خطبہ حجۃ الوداع راہنمائے انسانیت 146

قربانی کثیر الجہت عبادت

قربانی کثیر الجہت عبادت

تحریر مولانا زبیراحمد صدیقیؔ
مہتمم جامعہ فاروقیہ شجاع آباد

عیدالاضحی اور اس کے متصل ایام میں قربانی اسلام کا عظیم شعار، حق تعالیٰ کے ساتھ محبت کا بہترین مظہر، سنت ابراہیمیؑ کی اقتدا، جذبہ فناء محبوب حقیقی کا اظہار ،حق تعالیٰ کی نعمتوں کا شکرانہ، توحید قولی و توحید فعلی کا حسین امتزاج ،حصول درجات کا ذریعہ، ایثار و خدمت خلق کا نمونہ اور بندے کے اپنے خالق پر فدا ہوجانے سے عبارت ہے۔ قربانی اخلاص وتقوی کا دوسرا نام اور کثرت حسنات کا ذریعہ ہے، یہ بندگی کے اظہار کے ساتھ تواضع ،

انکساری اور صلہ رحمی جیسی بہترین اوصاف کے ساتھ متصف کر دیتی ہے۔ الغرض اس ایک عبادت میں متعدد اوصاف جمع ہیں، یہی وجہ ہے کہ ابتدا آفرینش سے لے کر بعثت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم تک مختلف شکلوں میں قربانی کی ادائیگی کا سلسلہ جاری وساری رہی، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس سال مدینہ منورہ مقیم رہے اور ہر سال آپ نے قربانی فرمائی، عہد رسالت سے لے کر تاہنوز امت میں مخصوص انداز میں مخصوص اوقات میں یہ عبادت سرانجام دی جارہی ہے، قربانی جیسی عبادت جسے قرآن کریم نے ’’منسک‘‘’’قربان‘‘ اور ’’نحر‘‘ کے الفاظ سے تعبیر کیااپنی مخصوص ہیت کے ساتھ ہی مقصود ہے، شریعت نے اس کا بدل کسی چیز کو قرار نہیں دیا۔
قرآن کریم سے واضح ہے کہ قربانی کی ابتداء سیدنا آدم علیہ السلام کے صاحبزادوں کی قربانیوں سے ہوئی چنانچہ سورۃ مائدہ آیت نمبر۲۷ میں ارشاد خداوندی ہے:
وَاتْلُ عَلَیْْہِمْ نَبَأَ ابْنَیْْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَاناً فَتُقُبِّلَ مِن أَحَدِہِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّکَ قَالَ إِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ(المائدۃ:۲۷)
اور (اے پیغمبر!)ان کے سامنے آدم کے دو بیٹوں کا واقعہ ٹھیک ٹھیک پڑھ کر سناؤ۔جب دونوں نے ایک ایک قربانی پیش کی تھی، اور ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہو گئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی۔اس (دوسرے نے پہلے سے ) کہا کہ ’’میں تجھے قتل کر ڈالوں گا‘‘ پہلے نے کہا کہ اللہ تو ان لوگوں سے (قربانی) قبول کرتا ہے جو متقی ہوں۔
اس آیت سے جہاں قربانی کی تاریخ معلوم ہوئی وہاں یہ بھی معلوم ہوا کہ قربانی کی قبولیت میں تقوی واخلاص اور جذبہ رضاء الہٰی کا دخل ہوتا ہے اس لیے سورۃ حج آیت نمبر۳۷ میں ارشاد فرمایا:
لَن یَنَالَ اللَّہَ لُحُومُہَا وَلَا دِمَاؤُہَا وَلَکِن یَنَالُہُ التَّقْوَی مِنکُمْ کَذَلِکَ سَخَّرَہَا لَکُمْ لِتُکَبِّرُوا اللَّہَ عَلَی مَا ہَدَاکُمْ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِیْنٍَِ(الحج:۳۷)
اللہ کونہ ان کا گوشت پہنچتا ہے نہ ان کا خون، لیکن اس کے پاس تمہارا تقوی پہنچتا ہے اس نے یہ جانور اسی طرح تمہارے تابع بنادیئے ہیں، تاکہ تم اس بات پر اللہ کی تکبیر کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت عطا فرمائی۔ اور جو لوگ خوش اسلوبی سے نیک عمل کرتے ہیں، انہیں خوشخبری سنا دو۔
سورۃ حج آیت نمبر۳۴ میں ہر امت کے لیے قربانی کے فریضہ کو ذکر کرنے کے ساتھ قربانی کی غرض بھی واضح فرمائی:
وَلِکُلِّ أُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنسَکاً لِیَذْکُرُوا اسْمَ اللَّہِ عَلَی مَا رَزَقَہُم مِّن بَہِیْمَۃِ الْأَنْعَامِ فَإِلَہُکُمْ إِلَہٌ وَاحِدٌ فَلَہُ أَسْلِمُوا وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِیْنَ (الحج:۳۴)
اور ہم نے ہر امت کے لیے قربانی اس غرض کے لیے مقرر کی ہے کہ وہ ان مویشیوں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں عطافرمائے ہیں لہٰذا تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے چنانچہ تم اسی کی فرماں برداری کر اور خوشخبری سنادو ان لوگوں کو جن کے اللہ کے آگے جھکے ہوئے ہیں۔
مذکورہ آیت سے معلوم ہوا کہ قربانی حق تعالیٰ کے عطاء کردہ رزق حلال جو جانوروں کی شکل میں ہے پر ذکر خدا وندی کرنے کا ذریعہ اور توحید کا پیغام ہے اس سے تسلیم و رجوع کا درس ملتا ہے اس لیے ارشاد فرمایا اسی کی فرما برداری کرو اور رجوع کرنے جھک جانے والوں کے لیے بشارت کا ذکر ہے۔ واضح ہوا کہ قربانی امر الہٰی پر جھک جانے اور رجوع الی اللہ کا نام ہے۔
امم سابقہ میں قربانی بارگاہ ایزدی میں پیش کی جاتی تھی جسے آسمانی آگ جلاکر راکھ کردیتی اور یہی قبولیت قربانی کی علامت سمجھی جاتی تھی اس امت پر یہ کرم ہوا کہ قربانی کا گوشت کھانے اور استعمال کرنے کی نہ صرف اجازت دی گئی بلکہ سنت نبوی سے ظاہر ہوتا ہے کہ قربانی کا گوشت پاکیزہ اور پسندیدہ گوشت ہے،اسے خود بھی کھایا جائے

اور دوسروں کو بھی کھلایا جائے، امت محمدیہ چونکہ ملت ابراہیمی ہے اس لیے اس امت کو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی وہ قربانی عطاء کی گئی جو جان کی قربانی کے عوض میں عطاء کی گئی تھی یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا:
’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ قربانیاں کیا ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے والد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہیں صحابہ نے دریافت کیا ہمیں اس قربانیوں سے کیا حاصل ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہر بال کے بدلے نیکی نصیب ہو گی صحابہ نے اون والے جانور کے متعلق سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اون کے ہر جز کے بدلے بھی نیکی ملے گی (سنن ابن ماجہ، مسند احمد)
قربانی میں سیدنا ابراہیم اور سیدنا اسماعیل علیہ السلام کے جذبہ فدائیت کی اظہار ہے ایک مسلمان اسی جذبہ کے ساتھ قربانی کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مال کی قربانی کا حکم دیا اگر جان کی قربانی کا حکم ہو تو اس کے لیے بھی حاضر ہوں۔
زندہ کنی عطائے تو

وربکشی فدائے تو
دل شدہ مبتلائے تو

ہرچہ کنی رضائے تو
آپ نے زندگی دی یہ محض آپ کی عطاء ہے اگر آپ جان بھی لے لیں تب بھی آپ پر قربان دل آپ کی محبت میں فدا ہے آپ جو بھی کریں آپ کی رضا میں راضی ہیں۔
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کا گوشت خود بھی استعمال فرمایا اور تقسیم بھی فرمایا اہل علم کے نزدیک قربانی کا گوشت تین حصوں میں تقسیم کرنا مستحب ہے (۱) اپنے لیے(۲) اقارب کے لیے(۳) غرباء کے لیے
معلوم ہوا کہ قربانی صلہ رحمی کے ساتھ غرباء کے کھانے کا بھی بہترین ذریعہ ہے، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کے دنوں میں روزہ رکھنا ناجائز ہے، اور ایام قربانی وایام تشریق اللہ تعالیٰ کی مہمانی کے دن ہیں جن میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو خوب کھلاتے اور پلاتے ہیں گویا قربانی حق تعالیٰ کی رضا کے حصول کے ساتھ مخلوق کی بھی خوشنودی کا ذریعہ ہے ایام قربانی میں کثرت ذکراللہ کی ترغیب دی گئی نیز ۹ ذوالحجہ نماز فجر سے ۱۳ ذوالحجہ نماز عصر تک ہر نماز کے بعد تکبیر تشریق پڑھنے کو ہر مرد وزن پر واجب قرار دیاگیا وہ یہ تکبیر پڑھیں۔
اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہ اَکْبَرُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ۔
اس قولی توحید و ذکر کے ساتھ جانور اللہ کے نام پر قربان کر دینے سے فعلی توحید کا بھی اقرار کرایا گیا، اور یہی اسلام کی تعلیم ہے جس کا اظہار سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا تھا:
قُلْ إِنَّ صَلَاتِی وَنُسُکِی وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِی لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ (الانعام:۱۶۲)
کہہ دوکہ: میری نماز، میری عبادت، میرا جینا، مرنا سب کچھ اللہ کے لیے ہے، جو تمام جہانوں کا پرور دگار ہے۔
لہٰذا اس دن کثیر الجہت عبادت سرانجام دینے کے لیے ان احکام کوبجا لایا جائے(۱) کثرت ذکراللہ(۲) فرض نماز کے بعد تکبیر تشریق(۳) نماز عید کی ادائیگی (۴) جذبہ فنائیت کے ساتھ قربانی(۵) غرباء و اقرباء میں گوشت کی تقسیم (۶) مستحقین کی مالی اعانت (۷) رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک (۸) تواضع انکساری(۹) گناہوں سے اجتناب(۱۰) خاندان کے تمام صاحب نصاب عاقل بالغ مردوزن کی جانب سے قربانی کے اہتمام کے ساتھ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرات صحابہ کرام ؓ ، امہات المؤمنین، اہل بیت اطہارؓ، بزرگان دین، اپنے مرحومین کی جانب سے نفلی قربانی بھی بلندی درجات کا ذبنتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں