منقوش-ایک جائزہ
راشد اکرم
میر پور، آزاد کشمیر
۔
نوید۔۔۔خوش خبری۔۔۔بشارت۔۔۔اسم با مسمی۔۔۔نوید ملک سے راقم کی دانست طویل عرصے پر محیط نہیں بلکہ چند برس قبل جب ہم راولپنڈی سے کوٹ ادو کی طرف بذریعہ ریل گاڑی ایک مشاعرے میں شرکت کے عازم سفر ہوئے تو ان سے ملاقات ہوگئی۔۔جو ہنوز دل پر نقش ہے۔ کوٹ ادو مشاعرے میں نوید ملک کو راقم نے بطور شاعر و سامع سنا تو اس پر بہت سے راز وا ہوئے۔ راقم کو اندازہ ہو گیا کہ شاعر موصوف فطری شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے اور ملنسار انسان ہیں اور نوجوان نسل کے نمائندہ شاعر ہیں۔ وہ اپنے بلند تخیل اور منفرد انداز و آواز سے
ادب کی دنیا میں بلند پرواز کریں گے۔منقوش (نقش کیا گیا،کھدا گیا) ایک طویل نظم Epic یا long narrative poem ہے۔راقم کو دوران تبصرہ قلم کی تشنگی کا احساس ہوا ۔بہر حال سوچتا ہوں کہ ایسے بلند تخیل شاعر موصوف کے لئے کچھ نہ کہنا ادب اور ادیب سے زیادتی ہو گی۔قاریین کرام۔۔نوید ملک نے اپنی طویل نظم کی صورت اپنے دل کے نہاں خانوں پر نقش اور روشن دماغ پر ثبت پاکیزہ خیالات اور تعصب سے بالا جذبات بڑی خوبصورتی سے لفظوں کی لڑی میں پرویا ہے، جس پر میں انہیں صمیم قلب سے ہدیہ تبریک و خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔
نظم پڑھتے ہوئے راقم پر ایسا سحر و رقت طاری ہوئی کہ بیٹھے بیٹھے ایک ہی نشست میں بغیر توقف کے مکمل کر دی۔۔ یوں لگتا ہے جیسے تاحال مجھے اپنے حصار میں لئے ہوئے ہے۔طویل نظم ہو یا کوئی مضمون خیالات کو مربوط رکھنا مہارت کا کام ہے۔ نوید ملک کی نظم میں cohesionاور coherence کی کہیں بھی کمی دکھائی نہیں دیتی۔۔ Figurative language مثلا استعارہ،تشبہیہ اور allusions کے استعمال نے نظم کو چار چاند لگا دئیے۔
۔پڑھتے ہوئے کوئی بھی لفظ ذوق سلیم پر گراں نہیں گزرتا۔ علاوہ ازیں ان کے کلام میں ایک خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے بے جان اشیاء کو جاندار اشیاء کی خصوصیات سے نوازا ہے جیسے ”درختوں کی نگاہیں” اور ”حوصلوں کے دل” اور ایسی personification کا انتہائی خوبصورتی اور احتیاط سے استعمال کیا ہے۔
نوید ملک ایک شاعر ہی نہیں بلکہ تاریخ کے سمندر میں غوطہ زن۔۔۔تاریخ کے اوراق پلٹتے ہوئے ہمیں اپنے اجداد و اسلاف کی عظمت و جلالت سے متعارف کرواتے ہیں۔
ان کے کلام میں حکیم الامت حضرت علامہ اقبال،بابا بلھے شاہ اور حضرت شاہ عبدلطیف بھٹائی جیسا رنگ چھلتا نظر آتا ہے۔نسل نو ان کا کلام پڑھ کر اپنے ذہن و قلب کے بند دریچے وا کر سکتی ہے بلکہ عشقِ حقیقی یعنی اللہ اور اس کے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم تک رسائی کے لئے اصل اور پختہ راستے کا انتخاب کر سکتی ہے۔
نوید ملک کی تصنیف منقوش اردو ادب میں ایک خوبصورت اور خوش گوار اضافہ ہے وہ اپنی نظم کے مختلف sections میں اپنے آپ سے الجھنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے۔وہ ذات اور کائنات کے مابین فاصلوں کو مٹا کر حقیقت کے متلاشی ہیں۔وہ معاشرے کی ستم ظریفی اور نا ہمواریوں پر شکوہ و نالہ کرتے دکھائی دیتے ہیں
۔وہ تعصب،برادی ازم،رشوت ستانی،حق تلفی،اقربا پروری کی بھینٹ چڑھ جانے والوں کے حق میں ببانگ دہل آواز بلند کرتے ہیں۔وہ آدم خور مادہ پرستوں کی پر طنز کے نشتر چلاتے نظر آتے ہیں۔وہ یہ جانتے ہوئے کہ ان کے قرب و جوار میں لوگ آستینوں میں بت لئے بیٹھے ہیں اور اُن کی اذانیں سماج کو گمراہ کرر ہی ہیں۔وہ پسے ہوئے طبقات کی آواز بنا خوف و خطر خود غرض حکمرانوں کے ایوانوں تک پہنچاتے نظر آتے ہیں۔
نظم میں proper nouns مثلا مسجد،مندر،چرچ،چراغ،سبز لباس،ماں بچے،فلک،زمیں،اونٹنی صالح،بم پٹاخے،بندوق کلاشنکوف کا استعمال اس بات کی غمازی کرتا ہے
کہ شاعر موصوف اپنے عہد کی تصویر الفاظ میں محفوظ کر کے قلم کا حق ادا کرنا چاہتا ہے جس کی وجہ سے قاری ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔وہ عین شباب میں اپنے اندر کے معصوم بچے کی جائز خواہش کو عملی جامہ پہنانے کی مساعی کرتے نظر آتے ہیں۔ان کے اندر کا innocent child اس دنیا سے خوف زدہ دکھائی دیتا ہے۔۔اس کی بصیرت اسے دکھاتی ہے کہ زندگی یکسر توپ خا نوں میں بدل چکی ہے۔۔امن کی فاختائیں اب دور کہیں
جنگلوں میں نظر نہیں آتیں کیونکہ وہ درندہ صفت، ظالم شکاریوں ہوس اور اندھی گولیوں کا نشانہ بن چکی ہیں۔آزادی و حریت کے گیت گانے والے پرندے صیاد نے قید کر لئے ہیں۔۔نوید ملک فقط خود غرض سیاستدانوں سے ہی گلہ کرتے دکھائی نہیں دیتے بلکہ وہ قلم فروش،لکھاریوں،شاعروں دانشوروں کو بھی آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔نئی تہذیب اور enlightened moderation کی آڑ میں رقص و سرور کی محافل انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتیں
۔۔ان کی خواہش ہے کہ بنجر زمین پر ہل چلے اور ظالم سامراج میں دہقاں،مزدور مجبور کو دو وقت کی روٹی میسر آسکے۔دھرتی کا کسان اور کاشت کار کسی جاگیر دار کے آگے کاسئہ گدائی نہ پھیلائے وہ خود دار بن کر زندگی گزارے۔ طیبہ کی ٹھنڈی ہواؤں، پھولوں کی نازک قباؤں کے ساتھ یمامہ کی فضائیں انھیں اپنی جانب راغب کرتی ہیں اور وہ نسلِ نو کو عیار کوؤں سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں۔
شاعر موصوف ہمیں اپنے دلوں کے تنگ و تاریک اور تعصب کی میل و گرد سے اٹے غار سے باہر نکال کر نور سے معمور اور روشنی سے منور غار حرا لے جاتے ہیں۔عشق حقیقی اور آداب خود آگاہی سے لبریز اس سر زمین مقدس کی جانب رخت سفر باندھتے ہمہ وقت نظر آتے ہیں۔جس کا زرہ ذرہ تاباں اور کسی زیارت گاہ سے کم نہیں۔وہ اپنی ذات کے خول سے باہر نکل کر کائنات کی وسعتوں کا اندازہ کرتے معبود حقیقی کی تخلیقات کا بغور جائزہ لیتے متفکر و متجسس نظر آتے ہیں۔
وہ اپنی ذات کی نفی کرتے ہوئے اپنا محاسبہ کرتے ہیں۔انہیں علم ہے یہاں کے سلسلے ان پر آشکار نہیں ہو سکتے۔وہ اس فانی دنیا سے ماوراء کسی اور دنیا کی بات کرتے ہیں۔جو لافانی ہے، روحانی ہے ان کے زریں خیالات ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ کسی روحانی بابے کے دامن میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ وہ سوز و گداز کی کیفیات سے دو چار ہیں۔وہ شب وصل کے منتظر ہیں۔ان کی آنکھوں کی لالی اور دل کا اضطراب کوئی اہل نظر اور صاحب مشاہدہ ہی محسوس کر سکتا ہے