رنگِ نوا 159

رنگِ نوا

رنگِ نوا

نوید ملک

ایک شاہین کا قتل ضیا الحق اعوان کا تعلق ضلع سدھنوتی کشمیر کے نواحی علاقے دھار دھرچھ سے تھا۔وہ ایک دبلا پتلا، خوب رو نوجوان تھا۔بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا اسی لیے بہت لاڈلا بھی تھا۔سارا گھرانہ اسے بہت چاہتا تھا۔زندگی کے صرف تین عشرے اس کی زندگی کا حصہ بنے۔ وہ پاک فضائیہ کا ایک دلیر اور نڈر نوجوان سپاہی تھا۔تیس جولائی 2021بروز جمعہ وہ چھٹی گزارنے کشمیر کی طرف اڑانیں بھر رہا تھا۔راستے میں اپنی ہمشیرہ کے گھر دن کا کھانا کھایا اور پھر وہاں سے روانہ ہوا۔پانچ بجے تک فیس بک اور سوشل میڈیا پر اس کی لاش کی تصویریں گردش کرنے لگیں۔پورے خاندان پر آسمان ٹوٹ پڑا۔ کہوٹہ سے کچھ کلومیٹر آگے درختوں کی جھنڈ میں کسی سفاک قاتل نے موقع ملتے ہی اسے لقمہء اجل بنا دیا۔تحقیقات جاری ہیں ، کس نے کس وجہ سے ایک بے قصور نوجوان کے لہو سے اپنے ہاتھ رنگین کیے، دو بیٹوں کو کم عمری ہی میں یتیم کر دیا،

بوڑھے والدین کا سہارا چھین لیا، بھائی اور بہنوں کے جذبات کا گلا گھونٹ دیا، اعزاء و اقربا سے ان کی محبت چھین لی، تحقیقات کے بعد ان شاء اللہ ساری باتیں منظرِ عام پر آ جائیں گی مگر اس کے لیے میری درخواست حکومتِ پنجاب سے ہے کہ ماتحت اداروں کے سربراہان کو خصوصی احکامات جاری کیے جائیں اور اُس قاتل کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے جو انسان کہلوانے کے لائق بھی نہیں۔جس کے سینے میں دل نام کی چیز ہو وہ تو کسی پرندے پر بھی پتھر اٹھانے سے پہلے اس کے گھونسلے میں پیدا ہونے والی چہچہاہٹ محسوس کر کے کانپنے لگتا ہے، آخر وہ کون سا درندہ تھا

جس کی بصارت کو انگارے چاٹ گئے اور جس کے سینے میں احساس کا ایک جگنو بھی نہیں جگمگایا۔یہ معاملہ صرف کشمیر کے اس شاہین کے حوالے سے نہیں، ہماریمعاشرے میں ایسے سفاک لوگ پھیلے ہوئے ہیں جن کا کوئی مذہب، کوئی جنس نہیں۔قاتل صرف قاتل ہوتا ہے اور ساری انسانیت کا مجرم ہوتا ہے۔ دوسروں کے گلشن اجاڑنے والے ان لوگوں کے لیے عدالتی نظا م میں معافی کا کوئی خانہ نہیں ہونا چاہے۔اہلِ دانش کو اس بات پر فکر و تدبر کی ضرورت ہے کہ ہمارے معاشرے میں یہ وحشیانہ رویہ کیوں پروان چڑھ رہا ہے۔ کون سا محلہ ایسا نہیں جہاں اذان کی آواز گونجتی نہیں،

کون سا گھرانہ ایسا نہیں ہے جہاں نصیحت کرنے والا موجود نہ ہو، کون سا اسکول ایسا نہیں جہاں محبتیں تقسیم کرنے کا درس نہیں دیا جاتا۔ان درندوں کا تعلق کس جنگل سے ہے، یہ کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں۔کیا کبھی ان کا وجود اپنے والدین، بہنوں اور بھائیوں کے آنسوؤں کی حدت سے نہیں پگھلا، کیا اپنی ماں کی پیشانی پر رینگنے والے دکھ نے کبھی ان کا سینہ چھلنی نہیں کیا۔ضیا الحق شہید ہے مگر ایسے سفاک قاتل جب تک زندہ ہیں والدین، بہنوں، بھائیوں اور اولاد کے چہروں پر پریشانی اگتی رہے گی۔چراغ اک ایک کر کے بجھ رہے ہیں
ہواؤں کا زمانہ آ گیا ہے
ہواؤں کے اس زمانے میں چراغوں کو بچانے کی ذمہ داری ہر فرد کی ہے۔اس لیے ہمارے آس پاس جتنے درندے آوارہ گردی کرتے ہیں ہمارا فرض ہے کہ ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کریں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں