اشور کا دن گر نہ ہوتا
تاریخ انسانی ہزارہا صدیوں پرانی ہے ہر دور نے زندگی گزارنے کے ل? مختلف اقدار کو متعارف کرایالیکن ان تمام ادوارمیں حقانیت کی تعلیم مسلسل جاری رہی جو کہ اس کے بر گزیدہ بندوں نے سر انجام دی۔ وہ بر گزیدہ بندے رب کے بھیجے گ? خاص نبی، پیعمبر اور رسول ہیں جنکی تعداد ایک لا کھ چوبیس ہزار بتائی گء ہے۔ اس سلسلہ نبوت کی آخری کڑ ی سرکارِ دو عالم ختم المرتبت سید المر سلین آقا حضر ت محمد مصطفی ﷺ ہیں آپ ﷺ کے دنیا سے جا نے کے بعد ضرور ت اس بات کی تھی کہ رب کی حقانیت کا بول بالا تا ابد یو نہی قائم رہے اور رب کی طرف سے دی گء تعلیمات کے مطابق ہی لوگ اپنی زند گیاں بسر کر تے رہئیں۔ جہالت کی تاریکیوں میں ہر نبی کی قوم کی طرح ڈوب کر عزابِ الہی کی مرتکب نہ ہو جائیں۔
حلال و حرام کی تمیز قائم رہے اور اپنی وجہِ تخلیق کو سمجھیں کہ رب نے ان کو اشرف المخلو قات بنایا ہے۔ نہ کہ جانوروں کے ریوڑ کی طرح دنیا میں آئیں کھا پی کر دنیا دیکھ کر اور اس کی پستی میں ڈوب کر ہی بس مر جائیں۔ ان تمام امور کے ل? صرف قرآنی تعلیمات ہی کافی نہ تھیں تبھی اللہ پاک نے اہل بیتِ اطہارؑ کا وجود ساتھ خلق فرمایا تاکہ میر ے بندے اپنا حقِ بندگی میرے بتا? گ? اصول وضوابط میں رہ کر ادا کر سکیں اور اشرف المخلو قات کہلا? جانے کے لائق بن سکیں۔ آدمیت کے وجود نے ازل سے ہی حق وباطل کا وجود جنم دے دیا تھا۔جس نے نیکی اور بدی کی راہ مقرر کر دی۔بعد سرورِ کائنات ﷺ جہاں دین ِ نبوی میں بے حساب نبدیلیاں لائی گء وہاں اہلِ بیعت اطہارؑ کے اوپر بے شمار مظالم بھی ڈھا? گ? ان کی عزت و تکریم بھی بھلا دی گء جن کی مودت کے بغیر دینِ اسلام پراعتقاد رکھنے والے کا ایمان کبھی مکمل نہیں ہوتا۔ اور اس کا نتیجہ 61 سنہ ہجری کو واضع طور پر سامنے آگیا۔ جب یزید ابن ِ معاویہ برسرِ اقتدار آیا اس نے سوالِ بیعت سردار ِ جنت آقا و وارثِ دین محمدﷺ سے کیا۔ جن کے ل? آقا? دو جہاں نے کبھی خود کو سواری بنا دیا تو کبھی انکے پشت پہ آ جانے سے اپنے سجدوں کو طول دے دی۔ اور بارہا فرمایا۔
الحسینُ منی و َ انا من الحسین۔
اُن کے انکار پر انھیں اپنے تمام اہل و عیال سمیت جلا وطن کر دیا گیا 28 رجب کو آقا ? دو جہاں کے پھو ل و کلیاں رختِ سفر باندھ کر روضہ رسولﷺ اپنے نانا پاک کو الوداعی سلام کر کے مدینہ سے روانہ ہو ?۔ 8 ذوالحج کو جب تمام مسلمان حج کے ل? مکہ جمع ہو رہے تھے شام کی فوج حاجیوں کے بھیس میں تلواریں ل? حر م میں آپہنچیں تا کہ دورانِ حج امامِ دو جہاں مو لا حسینؑ کو شہید کر دیا جا?۔ جب آپکو خبر ملی تو آپ نے حج کا ارادہ ترک کر تے ہو? حج کو عمرہ میں تبدیل کیا۔ کیو نکہ آپ تو حید کے پاسباں تھے۔کعبہ خدا کی حر مت اور تقدس کو آپ نے بچایا۔ آپ اپنے اہل و عیال جن میں معصوم بچے بھی شامل تھے لے کر عراق روانہ ہو?۔ 2 محرم کو آپ سر زمینِ نینوا پر پہنچے جہاں آپ نے اپنے دریا ? دجلہ و فرات کے درمیان خیام نصب ک?۔ یہاں یزیدی فوج نیآ کر آپ کا محاصرہ کر لیا سات محرم کو آپ کے خیام وہاں سے ہٹا دیے گ? اور آپ پر پانی بند کر دیا گیا۔
اور دس محرم روزِ عاشور تمام مظالم کی حد ختم کر دی گئ۔ آپ نے 72 قربانیاں دینِ نبوی کی حرمت و استقامت تا ابد قائم رکھنے کے ل? پیش کیں ان میں 90 سالہ ضیعف صحابی بھی تھا اور چھ ماہ کا صغیر بیٹا بھی۔ اگر یہ جنگ ہوتی تو محض ہار جیت پہ ہوتی اور اصول و ضوابط کے مطابق ہوتی۔ مگر یہ محض جنگ کی شکل دے کر نسل کشی ء پیعمبر ﷺ تھی اور بعد عاشور اگر یہ جنگ ہو تی تو وہ تو سپاہِ یزید سب کو قتل کر کے جیت چکی تھی۔ پھر نبی زادیوں کو قیدی بنا کر سروں سے ردا چھین کر شہر بہ شہر بازاروں اور درباروں میں پھرانا۔۔۔۔۔۔۔۔کو ن سے مزہب میں یہ قانون آج تک ملتا ہے؟ کہ عورتوں اور بچوں کی عزت و تکریم ہر حال میں رکھی جاتی ہے۔
میں اکثر سوچتی ہوں تاریخ آدمیت میں اگر عاشور کا دن نہ ہو تا تو دنیا کبھی حق و باطل کی تمیز ہی نہ کر پاتی ہر طرف بدی ہی ہوتی۔ حلال و حرام کیا ہے کون جانتا؟ تبھی تو لاکھ مخالفتوں اور مظالم کے باوجود بھی عاشور ایک روز کا صدیوں پہ چھا گیا۔ اور حق آج بھی سر بلند ہے چاہے باطل نے جتنا اس کو دبا یا۔
وما علینا الاا لبلغ المبین۔