سیکیولر و مذہبی جنونی، دو سانڈوں کی فرضی لڑائی میں غریب جنتا برباد
نقاش نائطی
۔ +966504960485
گاؤں دیہات کے لوگ جو کمانے کے لئے شہروں میں آگئے تھے مالک کی مہربانی سے ان میں سے دو چار لوگ خوب پیسے کمالیتے ہیں تو انہیں اپنے گاؤں برادری میں اپنے نام نمود کے لئے یا واقعتا اپنے گاؤں دیہات کی محبت میں، بڑی بڑی جائیداد، زمین کوٹھیاں خریدنے کا شوق ہوتا ہے۔ رہتے تو وہ شہروں میں ہیں لیکن سال دوسال بعد چھٹیوں میں کچھ روز گاؤں دیہات جانے پر، بڑی شان و شوکت و کروفر سے اپنی کوٹھیوں میں رہ کر آتے ہیں۔ ایسی کوٹھیاں اور جائیداد بھارت و پاکستان، بنگلہ دیش کے اکثر گاؤں دیہات میں پائی جاتی ہیں
بھارت کے کچھ دھوکے بازوں اور لینڈ مافیا غنڈوں نے، ایسی زمانے سےخالی پڑی رہی املاک پر، ناجائز قبضہ جمائے کا یہ طریقہ نکالا ہے،کہ کوئی ایک ایسی ملکیت کا فرض مالک تو دوسرا زبردستی کا اس ملکیت پر قبضہ دار بتا اور جتا اس قضیہ کو وکیلوں کی معرفت کورٹ تک لے جاتے ہیں، اور کچھ مہینے سال کیس لڑنے لڑتے، باقاعدہ سیٹنگ کے ساتھ، کورٹ میں اس ملکیت پر قبضہ بتائی پارٹی، مالک بتائی پارٹی کے حق میں، اسکی جائیداد پر ناجائز قبضہ کا اعتراف کرتے ہوئے، اپنی غلطی تسلیم کر، آوٹ سائیٹ دی کورٹ سیٹلمنٹ کے نام سے کچھ دے دلآ سمجھوتہ ظاہر کر، اس سمجھوتے پر کورٹ کی مہر کے ساتھ وہ ملکیت اس فرضی مالک کی قرار دے دی جاتی ہے
اور ویسے فرضی نام نہاد مالکان جاکر ایسی بند پڑی ملکیت پر ناجائز قبضہ جمالیتے ہیں۔ اگر شہر میں اس ملکیت کے اصل مالک کو گر پتہ بھی لگ جائے تو وہ اپنی تجارتی مصروفیات کے پیش نظر ، کورٹ کچہری کے لفڑے میں پڑنے سے گریز کرتا پایا جاتا ہے ایسے میں اس فرضی مالک کا ہی کوئی ایجنٹ، اصل مالک سے مل کر کروڑوں کی جائیداد کوڑیوں کے دام اصل مالک سے اس فرضی مالک کے نام، نقل ملکیت کروادیتے ہیں۔ اور یوں فرضی مالک کسی اور کی کروڑوں کی جائیداد کوڑیوں کے دام اداکرتے ہوئے، اس بیش قیمت جائیداد کا اصل مالک بن جاتے ہیں
آجکل بھارت کی سیاست میں بھی یہی کچھ ہورہا ہے۔ یقینا بعد آزادی ھند، آل انڈیا کانگریس نے، اپنے ساٹھ پینسٹھ سالہ اقتدار ھند دوران، تعلیم صحت اور دیگر سفری سہولیات کے سیکٹر میں بہت سارا ٹیکس پیسہ لگاتے ہوئے، بھارت کو بہت ترقی دلوائی ہے لیکن اپنے آپ کو سیکیولر ظاہر کر فرضی سیکیولرزم کے بہانے دیش کی سب سے بڑی اقلیت ہم 25 سے 30 کروڑ مسلمانوں کے ساتھ خوب استحصال کرتے ہوئے، اس دیش پر 500 سو سال حکومت کرنے والے ہم مسلمانوں کو خوب پچھڑا رکھ چھوڑا ہے۔بعد ایمرجنسی دیش کے اقتدار اعلی پر قابض پہلی غیر کانگریسی جنتا پارٹی حکومت میں، بحیثیت وزیر خارجہ رہےآنجہانی شری اٹل بہاری واجپائی نے،
پاکستان سے اچھے تعلقات استوار کر ہم مسلمانوں میں نام وعزت کمانے کی وجہ سے، شری نرسمہا راؤ والی کانگریس سرکار کی چھتر چھاپہ میں 500 سو سالہ تاریخی بابری مسجد منہدم کئے جانے سے پریشان وغم زدہ، سیکیولزم سے دھوکا کھائی قوم مسلم نے، اب سے 22 سال قبل آزادی وقت کے سیاسی رہنما شری اٹل بہاری واجپائی کو،ھندو کٹرواد لیڈر رہتے ہوئے بھی، پرائم منسٹر بناتے ہوئے، کٹر ھندوادی سیاسی پارٹی بی جے پی کو بھارت پر حکومت کرنے کا موقع کیا دیا! کہ نام نہاد سیکولر کانگرئس کو پچھاڑتی نام نہاد ھندو وادی پارٹی بی جے پی کی مقبولیت بڑھتے بڑھتے، ان دو ہاتھی نما نام نہاد سیکیولر و شدت پسند ھندو مذہبی سانڈوں کے جھگڑے میں،
اس دیش کی سب سے بڑی اقلیت ہم 25 سے 30 کروڑ مسلمان بری طرح متاثر ہوئے، پسے اور مارے جارہے ہیں۔ نہ سوا سو سالہ کانگریس میں وہ اصلی گنگا جمنی مختلف المذہبی سیکیولرزم باقی ہے اور نہ خودساختہ ھندو شدت پسند پارٹی بی جے پی والوں کو ھندو مذہب سے کچھ لینا دینا ہے۔ کانگرئس سیکیولرزم کا نقاب اوڑھے دیش کی سب سے بڑی اقلیت ہم 25 سے 30 کروڑ مسلم آبادی کو سابقہ 65 سال سے اندھیرے میں رکھے انہیں پچھڑا رکھے ہوئے ہے تو وہیں پر نام نہاد ھندو شدت پسند پارٹی، بے جے پی خود اپنے ہی ھندو اکثریتی ووٹوں سے اقتدار حاصل کرنے کے باوجود،انکا سیاسی استحصال کرتے ہوئے، صرف چند سو کروڑ روپیوں کی
خاطر عالمی یہود و نصاری طاقتوں سے مل کر، انکے عالمی ایجنڈہ تخفیف آبادی پر سنجیدگی و خاموشی سے عمل آور ہوتے ہوئے، اس کورونا وبا کہرام کی آڑ میں، آکسیجن یا دوائی نہ ہونے کا بہانہ بنا، لاکھوں کی تعداد میں خود اپنے ہی ھندو بھائیوں کا نرسنگہار کئے جارہی ہے۔جھوٹ افترا پروازی کے بل پر قائم یہ سنگھی مودی یوگی دور حکومت میں سرکاری اعداد و شمار اموات جو کچھ بھی بتائی جاتی ہے اس سے پرے ، عالمی میڈیا دیو واشنگٹن پوسٹ کی مانیں تو بھارت میں کورونا اموات کچھ اس طرح ہے
سرکاری اعداد و شمار مطابق مئی 2021 تک بھارت کی جملہ اموات 4 لاکھ 14 ہزار ہے جبکہ عالم کا نامور میڈیا ھاؤس، واشنگٹن پوسٹ اپنے بھارتیہ نامہ نگار ، جو بھارتیہ حکومت کے سابق ایکنومیکل ایڈوائزر بھی رہ چکے ہیں،شری اروندسبرمانیم کے ذرائع سے لکھتا ہے کہ اس کورونا کال دوران بھارت میں اصلا ہوئی اموات اور سرکاری طور بتائی گئی اموات کا فرق ہی 4۔7 ملین کے آس پاس ہے اس کا مطلب بھارت کی جملہ اموات کم و بیش 5 ملین یعنی 50 لاکھ سے کہیں زیادہ ہیں
جبکہ آزادی ھند کے وقت، اس وقت کے فرنگی انگریز حکومت کے اشاروں پر ناچنے والے اور آزادی بھارت کے ھیروز کی مخبری انگریزوں کو کرتے ہوئے انگریزی من وسلوی پر پلنے والے، ھندو مہا سبھائی، جو بعد آزادی ھند، اپنا نام جن سنگھ سے بدلتے بدلتے اب موجودہ دور کی راشٹریہ سیوم سنگھ یا آرایس ایس کا روپ دھارن کر چکے ہیں،وقت آزادی ھند، اس وقت مسلم لیڈر محمد علی جناح کو اکساتے ہوئے، ان کو آگے کر،بھارت کا بٹوارہ کرنے پر مجبور کرتے ہوئے،
بھارت کو دو لخت تقسیم کرتے ہوتے، ا’دھر سے ھندو ادھر ھند میں تو، ادھر کے کچھ مسلمان ا’دھر ھجرت کر جاتے ہوئے، ھندومسلمان منافرت کی آگ بھڑکا دونوں طرف ھندو مسلمان کا جو منظم قتل عام ہوا تھا اس وقت کی تاریخ ،بٹوارہ ھند دوران دو طرف کی ھندو مسلم اموات کو ایک ملین یعنی دس لاکھ بتاتی ہے جبکہ اس کورونا کال دوران اس وقت بھارت پر حکومت کررہی مودی یوگی سرکار کی دانستہ کہ نادانستہ تساہلی اور آکسیجن ودوائیوں کی سپلائی ناکامی کی وجہ سے اور خصوصا کمبھ میلوں بعد تیزی سے پورے بھارت میں پھیلے کویڈ فیس2 سے 50 لاکھ اموات ہوچکی ہیں اس کا اندازہ بھی کرتے ہیں تو ہم انسانوں کے بدن میں جھرجھری سے دوڑنے لگتی ہے
https://www.washingtonpost.com/world/research-indias-deaths-during-pandemic-10x-official-toll/2021/07/20/7a06f364-e919-11eb-a2ba-3be31d349258_story.html
گویا اوپر بتائے مکلیت تنازع فرضی مالک اور فرضی قبضہ دار دو فرضی پارٹیوں کی ملی بھگت سے ملکیت کا اصل مالک اپنی جائیداد سے بے دخل ہوئے جیسا ہزاروں سال سے اس ملک کے نواسی اور اس دیش پر 500 سالہ اپنے شاہی راج میں بھی،گنگا جمنی بین المذہبی روا داری یا سیکیولرزم کو باقی رکھتے آئے ہم مسلمانوں ہی کو، کبھی سی اے اے تو کبھی این سی آر تو کبھی کثرت اولاد قانون کے بہانے، آپنے حقوق سے ہی، ہم مسلمانوں کو بے دخل کرنے کی تدبیریں و سازشیں رچی جارہی ہیں اور ہم بھارتیہ مسلمان نہ گھر کے نہ گھاٹ کے ہوکر رہ گئے ہیں
مسلمانوں کی پارلیمنٹ میں ہمہ وقت ترجمانی کرنے والے المحترم اسدالدین اویسی کی پارٹی اے آئی ایم آئی ایم جیسی پارٹی کو یوپی جیسے ریاستی انتخاب میں جتوانے کے بجائے،ھندو شدت پسند پارٹی سے ڈرتے ہوئے، ہمیشہ ہمیں وقت وقت پر دھوکہ دیتے آئے سیکیولر ھندو لیڈروں پر ہی ہمیں تکیہ و بھروسہ کرنا پڑتا ہے آخر اس مجبور سیاست سے ہم اپنے آپ کو کب باہر نکال پائیں گے
اس بات کا ھندو شدت پسند پارٹی بی جے پی، مودی یوگی اور موہن بھاگوت کو بھی بخوبی احساس ہے کہ وہ اس دیش میں ہزاروں سال سے رہتے آئے 25 سے 30 کروڑ ہم مسلمانوں کو، روہنگیائی مسلمانوں کی طرح نہ اس دیش بھارت سے نکال باہر کر سکتے ہیں اور نہ ہی سب مسلمانوں کو ختم کیا جاسکتا ہے اور بھلے ہی اس بھارت کا عام مسلمان اپنے اصل ایمانی روح سے ماورا اپنے پڑوسی ھندو بھائیوں کی طرح مندروں مورتیوں کی پوجا پاٹ طرز قبروں مقبروں کی سجدہ ریزی کو ہی دین اصل سمجھ جیتے ہوئے، نام نہاد مسلمان ہی ہوکر رہ گئے ہیں
لیکن ہزاران ھندوؤں کے چاہنے کے باوجود، انہیں دھرم پریورتن کر ھندو بنانا ناممکن عمل ہے۔ اس کے باوجود وہ صرف اپنی مسلم دشمنی درشا اپنی ھندو اکثریت کو بے وقوف بنائے حکومتی من و سلوی لوٹنے ہی میں مگن ہیں۔اب اس چھ ساڑھے چھ سالہ مودی راج کی مہاکال بربادی، بڑھتی مہنگائی، لاکھوں جانوں کے ضیاع کے ساتھ ہی ساتھ ان کے اپنوں کے پارتو شریر کو سادھن نہ مہیا ہونے یا مہیا نہ کروانے کے سبب ،گنگا کنارے رہت تلے دبانے یا راکھ کی جگہ ،اپنوں کے پارتو شریر ہی کو گنگا میں بہانے مجبور کئے جانے پر اور ان کے اپنوں کے پارتو شریر کو گدھ کوئے کتوں کے نوچ کھانے کی تصاویر و ویڈیوز، سائبر میڈیا و عالمی میڈیا پر دیکھ دیکھ کر اس دیش کی ھندو اکثریت ان سنگھی مودی یوگی حکمرانوں کو بخوبی پہچان چکی ہے۔ اپنی ناعاقبت اندیش نوٹ بندی،
جی ایس ٹی معشیتی پالیسیز کی ناکامی باوجود 2019 دوبارہ منتخب ہونے والے مودی جی اگر دیش کے بڑے سادھنوں کارخانوں کو، اپنے برہمن پونجی پتیوں کی جھولی میں ڈالنے کے بجائے اور اس کورونا کال میں، دیش واسیوں کو دوائی اور آکسیجن مہیا کروانے میں ناکام رہتے ہوئے بھی، اپنے نجومیوں کے کہنے پراپنے خواب کی دنیا ویسٹا پی ایم پروجیکٹ پر 20 سے 25 ہزار کروڑ خرچ کرنے کے بجائے اور اپنے پونجی پتیوں کے بنکوں کے ہزاروں کروڑ معاف کروانے کے بجائے انہی پیسوں سے مہنگائی کے دیو کوقابو میں کر دیش کی عوام کو وقتی
سکھ و راحت پہنچائی ہوتی تو 2024 عام انتخاب جیتنے کی امید رکھی جاسکتی تھی ۔ اب تو مودی جی کے لئے 2024 عام انتخاب جیتنے کے لئے پلوامہ خودساختہ دہشت گرد حملہ میں دیش کے 40 ویر سپاہیوں کا یلیدان دئیے جیسا ،2024 عام انتخاب سے قبل ایسے کسی فرضی دہشت گردانہ حملہ کا بہانہ بنا اپنےکئی سو ویرجوانوں کی بلی چڑھانی ہوگی تب کہیں جاکر اپنے ای وی ایم بھوت بابا کی مدد سے 2024 عام انتخاب میں جیت حاصل کی جاسکتی ہے ورنہ 2024 عام انتخاب جیت دلوانا اکیلے ای وی ایم بھوت بابا کے بس کا بھی کام نہیں رہا ہے۔وما علینا الا البلاغ