اسلامی خلافت نشاط ثانیہ کی راہ، فتح کابل کیا ہموار کریگا؟ 198

جنگ آزادی ہند میں مسلمانوں کا حصہ

جنگ آزادی ہند میں مسلمانوں کا حصہ

نقاش نائطی
+966504960485

ویسے تو ہندستان کا ہر باشندہ اس بات سے واقف یے کہآج سے 74 سال قبل 1947 کو ہندستان آزاد ہوا. لیکن اس ہندستان کو انگریزوں کے چنگل سے آزادی دلوانے میں مسلمانوں نے کتنی قربانی دی یے یہ اس آزاد ہندستان کے بہت کم دیش واسی ان حقائق کے بارے میں جانتے ہیں. دراصل جس کسی کی بھی کوئی چیز کهو جاتی یے یا چھن جاتی یے اسے تلاشنے یا اسے واپس حاصل کرنے کی تڑپ و جدوجہد وہی لوگ صحیح معنوں کیا کرتے ہیں جن کی چیز ان سے چھن لی جاتی یے.

انگریزوں نے 1700 کے اوائل میں مغل شاہان کی اجازت ہی سے تجارت کی غرض سے سر زمین ہند کلکتہ پر اپنے پیر رکھے تھے اور ہند بھر میں مختلف ریاستوں راجوں کہ نواب راجاؤں کے مابین اپنی حکومتوں کے استحکام و حدود اربعہ کے بڑھانے کے چکر میں، آپس میں لڑتے جهگڑتے نوابوں راجوں کی مدد کرتے کرتے، ہند پر حکومت کرنے کے اپنے خواب کو پورا کرنے میں انگریز مگن ریے. 1750 سے 1799 پورے ہندستان میں ہند کی جنوب کی ریاست میسور ہی وە اکیلی ریاست تھی جسکے والی حیدر علی اور ان کے فرزند حضرت سلطان ٹیپو نے ہند پر حکومت کرنے کے، انگریزوں کے خواب کو ملیامیٹ کرنے کے لئے، تین جنگیں انگریزوں کے خلاف لڑی تهیں. اور بالآخر 1799 انگریزوں مرہٹوں اور نظام حیدرآباد کی مشترکہ افواج سے جنگ لڑتے لڑتے اپنی جان آفرین اس ملک پر قربان کی تهیں. 1799 أس وقت حضرت سلطان ٹیپو کی شہادت پر سری رنگا پٹنم میں اس وقت کے انگریز سپہ سالار نے فرط جذبات. خوشی میں کہا تھا کہ “ٹیپو کی شہادت کے بعد ہندستان پر حکومت کرنے سے اب انگریزوں کو کوئی روک نہیں سکتا”آزادی ہند کی لڑائی میں جہاں “حکم چین” کو انکے مذہبی رسومات کے خلاف زندہ دفنایا گیا تھا تو منیر بیگ کو انکے مذہبی رسوم کے خلاف زندہ چتا پر جلایا گیا تھا۔

1957 ہندستان کے پہلے صدرجمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرساد نے موتی ہاری میں وہاں کی جنتا کے سامنے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا. کہ آئے موتی ہاری کے لوگو آج ہمارے بیج ایک ایسا انسان موجود یے جس نے اپنے بیوی بچوں کی جان کی پرواہ کئے بنا گاندھی جی کی جان بچائی یے. اس مہان انسان کا نام بٹک میاں انصاری یے. بٹک میاں انصاری کو یہ کام سونپا گیا تھا کہ وە چمپارن ستہ گرہ کے دوران گاندھی جی کو دو وقت کے کھانے کا انتظام کرکے اپنی ذاتی نگہہ داشت میں وقت پر گاندھی جی کو کهانا کهلائیں. انگریزوں نے اس موقع سے فائیدہ اٹھاتے ہوئے گاندھی جی کو کهانے میں زہر دے کر مارنے کی سازش رچی تهی. اس کے لئے انہوں نے اپنے چمپارن کے کاروباری ایجنٹوں کی معرفت بٹک میاں کے خاندان والوں کا اجتماعی اپہرن یعنے اغواکر بٹک میاں کو گاندھی جی کے کهانے میں زہر ملاکر دینے پر مجبور کیا .جب بٹک میاں انگریزوں کے آلہ کار بن گاندھی جی کے کهانے میں زہر ملانے پر آمادہ نہ ہوئے تو انکے لاڈلے بیٹے کو قتل کرکے، اس کی لاش بٹک میاں تک پہنچاکر، گاندھی جی کے کهانے مین زہر ملانے پر انہیں مجبور کیا تها

اور مجبوری میں بٹک میاں نے گاندھی جی کے کهانے میں زہر ملاکر پلیٹ گاندھی جی کے سامنے رکھ بهی دی تهی. جب گاندھی جی نے اس زہر بھرے کھانے سے ایک لقمہ اٹھا کر کهانا چاہا تو بھارت و مہاتما گاندھی کی وفاداری کے تئین اپنے خاندان والوں کی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے، دوڑ کر گاندھی جی کے ہاتھ سے وہ زہر بھرا لقمہ چهین لیا اور زہر بهرے کهانے کو کهانے سے گاندهی جی کو منع کردیا . گاندھی جی کے پوچھنے پر بتادیا کہ لاڈلے بیٹے کی لاش دیکهنے اور دیگر گھر والوں کو بچانے کے لئے انہوں نے کھانے میں زہر تو ملادیا تها لیکن اب اپنی آل کے لئے گاندھی جی کو قربان نہیں کرسکتے

. 1950 میں ڈاکٹر راجندر پرساد نے اپنی تقریر میں کہا کہ اپنی اولاد اپنے گھر والوں کو قربان کرکے گاندھی جی کی جان بچانے والے بٹک میاں انصاری کو موتی ہاری کے لوگوں کے سامنے بٹک میاں انصاری کی خدمات کے سلے میں بحیثیت صدر ہند بٹک میاں انصاری کو 50 ایکڑ سرکاری زمیں تحفے میں دیتے ہیں . یہ اور بات یے کہ صدر ہند کے عوامی سطح اعلان کے باوجود وە 50 ایکڑ زمیں بٹک میاں کے جیتے جی بٹک میاں کو مل نہ پائی، 1957 صدر جمہوریہ ہند کے اعلان کے سات لمبے سالوں کے بعد، بٹک میاں کے مرنے کے بعد انکے نام زمین ایلاٹ ہوپائی. یہ بھی اب کسی دیش واسی کے آر ٹی آئی قانون کے تحت بٹک میاں کو کب زمین ایلاٹ ہوئی پوچھنے پر بات سامنے آئی
ہم ہندستانیوں کی اکٹریت جلیان والا باغ پر جنرل ڈائر کے حکم سے نہتے ہندستانی مرد عورت بچوں پر گولیاں چلاکر 379 معصوم ہندستانیوں کو شہید کرنے والے اندہوکناک واقعے کے بارے میں کم و بیش جانتے ہیں. لیکن اس سے بھی اندہوکناک اور دل دہلا دینے والے ایسے کئی واقعات کے بارےمیں ہم نہیں جانتے.

ویسے بھی جیسا ہمیں بتایا گیا یے ہم یہی جانتے ہیں کہ شمالی ہندستان افغانستان کے راستے ہندستان پر حملہ آور ہونے والے مسلم بادشاہوں نے بھارت میں زبردستی تلوار کی نوک سے اسلام پھیلایا تھا یا اور ان کے ساتھ آئےبزرگ، اللە والوں نے اپنی کرامات سے دین اسلام کی ترویج کی تھی،جب کے حقیقت اسکے بالکل برعکس یے. بعثت خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ وعلیہ وسلم سے پہلے سے عرب تجار کے ہند واسیوں کے تجارتی ربط تھے. عرب تجارعربی النسل گهوڑے کھجور اور گیہوں اپنی بادبان کشتیوں میں ہند لاتے تھے اور اسے یہاں کے راجوں مہاراجاوں کو بیچ کر یہاں سے گرم مسالحہ املی سوکهے لیمون چاول کپڑے لے جاتے تھے. بحر ہند کے ساحل پر کرناٹک میں بهٹکل ہوناور، مہاراشٹرا میں کونکن کے علاقے،

ٹملناڈ ناڈو کے کلیکیرے علاقے تو کیرالہ کے انیک حصوں میں ہزاروں سال سے عربوں کے تجارتی تعلقات کے ثبوت ملتے ہیں. بعثت رسول صلی اللە و علیە وسلم، دین اسلام کی ہوائیں بھی ظہور اسلام کے شروع دنوں ہند کے ان علاقوں میں آنے کے ثبوت تاریخ کے اوراق میں ڈهونڈ نے سے ملتے ہیں. ہندستان میں پہلی تعمیر مسجد کیرالہ میں تو دوسری یا تیسری کرناٹک کے بهٹکل میں تعمیر کئے جانے کے بارے میں تاریخ سے پتا چلتا یے. لیکن یہ بہت کم بھارت واسیوں کو پتہ ہے کہ خلیج عرب کے ساحل گجرات کھمباٹ کے قدیم بندرگاہ گاؤں گھوگھا میں واقع 15×40 مربع فیٹ کی قدیم مسجد ڈھانچہ پرانی یا جونا مسجد یا بروڈا مسجد کے نام سے معروف اس اعتبار سے بھارت کی پہلی مسجد قرار دی جاسکتی ہے

کہ شروع اسلام کے 13 سالہ مکی زندگی میں قبلہ اول بیت المقدس فلسطین کی طرف رخ کرکے نماز پڑھا کرتے تھے مکہ سے مدینہ ھجرت بعد 17 مہینے تک آپﷺ نے قبلہ اول کی طرف رخ کر نماز پڑھائی تھی 623عیسوی میں مدینہ کے باہر کسی مسجد میں بیت المقدس کی طرف رخ کرتے نماز پڑھتے ہوئے جبریل آمین کے وحی کے ذریعہ حکم الہی آنے سے آپ ﷺ نے دوران نماز ہی بیت المقدس کی طرف رخ کر نماز پڑھتے پڑھتے 20 ڈگری جنوب فلسطین کی طرف مڑتے ہوئے مکہ کعبہ اللہ شریف کی طرف رخ کر نماز مکمل کرلی تھی اسی لئے مدینہ شہر سے باہر والی وہ مسجد، مسجد قبلتین کے نام سے آج بھی مشہور ہے۔ گجرات گھوگھا والی پرانی یا جونا مسجد یا بروڈا مسجد عرب تاجروں نے تعمیر کی تھی

اور ان ایام چونکہ وہ عرب تجار اسلام کے ابتدائی مکی زندگی کے، نماز بیت المقدس کی طرف رخ کئے نماز پڑھتے دیکھتے آئے تھے اس لئے گجرات گھوگھا جونا مسجد تعمیر کرتے وقت انہوں نے، اس مسجد کا قبلہ رخ بیت المقدس فلسطین کی طرف کر مسجد تعمیر کی ہوئی تھی۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ یہ گجرات ساحل سمندر گھوگھا گاؤں تعمیر جونا مسجد دین اسلام کے ابتدائی مکی زندگی میں بھارت میں بنائی گئی تھی جب کیرالہ چیرامن جامع مسجد 629 کافی بعد بنائی گئی ہے اس لئے بھارت کی پہلی مسجد کیرالہ کی نہیں گجرات کی جونا مسجد سب سے پرانی بھارت کی مسجد ہے

کرناٹک بهٹکل میں ان دنوں عرب تجار کے یہیں نو مسلم جین عورتوں کے ساتھ شادیاں رچابس جانے سے جو قبیلہ آباد ہوا تها اسے اہل نائط یا نائطے یا نوائط کہتے ہیں تو کیرالہ میں ان عرب تاجروں کے مقامی عورتوں سے شادی بیاہ سے بسی آل کو ماپڑلے کہتے ہیں. آزادی ہند سے کافی پہلے مہاتما گاندھی کے انگریزوں کے خلاف شروع کئے گئے عدم تعاون نان کواپریشن مومنٹ کو کیرالہ کے ان ماپڑلوں نے شدت کے ساتھ اپنایا تھا جس کی پاداش میں ماپڑلے قوم جس طرح انگریزوں کی بربریت کی شکار ہوئی اس کے بارے میں آزاد ہندستان کے بہت کم ہم جیسے شہری جانتے ہیں.

اور نہ ہی ہمارے مسلم بزرگان نے آنے والی نسلوں کو اپنے جد امجد کے ہندستان کی آزادی کے لئے دی ہونی قربانیوں کو ہم تک پہنچانے کا انتظام کیا تھا. وە تو کرم ہوا بعد آزادی ہند سیکیولر ذہن ہندو برادران وطن ، انصاف کے تقاضوں کے تحت من و عن واقعات کو قلم بند کر کتابیں تحریر کیں جو فی زمانہ بھی آکسفورڈ یونیورسٹی میں پڑھائی جاتی ہیں. ان میں سے ایک بپن چندرا اپنی کتاب ماپڑلے ریولیوشن 17 چاپٹر میں لکھتے ہیں کہ1921 انگریزوں کے ریکارڈ کے مطابق 2337 ماپڑلے کرانتی کاریوں کو گاندھی جے کے عدم تعاون تحریک میں شدت سے ساتھ دینے کی پاداش میں، بہ یک وقت پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا جبکہ ماپڑلا لیڈر حاجی کنی محمد کے بیان مطابق غیر سرکاری اعداد و شمار کے حساب سے 45،404 ماپڑلے مسلمان شہید کئے گئے تھے . جلیان والا باغ میں شہید ہوئے 58 شہید مسلمانوں کے بشمول 379 شہدا کی یاد میں تو آزاد ہندستان میں ایک دن تقریبات منائی جاتی ہیں لیکن گاندھی جی کے عدم تعاون تحریک کی پرزور حمایت کے نتیجے میں بہ یک وقت شہید کئے گئے 45،404 ماپڑلے مسلمانوں کا تذکرہ تک آزاد ہند میں نہیں لیا جاتا

۔ بلاری ٹرین ٹریجڈی

127 کرانتی مسلمان قیدیوں کو تهیرور سے بلاری منتقل کرتے ہوئے ایک چهوٹی سی بنا کهڑکی والی ویگن میں ٹھونس کر منتقل کرتے وقت کوئیمتور ریلوے اسٹیشن پر پہنچتے پہنچتے 70 مسلم کرانتی کاری قیدی دم توڑ چکے تھے. انگریز سرکار کی طرف ہی سے کئے گئے پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ان ستر قیدیوں کے مرنے کی وجہ انٹولریبل سفوکیشن ہوا کے کم دباو سے دم گهٹنے سے 70 کرانتی کاریوں کی اجتماعی موت ہوئی تھی جس کے بارے میں آزاد ہندستان کے کسی بھی شہری کو علم تک نہیں یے.اس لئے کے مرنے والے سب کے مسلمان تهے

انگریزوں کے خلاف چندرشیکھر آزاد اور رام پرساد بسمل کا ساتھ دینے کے جرم میں اشفاق اللە خان کاکوری کو گرفتار کر انڈومان نیکوبار جزیرے میں کالا پانی جیل بھیجنے سے قبل یوپی میں جب ان کے اعزہ ملنے گئے تو روتے بلکتے اپنے رشتہ داروں کو آشفاق اللە خان نے یہ کہہ کر چپ کرانے کی کوشش کی تھی. کہ آئے میرے عزیزو اپنے آنسوؤں کو روک لو .کیا تم نہیں چاہتے یا تمہیں اس بات کی خوشی نہیں ہوگی، کہ آج سے چند سال بعد جب بھی آزادی ہند کا دن منایا جائیگا تو رام پرساد بسمل،کنهیا لال خودی رام بوس اور چندرشیکھر آزاد کے ساتھ تمہارے بھائی اشفاق اللە خان کا بھی نام لیا جائے گا. کالے پانی جیل انڈومان نیکوبار میں جب آشفاق اللە خان کو پھانسی کی سزا دی جانے لگی تو پھانسی سے قبل انگریزوں نے اشفاق اللە خان سے ان کی آخری خواہش پوچھی تو انہوں نے اپنے کہے آخری شعر کے ذریعے اپنی آخری خواہش کا یوں اظہار کیا تها

۔ کچھ اور نہیں بس آرزو یہ یے
رکھ دو ذرا سی خاک وطن کفن میں

انگریزوں کے پوچھنے پر کہ یہ خاک وطن کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ اپنے گھر چهٹی لکھ کر اپنی جنم بھومی شاہ جہان پور کی تهوڑی سی مٹی منگوائی ہے اسے میرے کفن میں ڈال کر مجهے دفنایا جائے، یہ ہوتی یے مادر وطن سے محبت کی مثال،انڈومان نیکوبار پردیس میں بعد پھانسی دفناتے ہوئے خط کے ذریعہ منگوائی مادر وطن کی مٹی کفن میں رکھوانے کی آخری خواہش کا اظہار ہوتا یے کہ پردیس کی مٹی میں مادر وطن کی مٹی ملا کر وطن کی مٹی کی خوشبو کو ساتھ لئے ابدی نیند قبر میں سویا جائے. دیش بھگتی کی ایسی تمثیل، ماقبل آزادی ہند انگریزوں کے تلوے چاٹنے والے اور کرانتی کاریوں کی مخبری انگریزوں سے کرنے و الے، اس وقت کے مہاسبهائی اور فی زمانہ آر ایس ایس والے ان نام نہاد دیش بهگتوں کو کیا پتہ؟

ڈانڈی مارچ کے دوران جب گاندھی جی سے پوچھا گیا کہ مارچ کے اختتام سے پہلے اگر انگریز انہیں گرفتار کرتے ہیں تو آپ کی جگہ کون لیگا؟ گاندهی جی نے کہا میر عباس طیب جی .تاریخ میں گاندھی جی کے اس وقت کہے جملے محفوظ ہیں. آئے عباس اگر میں جیل چلا جاؤں تو تمہاری مٹھی سے یہ نمک نہ پهسلے .

آج تنگ نظر شدت پسند ہندو تاریخ دانوں کی ترتیب کردہ تاریخ ہند میں، بھلے ہی انگریزوں کے وفاداروں اور نمک خواروں کو دیش بھگتی کے روپ میں ہم پائیں، لیکن ہندستان کی صحیح تاریخ رقمطراز کرنے والے سیکیولر ہندو بهائیوں کی لکهی کتابوں سے مسلم کرانتی کاروں کے نام کھرچ نکالنا ان نام نہاد دیش بهگتوں اور گو بگهتوں کے بس کا کام نہیں.

قصہ کهوانی بازار نمک اندولن کو روکنے جب انگریز کچھ سپاہیوں کے ساتھ پہنچے تو ہزاروں کی تعداد میں پٹھان سڑکوں پر نکل آئے. اتنی بڑی تعداد کو دیکھ کر انگریز بھاگ کهڑے ہوئے، اور گڑوالی رجمنٹ کو لیکر جب واپس آگئے.تو ہزاروں پٹهانوں کو ویسے ہی سر راە کهڑا پایا. انگریزوں کے حکم پر گڑوالی رجمنٹ نے پٹهانو پر اپنی بندوقیں تان لیں. اور گولیاں برسانی چاہیں تو دیکها، سب سے سامنے والی لائن میں پٹھان بچے کهڑے ہیں اور ان کے بیچ ان کا لیڈر خان عبدالغفار خان کهڑا یے. انگریز کمانڈر نے افغانوں سے پوچھا ہتهیار تو پٹهانوں کے زیور ہوتے ہیں .

آپ کے زیور ہتهیار کہاں ہیں؟ تو خان عبدالغفار خان نے کہا. ہم نے گاندھی جی سے کئے اپنے وعدے کے چلتے اپنے زیور پھینک دئیے ہیں. انگریز کمانڈر کے گولیاں برسانے کے حکم مطابق گولیاں چلانے سے انکار کرتے ہوئے گڑوالی رجمنٹ نے کہا ہمارے دیش ہندستان میں ہم ایک اور جلیان والا باغ نہیں دیکهنا چاہتے. اس لئے ہم اپنے ہی بهائیوں پر گولی چلانے سے انکار کرتے ہیں یہ کہہ کر بندوقیں پھینک دیں. انگریزوں نے بندوقیں اٹھاکر اندھادھند گولیاں چلائیں. قصہ خوانی بازار میں چند لمحوں میں 207 پٹهانوں کی تڑپتی لاشوں کی حقیقت سے آزاد ہندستان کے آزاد باشندوں کو باخبر کرنے کی ضرورت محسوس نہیں گئی

اس لئے کہ قصہ خوانی بازار میں گاندھی جی سے کئے وعدہ مطابق آہنسا کے راستے پر بغیر ہتهیار دهرنےپر کهڑے انگریزوں کی گولیوں سے مرنے والے سب کے سب مسلمان تھے. بعد آزادی ہند حکومت ہند نے افغانستانی نزاد خان عبدالغفار خان کو دیش کا سب سے بڑا اعزاز مرن پران بھارت رتن سے نوازا تھا. خان عبدالغفار خان جنہیں فرنٹیئر گاندھی کے بھی خطاب سے نوازا گیا تھا . انہیں بھارت رتن ایوارڈ دیتے وقت جو سند لکھی گئی تھی وہ تاریخ ہند کا ایک حصہ یے.”قصہ کھوانی بازار کے دن اپنی بہادری دلیری اور گاندھی جی سے کئے نون وائیلنس کے اپنے وعدے مطابق انگریزوں کے تشدد ہنسا کےباوجود اپنے ہتهیاروں کو پھینکنے کی جرات دکھانے کے لئے اور اپنی طویل 90 سال زندگی کے 45 لمبے سال ازادی ہند کی مانگ جاری رکهتے ہوئے، انگریزوں کی مختلف جیلوں میں کاٹنے کے لئے، سیما انت گاندھی یا فرنٹیئر گاندھی خان عبدالغفار خان کو بھارت کا سب سے بڑا پرسکار تمغہ دیا جاتا ہے.

ممبئی سے شائع ہونے والے مشہور انگریزی اخبار ڈی این اے DNA اور دی ہندو انگریزی اخبار 13 اپریل 2015 طبع مضمون کے مطابق 1965 پاکستان ہند جنگ کے دوران اس وقت کے ہندستان کے صدر لال بہادر شاشتری نے ہندستان کی مالی خستہ حالی کے چلتے نیشنل ڈیفنس فنڈ میں دل کهول کر چندا دینے کی اپیل إخبار و ریڈیو پر پر کی تهیں. اس وقت حیدر آباد ریاست کے نظام میر عثمان علی جو اپنی کنجوسی کے لئے بهی مشہور تهے سردیوں میں اوڑھنے کے لئے 5 روپئے میں کمبل لانے نوکروں کو بهیجتے تهے اور انکے شایان شان کمبل 5 روپئے میں نہیں ملنے کی بات معلوم ہونے پر ،سالوں اسی پرانے کمبل سے کام چلایا کرتے تهے . ریڈیو پر پاکستان کے خلاف لڑنے، ہندستانی افواج کو مدد کی درخواست کے بارے میں سنتے ہی فون کرکے

صدر ہند لال بہادر شاشتری سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں اور صدر ہند لال بہادر شاشتری کے ان سے ملنے حیدر آباد آنے پر دیش کی افواج کے لئے 5000 کلو سونا دان مین دیتے ہیں. جس کی تصاویر 13 اپریل 2015 کے دی ہندو اخبار میں صدر ہند کو سونا دان دیتے بیگم پورٹ ایرپورٹ والی تصویر چھپی ہے.صدر ہند لال بیادر شاشتری نے اپنی کتاب میں اس واقعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں . ایک سال بعد میں نے میر عثمان علی کو فون کرکے خیریت پوچهنی چاہی تو میر عثمان علی نے کہا میں نے تو ہندستانی افواج کو سونا عطیہ دیا تھا . سونا بهر کر دئیے بکسے یا ڈبے عطیہ نہیں کئے تھے وە میرے باپ دادا کی ملکیت ہیں انہیں کب لوٹا ریے ہو.اس پر میں نے (لال بہادر شاشتری) نے کہا بھارت سرکار کی طرف سے ان صندوقوں میں ایک خط لکھ کر رکهوایا ہے جس میں لکھا ہے عثمان کہ تم ایسے سونے جیسے ہو کہ تمہارے خالی بکسوں میں کیا رکهکر بھیجا جائے یہ بھارت سرکار کی سمجھ سے بهی بالاتر یے

یہاں اس بات کا تذکرہ نہ کرنا انصاف کےتقاضے کے خلاف بات ہوگی،کہ اپنی ذات کے لئے ہر سال ایک نیا کمبل خریدنے میں بخل سے کام لینے والا شخص، والی حیدر آباد خود اپنے بھائی پاکستانیوں کے خلاف لڑنے والی ہندستانی افواج کو، بنا مانگے اپنے باپ دادا کے جمع پونجی میں سے 5000 کلو سونا دان میں دیتا یے. ایک ایسا شاندار دان،اور عظیم. الشان عطیہ، آزادی ہند کی تاریخ میں آج تک ، ہند کو آزاد ہوئے ان ستر سال بعد بھی اتنی عظیم الشان دان دینے کی توفیق ہند کی موجودہ، سواسو کروڑ جنتا میں سے کسی کو نہیں ہوئی. بدلے میں والی حیدرآباد نظام کو کیا ملا؟ حکومت ہند کی اسی افواج نے جسے کو نظام حیدرآباد کے عطیہ کردہ 5000 کلو سونے سے طاقت و ساہس ملی تھی اسی افواج ہندستان نے جہاں ریاست میسور کے راجہ وڈئیر،گوالیار کے راجہ سندھیا پریوار سمیت کئی ایک راجاوں کو برائے نام ہی صحیح اپنے راج پاٹ کو جاری و ساری رکھنے کی چهوٹ دیتے ہوئے، صرف حیدر آباد نظام پر چڑھائی کر انکی مملکت کو زبردستی ہند میں ضم کرتے ہوئے محسن ہندستانی افواج میر عثمان علی کے فرزندان کو ودیش بهاگنے پر مجبور کیا. والی حیدر آباد میر عثمان علی نے آزادی ہند کے بعد سے اب تک ان ستر سالوں میں ریکارڈ توڑ عطیہ افواج ہندستان کو دیا تھا اس سے کہیں زیادە بھارت دیش کو لوٹنے والے اس بهارت دیش کی در پردہ زمام حکومت سنبھالے ہوئے ہیں

یہ تو آزادی ہند میں مسلمانوں کی قربانیوں کی چند مثالیں ہیں. ایسی یا اس بهی زیادە سنگین و دل دہلانے والی ہزاروں داستانیں تاریخ کے اوراق میں دبی سسک رہی ہیں جن پر ہی آزادی ہند کی یہ شاندار عمارت کهڑی یے. اس پر بهی آج آزادی ہند کے ستر سال بھی مسلمانوں کی قربانیوں، شہادتوں سے، آزادی حاصل کئے ہند میں، انگریزوں کے ٹکڑوں پر پلنے والے یہ نام نہاد دیش بھگت، ہندو شدت پسند، ہم مسلمانوں ہی کو دیش دشمن ٹہراتے نہیں تھکتے مسلم دانشوران، قلم کار احباب سے یہ توقع کی جاتی یے کہ مستقبل قریب میں جنگ آزادی ہند میں مسلمانوں کے کردار پر برادران وطن کی لکھی کتب کو کنگهال کر، جامع تاریخ لکھی جائے تاکہ آئیندہ آنے والی ہماری نسلیں جنگ آزادی ہند میں ہمارے آباء واجداد کی قربانیوں کو پاسکیں. بگهوان اللہ ایشور سے یہ پرارتھنا دعا ہے کہ وە ان نام نہاد دیش بهگتوں کو صحیح معنوں سدھ بدهی یا عقل سلیم عطا کرے اور دیش واسیون کو غدار وطن و دیش بهگتوں میں تفاوت پہچاننے کی توفیق دے .وما علینا الاالبلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں