اسے ڈسا بھی نہیں تھا

یہی تو ہورہا ہے اس کورونا وبا میں بھی۔عالمی یہود و ہنود و نصاری والی دوا مافیا نے ایک منظم سازش کے تحت عالم کی بڑھتی آبادی کو ایک متعین مقدار تک کم کرنے کے لئے اور یہود والے دجال کی ایک نظر سے عالم کو دیکھنے کی صلاحیت اور اس دجالی نظام کو عالم پر نافذ کرنے کےلئے ہی، باقاعدہ منظم سازش کے تحت، سانس آندر باہر لینے چھوڑنے والے،

ہوا سے پھیلنے والے ملیریا وائرس کی صلاحیت کو، اندرونی انسانی اعضاء کو ناکارہ بنا انہیں مفلوج کرنے کی صلاحیت والے ایڈس بیماری کے وائرس میں خلط ملط کرکے، درختوں میں قلم کرکے بہتر پھل لانے والے اوصول پر لیبارٹری میں تیار کئے گئے ایک نئے وائرس سے،عالم میں یہ کورونا وائرس پھیلایا گیا ہے اور یہ سب مستقبل میں ایٹمی ہتھیاروں سے ملکوں کے درمیان جنگ کےبجائے، ان لیبارٹری میں بنائے گئے بایولو جیکل ہتھیار سے ایک دوسرے کو زہر کرنے کوشش کے طور کیا گیا ہے

بایولاجیکل وار فیر کے لئے چائینا کو بدنام کرنے کی امریکی سازش چور کی داڑھی میں تنکے والا معاملہ تو نہیں ہے؟

کیا عالم میں کویڈ وبا پھیلانے کا ذمہ دار چائینا ہے؟
https://youtu.be/vPZfvR8EpSQ

امریکی سائینس داں، عام سے انفلوینزا کے متعدی مگر غیر سم قاتل بے ضرر وائرس کو اپنی تحقیقی مختبر گاہوں میں خطرناک تیز تر متعدی سم قاتل وائرس میں تبدیل کرتے ہوئے، اسے بایولاجیکل ہتھیار کی صورت ڈھالنے میں کامیابی حاصل کرلیتے ہیں۔ “انسانی فطرت، راز کی بات ہضم نہیں کی جاتی” اس اوصول کے تحت کسی بھی بہانہ سے، اس سائینس دان کے منھ سے وہ راز نکل کر، کسی لیکھک یا لکھاڑو ناول نگار تک پہنچ جاتی ہے۔ وہ ناول نگار امریکہ کے دشمن ملک چائینا کے نام سے، اسے “اندھیرے کا سچ” نامی جاسوسی ناول کی شکل1981 چھاپ، مارکیٹ میں نہ صرف عام کردیتا ہے بلکہ وہ ناول اس وقت کا سب سے زیادہ بکنے والا ناول بن جاتا ہے

۔اس ناول کی کہانی پر مشتمل 2011 میں بڑے بجٹ کی ہالی ووڈ کی ‘متعدی’ (“کونٹینجینٹ”) نامی ، اپنے وقت کی کامیاب ترین فلم بنائی جاتی ہے، اور اچانک دو دہوں والی افغانستان جنگ میں، اپنی بربادی بعد، بے یار و مددگار افغانیوں کے ہاتھوں، شکست فاش تسلیم کرتے ہوئے، “بڑے بے آبرو ہوکر تیرے کوچے سے ہم نکلے” مثل مصداق، عالمی طاقت صاحب آمریکہ، افغانستان سے نکلنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ پھر اچانک امریکی شکست پر دنیا والوں کی تنقید کا سامنا کرنے سے قبل، اس کے دشمن ملک چائینا کے “ہوہان” شہر میں دسمبر 2019 یہ کورونا وائرس کا قہر شروع ہوجاتا ہے

۔یہاں ایک بات اور بتادیں نومبر 2019 امریکی افواج کی ٹکڑی اپنے روٹین ٹریننگ پروگرام کے تحت چائینا ہوہان شہر آتی ہے ایک زمانے سے کتے بلی سانپ بچھو چمگاڈر سمیت مختلف حشرات الارض کھانے والی چائینیز قوم کو،1981 والے مشہور “اندھیرے کا سچ” ناول اور 2011 والے “متعدی” یا “کونٹینجینٹ”فلم میں درشائے جیسا، چمگاڈر سے یہ کورونا مرض چائینیز لوگوں میں منتقل ہوا جیسے، مغربی الیکٹرونک میڈیا اپنی 24/7 نشریات سے دنیا والوں کو یہ باور کرانے میں،نہ صرف ویسٹرن میڈیا ایک حد تک کامیاب ہوجاتے ہیں، بلکہ کرونا قہر بعد والے “

ہوہان”شہر کے مناظر کو، 2011 کی کامیاب فلم “متعدی” کے مناظر سے موازنہ کرتے، یہود و ہنود و نصاری والے الیکٹرونک میڈیا پر درشاتے، دوہرے مناظر کو دنیا والوں نے دیکھا بھی ہے۔ دراصل کرونا وائرس سے پوری طرح معاشی طور برباد ہوتے عالم کو، چائینا ہی کو، اس حادثاتی بایلوجیکل سقم کورونا تباہ کاری کے لئے بدنام کرنے کی مغرب کی سازش، خود انکے گلے کا پھندا بنی لگتی ہے۔چائینا کے ساتھ ہی ساتھ، امریکہ کے لئے

عسکری طور خطرہ مسلم ایٹمی طاقت پاکستان اور اسکے دوست پڑوسی ملک ایران کو سبق سکھانے، چائینا کے ساتھ ہی ساتھ ایران میں اس کورونا مرض کو پھیلاتے ہوئے، دراصل پورے ایشائی مہاساگر کی بڑھتی آبادی کو کم کرنے اور افغانیوں کے ہاتھوں لٹےپٹے، بڑے،بے آبروہوکر افغانستان سےنکلتے عالمی طاقت امریکہ کو، عالم پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کی ضرورت، کی کڑی کے طور، دیکھا کیا نہیں جانا چاہئیے؟ وہ تو اچھا ہوا اپنی تمدنی ترقی یافتگی کے سبب،1980 میں چھپے امریکی ناول اور 2011 بنی فلم میں “ہوہان” شہر کے برباد ہوتے،

درشائے مناظر ہی کی وجہ سے، ترقی پزیر ملک چائینا پہلے سے کم و بیش اس بایولاجیکل وار فیر کے لئے، ایک حد تک تیار تھا اسی لئے اس نے 15 دسمبر 2019 سے 15جنوری 2020 تک کچھ دنوں تک خاموشی اختیار کرلی۔دراصل چائینا کا ہوہان صنعتی شہر، عالم کے خصوصا یورپ و امریکہ کے پونجی پتیوں کے لئے ڈیوٹی فری انڈسٹریل شہر جیسا ہے جہاں 80 % انڈسٹریس کے مالک یورپ و امریکہ کے پونجی پتی ہیں۔انہوں نے ہوہان میں پھیلنے والے یا امریکہ کے پھیلائے گئے “کویڈ 19″ مرض کو، عام سردی زکام کے طور لیا اور چائینز حکومت کے پلان پر غیر ارداتا”

عمل کرتے ہوئے ، 15 جنوری تا 15 فروی چائینا کی سالانہ عام تعطیل پر،اپنے اپنے ملک میں یورپ وامریکہ میں”کویڈ 19وبا” لے گئے۔ اور یوں عالم کی اگلی سوپر قوت بننے والے ملک چائینا نے “کویڈ 19 وبا عالم میں پھیلانے کا چائینا کو ذمہ دار ٹہرانے والی امریکی سازش کو بڑی ہی ہوشیاری سے امریکہ و یورپئین یونین ہی میں پھیلاتے ہوئے امریکہ کو کرارا جواب دیتے ہوئے، بلاکی تیزی دکھاتے ہوئے اور اپنی ہی رعایا پر ظلم کرتے جیسا دکھاتے ہوئے

، کڑے فیصلوں سے، امراض کورونا سے گھرے “ہوہان” شہر کو کچھ ایسا کورنٹائین جیل میں تبدیل کردیا، اور پہلے سے ایک حد تک تیاربایولاجیکل مدافعتی طبی تیاری کے پیش نظر، غالبا صرف 11 دنوں کے اندر ہوہان میں عالم کا سب سے بڑا کویڈ ہاسپٹل تعمیر کرتے ہوئے، نہ صرف اپنے “ہوہان” شہر کو کورونا بیماری مکت بنانےمیں کامیابی حاصل کی، بلکہ “ہوہان” شہر کے پڑوسی چائینیز شہروں تک اس کورونا وبا کو پہنچنے نہیں دیا، لیکن مغربی پابندیوں کو جھیل رہے ایران ، نہ صرف کورونا کے قہر کو روکنے میں ناکام رہا، وہیں پر دنیا بھر سے ایران سے آئے شیعی مذہبی مسافروں کے ذریعہ سے، یہ کورونا قہر دنیا بھر میں پھیلنے کا موجب بنا۔

دوسروں کےلئے کھودے گئے گڑھے میں،اکثر گڑھا کھودنےوالے ہی گرا کرتے ہیں۔اس مثل مصداق، چائینا کے انڈسٹریل شہر “ہوہانگ” سے صنعتی و تجارتی تعلق رکھنے والے، یوروپئین و امریکن تجار، انجانے میں اس مرض کو بھی معمولی نزلہ زکام سمجھ کر، اسے اپنے ساتھ یورپ و امریکہ کے ترقی پذیر ملکوں میں لے گئے، اور اس غیر متوقع کورونا قہر کی زد میں آگئے۔صاحب امریکہ چونکہ اس سے باخبر تھا اور اس سے بچے رہنے کی امید میں،کل تک اسے معمولی سقم کہنے تک سے باز نہ آتے ہوئے، امریکہ میں کورونا کے آنے کی صورت بھی،

اس سے نپٹنے کے دعوے کرتا تھا۔ لیکن قدرت کی مار سے کوئی کیسے بچ سکتا ہے۔ جبکہ اگر یہ مفروضہ سچ مان لیا جائے تو، انسانیت کے قاتل کو اللہ بھلے ہی وقتی چھوٹ دے لیکن تمدنی ترقی یافتہ انسانی معاشرہ کیسے معاف کرسکتا ہے۔ آج دنیا کا عصری ترقی یافتہ ملک امریکہ کورونا مریضوں کے متاثرین کی تعداد میں، دنیا کا سب سے متاثر ترین ملک بن چکا ہے۔جس رفتار سے امریکی عوام، اس سقم کورونا کے شکار بن رہے ہیں، اللہ نہ کرے مہلوکین کی کثرت تعداد میں بھی، عالمی طاقت امریکہ نمبر ایک پر چلی نہ جائے؟

بے شک جیسا کہ گمان کیا جارہا ہے کہ موجودہ عالمی طاقت امریکہ اور مستقبل کی بننے والی عالمی طاقت کے چین کے بیچ، تمغہ رہبر عالم کی کھینچا تانی کے درمیان، ایک دوسرے کو معاشی طور برباد کرنے لئے، شروع کی گئی یہ بایولاجیکل وار فیر ہی نے، آج عالم کو،اس حشرات الارض (جرثومہ کورونا) کے سامنے بے بس سا کردیا ہے۔

لیکن اس حقیقت سے رو گردانی ناممکن ہے،جب درخت کا معمولی پتہ بھی، اس مالک دو جہاں کے حکم کے بغیر خود سے ہل نہیں سکتا تو قدرت کی رضا کے بغیر، کھلی آنکھوں، نظر نہ آنے والے معمولی جرثومہ کی کیا اوقات؟ کہ وقت کی سرکش طاقتیں، جس نے اپنی انا کی تسکین کے لئے، ابھی دیے دو دیے کے دوران،عراق افغانستان سوریہ لیبیا، کے لاکھوں مسلمانوں کا قتل عامکیا نہیں کیا تھا؟ ہزاروں مسلم نساء کے دامن کو کیا داغدار نہیں کیا گیا تھا؟

لاکھوں مسلم بچوں کو یتیم کر، انسانیت ہی کے نام دو قطرے ہمدردی کے بہاتے ہوئے، لاکھوں سوریائی مسلم بچوں کی پرورش یا کفالت کرنے کا دکھاوا کرتے ہوئے، انہیں مسیحیت کے تابع دار بنانے، گود لینے کا ناٹک کیا نہیں رچا گیا تھا؟ آج اپنی تمام تر جدت پسند ترقیات کےباوجود، ان دیکھے جرثومہ کی تباہ کاریوں کے سامنے، وہ بے بس ہو کر رہ گئے ہیں۔
ابھی حال ہی میں عالم کے سب سے بڑے نوبل انعام یافتہ جرٹوموں کے ماہر وائرولوجسٹ نے اپنی تحقیق سے یہ کیا ثابت نہیں کیا ہے؟ کہ یہ کویڈ 19 جرثومے قدرتی نہیں ہیں بلکہ اس جرثومے کا سر اگرملیریا کا ہے تو دھڑ سارس اور تھائیروئیڈ بیماریوں کے جرثومے کے مختلف حصوں سے مماثلت رکھتا ہے اس لئے غالب گمان ہے کہ کویڈ 19 جرثومے انسانی لیبارٹری میں دیگر کئی اقسام کے جرثوموں کو خلط ملط کر تشکیل دیا گیا ہے۔
قدرت کے بنائے جرثوموں پر ریسرچ کرتے ہوئے، انہیں اور ہلاکت خیز بنانے کی موجودہ سائینسی کوشش، بایولوجیکل وار فیر،قدرت کے کاموں میں انسانی عمل دخل ہی سے ناراض، کیاقدرت نے،ان جدت پسندعصری تعلیم یافتگان کو،ان کی توقعات سے زیادہ کورونا وائرس کے نقصان سے معاشرہ کو دوچار کر، انہیں تنبیہ کرنے کی صورت، پورے عالم کو اس کورونا قہر میں مبتلا کرتے ہوئے، عالم میں یہ کہرام بپا تو نہیں کیا ہے قدرت نے؟ آج سائیندان بھی متفق ہیں اس بات کے لئے کہ یہ کورونا جرثومہ زمانہ قدیم سے جانوروں میں موجود تھا۔کل تک جو جرثومہ متعددی نہ تھا،

آج اچانک کیسےمتعدی ہوگیا؟ جب پرندوں میں پنپنے والے ضرر رساں غیر متعدی برڈ فلو جرثوموں کو متعدی خطرناک بایولاجیکل ہتھیار میں، صاحب امریکہ ڈھال کر، محفوظ مقفل رکھنے کا ڈھونگ رچا سکتا ہے تو، عام جانوروں میں پائے جانے والے سردی زکام کو متحرک کرنے والے غیر متعدی جرثوموں کو، موجودہ تیز تر متعدی شکل میں ڈھالے جانے کا الزام،امریکہ پر کیوں کر غلط ہو سکتا ہے؟سقم کورونا آج بھی ہلاکت خیز نہ ہوتا اگر تیز تر متعدی نہ ہوتا؟

ممبئی کے آئی پلس دعوتی براڈکاسٹنگ چینل کورونا وائرس مندرجہ ذیل لنک والی نشریات میں، برڈ فلو غیر متعدی جرثوموں کو خطرناک متعدی برڈ فلو وائرس میں تبدیل کرتے صاحب امریکہ کے اپنے پاس مقفول محفوظ منجمد رکھے جانے کی خبر https://youtu.be/WGNJ5nCE4p0

بھارت میں یہ جو کویڈ 19 کی دوسری لہر اتنی تیزی سے پھیلنے اور اتنی اموات ہونے کا سب سے اہم مرکزی سبب بھارت پر حکومت کررہی یہ نااہل سنگھی مودی سرکار ہے۔ چونکہ اس کورونا جراثیم میں اپنی ہیئت بدلنے کی صلاحیت موجود ہے اس لئے کورونا مریضوں کو شفا یاب ہونے والی دواؤں کے منفی اثرات سے یہ وائرس اپنی ہئیت بدلتے ہوئے

اور خطرناک اور سم قاتل بن جاتا ہے۔عموما 30% معاشرے کے لوگ 40 سال کی عمر سے اوپر والے ہوتے ہوئے پہلے سے دمہ ، امراض قلب امراض گردہ جیسی انیک اقسام کی بیماریوں کے شکار ہوتے ہیں اور پہلے سے ان کا جسمانی اندرونی نظام ،مختلف دوائیوں کے اثر میں رہتے انکا خود مدافعتی مرض ایمیوں سسٹم کمزور ہوچا ہوتا ہے اور عالمی یہود ہنود مسیحی میڈیا اس سقم کورونا کی ہلاکت خیزی سے عوام کو کافیحد تک ڈراچکی ہوتی ہے

اس لئے ایسے پہلے سے مختلف اقسام کے سقم رکھنے والے کورونا کا شکار جب ہوجاتے ہیں تو ان کے لئے کورونا خطرناک بن جاتا ہے اور ڈر اور خوف کے مارے ایسے مریض کویڈ 19 سے کم خود اپنے مرنے کے ڈر ہی کی وجہ دنیوی اعتبار سے قبل از وقت مرجاتے ہیں۔ کویڈ فیس 2 بھارت میں شدت سے آنے کی سائینس دانوں کی طرف سے پیشگی اطلاع کے باوجود ہمارے 56″ چوڑے سینے والے مہان مودی جی نے ایک طرف بنگال کیرالہ ٹمل ناڈو فتح کرنے کی کوشش میں انتخابی مہمات میں لاکھوں کی بھیڑ جمع کر تو، دوسری طرف ھندو ووٹروں کو خوش کرنے

کمبھ میلوں میں کروڑوں کی تعداد میں بھگتوں کو جمع ہونے کی اجازت دیکر دانستا کویڈ 19 فیس 2 گویا پھیلایا ہے اس سے اوپر ڈاکٹروں کی طرف سے بھارت کے ہاسپٹل میں آکسیجن وکویڈ 19 دوائیوں کی کمی کی انتباہ کرنے کے باوجود اس طرف دھیان نہ دیتے ہوئے لاکھوں کی تعداد میں بھارت واسیوں کے کویڈ 19 مرنے کا سبب سنگھی مودی حکومت ہی ہے۔ اور یہ سنگھی مودی حکومت اپنی کمزوری کو چھپانے کویڈ وبا میں مرنے والوں کی تعداد دس پندرہ فیصد بتاتے ہوئے اپنی ہی جنتا کو دھوکہ دینے کا کام کررہی ہے۔ امریکی میڈیا نے تو ایک مہینے پہلے

بھارت میں کویڈ 19 مرنے والوں کی تعداد 50 لاکھ کے اوپر بتائی تھی لیکن ابھی دینک بھاسکر اخبار کی رہورٹ مطابق حکومت کویڈ 19 اموات 12% سے 15% ہی بتارہی ہے۔ تمثیلا عرض ہے مدھیہ پردیش سرکار کے بتائے انکڑوں کے اعتبار سے کویڈ موت جہاں کم و بیش 4 ہزار بتائی جارہی ہے وہیں صرف مئی مہینے میں 24 سے 27 لاکھ مدھیہ پردیش میں کویڈ موت بتائی جارہی ہے یوپی اور مہاراشترا جہاں اموات زیادہ ہوئی ہیں

تو اس حساب سے پورے ھند میں کویڈ 19 اموات 50 لاکھ یا 60 لاکھ سے بہت زیادہ ہوئی لگتی ہے۔ ایسے میں واقعتاً سنگھی مودی یوگی سرکار کی نااہلی کے سبب کتنے بھارتیوں کو کویڈ کے بہانے مارا گیا ہے کیا یہ اعداد و شمار جاننے حق کیا دیش کی جنتا کو نہیں ہےاللہ ہی سے دعا ہے کہ وہ اس امتحانی گھڑی سے بھی عالم کی انسانیت خصوصا مسلم امہ کو،سرخرو نکال باہر کرے۔ آمین فثم آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں