نئی نسل کا نمائندہ سید رفاقت علی گیلانی
سچ /عبدالجبار گجر
لیہ شہر کی نشست پر بہت کم سیاستدانوں کے حصے میں یہ اعزاز آیا ہے جو پہلی بار عوام میں گئے اور عوام نے جیت کا تاج ان کے سر پر رکھ دیا سید رفاقت علی گیلانی ان خوش نصیب سیاستدانوں میں سے ایک ہیں سید رفاقت علی گیلانی خوشاب کے علاقہ مہاڑ کے شہر جبی شریف کے روحانی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں ان کے والد سے میری بہت پرانی شناسائی تھی وہ جب مارکیٹ کمیٹی کے چیئرمین رہے تو میرا اکثر وقت ان کے ہاں گزرتا تھا ان کا وصال در اصل دوستی سے محروم کردینے والا سانحہ تھا سیاست میں جناب سید سعادت علی گیلانی ؒ کے بعد ان کا اگر کوئی جانشین کہلایا تو وہ سید رفاقت گیلانی ہی تھے سید رفاقت گیلانی کی ایک خوبی یہ ہے کہ عوام کا ان کے ہاں تانتا بندھا رہتا ہے اور وہ ہمیشہ اپنے ووٹرز کے ماسائل حل کرتے نظر آتے ہیں 2018کے الیکشن میں ملک ہاشم سہوکا ان سے مقابلہ ہوا لیکن میں انکے سپورٹر ز کو ایک بات باور کراتا ہوں
کہ آنے والا وقت ایک بار پھر سید رفاقت گیلانی کا ہے ہاشم سہو کا اتنے ووٹ لینے کا ایک پس منظر ہے کہ 2013کے الیکشن میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ کے حقدار مہر فضل حسین سمرا تھے کیونکہ ہاشم سہو سے قبل گھوٹکی کے جلسہ میں وہ پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر چکے تھے جاوید ہاشمی نے جس طرح ہاشم سہو کو ٹکٹ لیکر دیا وہ ایک الگ کہانی ہے یوں ہاشم سہو نے ایک پرانے پارلیمنٹرین کو ٹکٹ سے محروم کر دیا یہ ایسا دور تھا جب پی ٹی آئی نوجوانوں کی جماعت بن چکی تھی پی ٹی آئی کے ٹکٹ کی بنا پر نوجوان ہاشم سہو کے ساتھ کھڑے ہو گئے
انہوں نے اپنے طور پر ہاشم سہو کی مہم چلائی 2018کے الیکشن میں جب ہاشم سہو ٹکٹ سے محروم کر دیئے گئے تو پی ٹی آئی کے وہ نوجوان جو ایک طویل عرصہ سے اس کے ساتھ کھڑے تھے وہ ہمدردی کی بنا پر ہاشم سہو کے ساتھ کھڑے رہے اس طرح 2013کے الیکشن میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ کی بنا پر اور 2018میں ٹکٹ سے محرومی کی ہمدردی کی بنا پر ان کو ووٹ ملا جبکہ انہوں نے اپنے ساتھ کھڑے نوجوانوں کو یہ بھی باور کرایا کہ اگر میں جیت گیا تو پی ٹی آئی میں چلا جاؤں گا اس طرح پی ٹی آئی کا نوجوان اس کی الیکشن مہم میں شامل رہا مگر آنے والے الیکشن میں پی ٹی آئی کا نوجوان اس کے ساتھ نہیں ہوگا دوسرا مہر یاسر سمرا کے پاس پیپلز پارٹی کا ٹکٹ تو تھا لیکن ملک رمضان بھلر کا ووٹ ہاشم سہو کو پڑا یوں ہاشم سہو ایک بڑے ووٹ بنک سے محروم ہو جائیں گے
جبکہ اب عوام جمشید دستی جیسے ڈارمے بھی نہیں دیکھنا چاہتے وہ سنجیدہ سیاستدانوں کی طرف دیکھتے ہیں سید رفاقت علی گیلانی کے ساتھ عقیدت مند ووٹرز کے ووٹ بنک کو توڑنا بہت مشکل ہے ووٹرز کا رحجان بھی سید رفاقت علی گیلانی کی طرف جاتا ہے سید رفاقت علی گیلانی کو ایک مشورہ یہ بھی دینا ضروری ہے کہ بیوروکریسی لیہ میں عوام اور ووٹرز کے ساتھ جس طرح پیش آتی ہے اس سے ایک مظلوم فرد انصاف سے محروم نظر آتا ہے قصہ مختصر دیر آید درست آید کے تحت سید رفاقت علی گیلانی عوام الناس کے مسائل حل کرنے میں فعال نظر آتے ہیں اور ترقیاتی کاموں کے حوالے سے بھی ان کے ووٹرز ان سے راضی ہیں تاہم پیر حسنین صاحب ایک روحانی شخصیت ہیں جن کے عقیدت مند وں کی تعداد دیکھ کر ہی انسان حیران رہ جاتا ہے اور پیر رفاقت علی گیلانی انہی کے بھتیجے ہیں