نیلی آگ حقیقت کا آئینہ 174

نیلی آگ حقیقت کا آئینہ

نیلی آگ حقیقت کا آئینہ

تحریر :شہزادافق

افسانوں پرمشتمل کتاب ”نیلی آگ ”ہمارے معاشرے کی عکاسی ہے۔نیلی آگ کے مصنف ندیم افضال صاحب ایک معلم ہیں جنہوں نیکتاب ”نیلی ” لکھتے وقت اخلاقیات کو مدنظر رکھا۔اور ہمارے معاشرے میں ہونے والی ناانصافیوں اور منافقت کو باریک بینی سے جانچا اور ہرافسانہ و اس قدر دلچسپ اور پہلو کو حقیقت رسائی دی پڑھتے معلوم ہوتا ہے۔قاری کتاب نہیں پڑھ رہا بل کہ اپنی سامنے سب کچھ دیکھ رہاہے۔
”نیلی آگ ” کتاب کا ہرافسانہ منفرد اور اپنے اندر ایک کشش رکھتاہے۔قاری کو سوچتے پرمجبور کردیتا ہے۔اسلوب اس قدر سادہ اورآسان ہے کہ عام وخاص اسے آسانی سے پڑھ کرسمجھ سکتاہے۔مگرچند افسانے ایسے بھی ہیں جو قاری کو جھنجوڑ کررکھ دیتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں بیحسی کس قدر عروج پر ہے۔

منافقت بلندیوں کوچھو رہی ہے۔ہمارے گردونواع اس قدر واقعات رونما ہوتے ہیں ہم جان بوجھ ان سے انجان بن جاتے ہیں۔اپنی آنکھیں بند کرلیتے ہیں۔بیحیائی اس مقام پرجاپہنچی ہے کہ بیچارے حیا کومنہ چھپانا پڑتاہے۔اس وقت ہماری حالت یہ ہے کہ انسانیت خود انسانیت کوترس رہی ہے۔ہمارے گرونواع معاشرے میں بدنما واقعات اس قدررونما ہورہے ہیں کہ زمین کا سینہ چاک ہوجائے انسان زمیں میں دھنس جائے۔مساجد کی تعمیر کرتیوقت اربوں خرچ کرکے رب کائنات کو خوش کرنے جستجو میں لگے رہتے ہیں مگر اسی مساجد کی تعمیرمیں مزدور کے گھرکی کیاحالت ہم جان کربھی انجان بن جاتے ہیں۔اور اس مزدور کی حالت سیمنہ پھیرے رکھا۔جنت کیٹھکیدار کس منہ سے رب کائنات کیسامنے جائیں گے۔معاشرہ اس وقت اس قدر گمراہی کی دلدل میں دھنس چکا ہے

کہ اچھائی اور برائی کافرق کرنا ہی بھول بیٹھا ہے۔کہ اولاد نرینہ پیروں کی کرامات سے نہیں رات بل کہ اندھیروں راتوں کے ان اندھیرے کرامات سے پیداہورہے ہیں۔اشرف المخلوقات نے رب کائنات سے ناطہ توڑ کر جہالت کیراستے خود کا گامزن کردیا اور خود کو ناامیدی کے اندھیرے میں دھکیل دیا جہاں اخلاقیات غیرت بھول بیٹھی۔مولوی جیسے عظیم رتبہ پرفائز بیٹھے چند مولویوں کیروپ میں درندوں کے شرمناک واقعات جب عیاں ہوتے ہیں اس دن انسانیت سسک کردم توڑ دیتی ہے۔ہمارے ادردگرد ہزاروں ایسے واقعات رونما ہوتے رہتیہیں اور ہم انہیں نظرانداز کرکے اگلے بدنماواقعات کیمنتظر رہتیہیں۔ایسے واقعات دیمک کی مانند انسانیت کوچاٹ کوکھوکھلا کرچکیہیں۔مگرمجال ہے کہ ہم ان پرتوجہ دیں ہم بھیڑ بکریوں کہ مانند بس چل رہے ہیں۔

یہاں ہرواقعات کاذمہ دار امریکہ کو ٹھہرایاجاتا ہے اور جی بھرکیاسے گالیاں دی جاتی ہیں جلسے جوس میں سرفہرست ہم ہوتے ہیں۔ مگر ساتھ منافقت کی انتہا دیکھیں اپنی اولاد کوامریکہ ویزے دلا کر مبارکباد وصول کرتے ہیں۔ہمارے معاشرے کی جھوٹی شان وشوکت کاحال یہ ہے اپنی انا کی خاطر بیٹی سے ایسے قربانی لی جاتی ہے جیسے خاندان کی شان وشوکت کی خاطر بچانے کی خاطر ان پرفرض واجب ہوں۔ وہ بیٹی بھی کبھی کبھار ایسیدل براشتہ ہو رب کائنات سے شکوہ ضرور کرتی ہوگی کہ ایمیریرب تونیتو قربانی کیلیے انسان کوحکم دیا تھا مگر ہمیں قربان کیا جارہا کاش ان کوجانور اور بیٹی کافرق ہی عطاء کرتا۔اس کتاب ”نیلی آگ ”پرگفتگو کرتے کئی صفحات درکار ہونگے۔یہ کتاب واقعی ایک منفرد اور حقیقت پرمبنی کتاب اور افضال ندیم صاحب کو رب کائنات نے لکھنے کی خوب صلاحیت عطاء کی اورانہوں نے قلم کاحق اداکیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں