Site icon FS Media Network | Latest live Breaking News updates today in Urdu

اسلامی خلافت نشاط ثانیہ کی راہ، فتح کابل کیا ہموار کریگا؟

اسلامی خلافت نشاط ثانیہ کی راہ، فتح کابل کیا ہموار کریگا؟

مسیحی و اسلامی حربی تاریخ کا تقابل وقت کی اہم ضرورت

اسلامی خلافت نشاط ثانیہ کی راہ، فتح کابل کیا ہموار کریگا؟

نقاش نائطی
۔ +966594960485

اثر دکھانے لگا جگنوؤں کا صبر و ثبات
بدل رہے ہیں شب و فتنہ ساز کے حالات

وہ دیکھ دور افق پر لہو سی روشنیاں
بہت قریب ہے تیرا زوال جب کی رات
سرفراز بزمی

آج 15 اگست ہم بھارت واسیوں کے لئے جہاں یوم آزادی ھند کے اعتبار سے یہ ایک اہم دن ہے وہیں پر آج 15 اگست 2021 اسلامی تاریخ میں صدیوں یاد رکھا جائیگا۔ سکوت بغداد 1258 پر 763 لمبے سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود آج بھی عالم کے مسلمان سکوت بغداد کو بھول نہیں پائے ہیں یہ وہ منحوس دن تھا جب خلافت راشدہ خلافت بنو امیہ اور خلافت عباسیہ کی شاندار اسلامی حکومت کے زوال کا دن تھا۔اسلامی سلطنت پر منگولوں کے غلبے کا دن تھا اسلامی سلطنت اپنے توکل علی اللہ اور جہادی جذبہ سے عاری مساجد میں علماء و اولیاء کرام کی مجالس ذکر واذکار و دعاؤں کی منتظر تھی

توکل علی اللہ کے سہارے، جہادی جذبات اور اپنے بازوئے دم پر دشمن سے مقابلہ کرنے کے بجائے، مساجد میں مشغول ذکر وآذکار مجالس کی دعا کی برکتوں سے اللہ رب العزت کی طرف سے غیبی مدد کی خواہاں، اسلامی افواج اغیار کے تیغ و تلوار کے آگے ٹک نہ سکی اور سکوت بغداد ہوگیا لیکن سکوت بغداد کے بعد کیا ہوا؟ جس بغداد کی آبادی اس وقت دس لاکھ تھی ایک لاکھ بھی بچ نہ پائی۔ سب مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا گیا پورا بغداد جلا کر راکھ کردیا گیا۔اسلامی کتب خانوں میں لاکھوں کتابیں جلاکر دریائے دجلہ میں بہا دی جانے سے دریاء دجلہ کے پانی کا رنگ تک سیاہی مائل ہوگیا تھا
کچھ یہی اسباب تھے سقوط غرناطہ اسپین کے بھی، بنیادی وجہ مسلمانوں کی باہمی رنجش اور اقتدار کا لالچ تھی۔ باہمی لڑائیوں سے مسلمان بقیہ اسپین تو کھو ہی چکے تھے لیکن غرناطہ پر آخری مسلم حکمران ابوعبداللہ کی حکمرانی تھی مسلمان عیش و عشرت میں پھنسے جہادی جذبہ کو فراموش کرچکے تھے آج سے 527 سال قبل 2 جنوری 1492 کو صلیبی افواج نے غرناطہ پر بھرپور حملہ کیا تو مسلم افواج پسپا ہونے پر مجبور ہوتے ہوئے،

اپنا 800 سالا اقتدار ملکہ ازابیلا اور شاہ فرڈیننڈ کے حوالے کرکےسقوط غرناطہ کی بنیاد رکھی، مسلم افواج دنیوی عیش و عشرت میں ایسی محو تھی کہ غرناطہ کا بھی دفاع نہ کرسکے اور تاریخ میں ایسے فنا ہوئے کہ صدیوں بعد بھی اسپین کے در و دیوار ان کی بربادی اور زوال پر ماتم کناں ہیں۔سقوط غرناطہ کے بعد عیسائی حکمرانوں کے ظلم و ستم کے باعث لاکھوں مسلمان ہجرت کرکے مراکش اور شمالی افریقہ کے دیگر ممالک میں آباد ہونے پر مجبور جو ہوئے، آج بھی وہاں مہاجر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام ہوا اور بیشمار اہل ایمان عیسائی ظلم و ستم کی تاب نہ لاکرعیسائی بن گئے۔

ﺧﻼﻓﺖِ ﺭﺍﺷﺪﮦ، ﺧﻼﻓﺖ ﺍﻣﻮﯾّﮧ ﺍﻭﺭ ﺧﻼﻓﺖِ ﻋﺒﺎﺳﯿﮧ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﯽ ﭼﻮﺗﮭﯽ ﺑﮍﯼ ﺧﻼﻓﺖ، خلافت عثمانیہ ﺗﮭﯽ، ﺍﺱ نے ﺗﻘﺮﯾﺒﺎً 1282ﺀ ﺗﺎ 1924ﺀ 642 سال تک تقریبا دوتہائی عالم پر حکومت کی۔ انکے 37 ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﻣﺴﻨﺪ ﺍٓﺭﺍﺋﮯ ﺧﻼﻓﺖ ﮨﻮﺋﮯ۔ ﭘﮩﻠﮯ 8 ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺗﮭﮯ۔ خلیفہ ﺍﻟﻤﺴﻠﻤﯿﻦ ﻧﮧ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﮐﯽ ﺳﺮﺑﺮﺍﮨﯽ ﮐﺎ ﺍﻋﺰﺍﺯ ﺗﻮ ﺣﺎﺻﻞ ﺗﮭﺎ، ﺧﻼﻓﺖ ﮐﺎ ﺭﻭﺣﺎﻧﯽ ﻣﻨﺼﺐ ﺣﺎﺻﻞ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ۔9ﻭﯾﮟ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺳﻠﯿﻢ ﺍﻭّﻝ ﺳﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ 36 ﻭﯾﮟ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻭﺣﯿﺪ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺳﺎﺩﺱ ﺗﮏ 30 ﺣﻀﺮﺍﺕ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﺑﮭﯽ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺧﻼﻓﺖِ ﻋﺒﺎﺳﯿﮧ ﮐﮯ آﺧﺮﯼ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﻧﮯ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺳﻠﯿﻢ ﮐﻮ ﻣﻨﺼﺐ ﻭ ﺍﻋﺰﺍﺯ ﺧﻼﻓﺖ ﮐﯽ ﺳﭙﺮﺩﮔﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻭﮦ ﺗﺒﺮﮐﺎﺕِ ﻧﺒﻮﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺑﻄﻮﺭ ﺳﻨﺪ ﻭ ﯾﺎﺩﮔﺎﺭ ﺩﮮ دئے ﺗﮭﮯ ﺟﻮ ﮐﮧ ﺧﻠﻔﺎﺋﮯ ﺑﻨﻮ ﻋﺒﺎﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﻧﺴﻞ ﺩﺭ ﻧﺴﻞ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﭼﻠﮯ آﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔

ﯾﮑﻢ ﻧﻮﻣﺒﺮ1922ﺀ ﮐﻮ ﭼﻮﻧﮑﮧ ﻣﺼﻄﻔﯽ ﮐﻤﺎﻝ ﭘﺎﺷﺎ ﻧﮯ ﻣﻐﺮﺑﯽ ﻃﺎﻗﺘﻮﮞ ﺍﻭﺭ ’’ﺑﺮﺍﺩﺭﯼ‘‘ ﮐﯽ ﺍﯾﻤﺎ ﭘﺮ ﺗﺮﮐﯽ ﮐﯽ ﮔﺮﯾﻨﮉ ﻧﯿﺸﻨﻞ ﺍﺳﻤﺒﻠﯽ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﺳﻠﻄﻨﺖِ ﻋﺜﻤﺎﻧﯿﮧ ﮐﮯ ﺧﺎﺗﻤﮯ ﮐﯽ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﺍﺩ ﻣﻨﻈﻮﺭ ﮐﺮﮐﮯﺧﻠﯿﻔﮧ ﺍﺳﻼﻡ، ﻋﺜﻤﺎﻧﯽ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺤﻤﺪ ﻭﺣﯿﺪ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺷﺸﻢ ﮐﯽ ﺍﭨﻠﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﻠﮏ ﺑﺪﺭﯼ ﮐﮯ ﺍﺣﮑﺎﻣﺎﺕ ﺟﺎﺭﯼ ﮐﺮﺩﯾﮯ ﺗﮭﮯ، ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺍﺱ ﻧﺎﻣﺒﺎﺭﮎ ﺩﻥ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﮔﺌﯽ، ﺍﻟﺒﺘﮧ ﺧﻼﻓﺖ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﺑﺎﻗﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻭﺣﯿﺪ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺷﺸﻢ ﮐﯽ ﺟﻼ ﻭﻃﻨﯽ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻗﺮﯾﺒﯽ ﺭﺷﺘﮧ ﺩﺍﺭعبد ﺍﻟﻤﺠﯿﺪ آﻓﻨﺪﯼ ﮐﻮ آﺧﺮﯼ ﻋﺜﻤﺎﻧﯽ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ، ﻣﮕﺮ 3 ﻣﺎﺭﭺ 1924ﺀ ﮐﻮ ﺗﺮﮐﯽﮐﯽﻗﻮﻣﯽ ﺍﺳﻤﺒﻠﯽ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﭘﮭﺮﺍﺳﻼﻡ ﺩﺷﻤﻨﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﻐﺮﺏ ﭘﺮﻭﺭﻭﮞ ﮐﺎ ﺛﺒﻮﺕ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﺗﺎﺗﺮﮎ ﮐﯽ ﻗﯿﺎﺩﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﺧﻼﻓﺖ ﮐﮯ ﺧﺎﺗﻤﮯ ﮐﺎ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﺑﮭﯽ ﻣﻨﻈﻮﺭ ﮐﺮﻟﯿﺎ۔ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ آﺧﺮﯼ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﺟﻮ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻧﮧ ﺗﮭﮯ،ﺧﻠﯿﻔﮧ ﻋﺒﺪﺍﻟﻤﺠﯿﺪ ﺩﻭﻡ ﮐﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺤﻞ ﺳﮯ ﺭﺧﺼﺘﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﮩﻠﮯﺳﻮﺋﭩﺰﺭ ﻟﯿﻨﮉ ﭘﮭﺮﻓﺮﺍﻧﺲ ﺟﻼ ﻭﻃﻨﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﻋﺜﻤﺎﻧﯿﮧ ﮐﮯ ﺳﻘﻮﻁ ﮐﺎ ﺍﻟﻤﻨﺎﮎ ﺳﺎﻧﺤﮧ ﺑﮭﯽ ﭘﯿﺶ آگیا تھا

سولوین صدی کی ابتداء میں عالم کے دیگر حصوں پر برطانوی و فرانس کی حکومت نے اپنے پیر جماتے ہوئے خلافت عثمانیہ کے دانت کھٹے کرنے شروع کردئیے تھے۔ سولہویں اور سترہویں صدی عیسوی کا زمانہ یورپ میں ‘ایج آف ڈسکوری’ یعنی دریافتوں کا دور تھا اور سپین، پرتگال، نیدرلینڈ اور برطانوی بحری بیڑے دنیا بھر کے سمندر کھنگال رہے تھے۔براعظم امریکہ کی دریافت اور اس پر قبضے سے یورپ کو بقیہ دنیا پر واضح برتری حاصل ہو گئی تھی اور انھوں نے جگہ جگہ اپنی نو آبادیاں قائم کرناشروع کر دیں تھیں۔16ویں اور 17ویں صدیوں میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں یورپ نے بقیہ دنیا کو پیچھے چھوڑ دیاتھا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ جہاز رانی کی صنعت کے فروغ کی وجہ سے انھیں جہاز رانی کے لیے نت نئے آلات ایجاد کرنے اور انھیں بہتر بنانے کی ضرورت تھی جس نے سائنس اور ٹیکنالوجی دونوں کو فروغ دیا۔
ایک طرف مسلم حکمران علم عصر حاضر سے بیگانہ عیش و عشرت میں غرق علماء و اولیاء کرام کے مرہون منت جینے پر مجبور تھے تو دوسری طرف عالمی سطح پر قوت پکڑتی برٹش و فرنچ ایمپائر سائینسی جدت پسند ایجادات کا فائیدہ اٹھا عالم کے انیک حصوں پر قابض ہوتی چلی جارہی تھیں۔ ویسے تو برطانیہ و فرانس ایک دوسرے کے دشمن تھے لیکن عالم پر ایک لمبے عرصے تک اسلامی حکومت کی پسپائی کی سازش کے تحت ، خلیج کے صحراؤں میں دریافت شدہ قدرتی تیل ذخائر پر قبضہ و بندر بانٹ کی خاطر دو مسیحی قوتیں 1920 اٹلی کے قصبہ سان ریمو کی کانفرنس میں ملتے ہیں کانفرنس کا ایجنڈا مشرق وسطی میں سلطنت عثمانیہ کو زوال پذیر کرتے ہوئے، تیل کے ذخائر سے مالا مال عرب ریگزاروں کی تقسیم کو حتمی شکل دینا تھا۔آج سے ٹھیک 101 سال پہلے 19 اپریل سے 26 اپریل 2019 تک جاری رہنے والی اس کانفرنس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ لبنان اور شام فرانس کے ماتحت ہوں گے اور عراق اور فلسطین پر برطانیہ کا تسلط ہوگا

اور پھر دنیا نے دیکھا حجاز پر قبضہ کی جنگ لڑ رہے آل سعود قبیلہ کو آگےکرتے ہوئے اورخلافت عثمانیہ کے حجاز کے گورنڑ شریف مکہ کو بغاوت پر آمادہ کرتے ہوئے، صلیبی قوتوں نے زوال خلافت عثمانیہ کی بنیاد ڈالی اور نوجوان ترکوں کو خلافت کے خلاف یکجا کرتے ہوئے کمال اتاترک کی سربراہی میں جمہوریت کے نعرے کے ساتھ خلافت عثمانیہ کو زوال پذیر کرتےہوئے، خلیفہ عبدالحمید کو سو سالہ عقد لوزان میں جکڑتے ہوئے،انہیں ترکیہ سے جلاد وطن کر ایک نئے سیکیولر ترکی کی داغ بیل ڈالی گئی۔اور دنیا شاہد ہے ساڑھے چھ سو سالہ اسلامی حکومت کے خاتمہ کے بعد جدید سیکیولر ترکیہ میں عربی زبان میں آذان و قرآن تلاوت پر تک پابندی عائد کی گئی

علامہ ابو الحسن علی ندویؒ خلافت عثمانیہ کے زوال کی تاریخ اور وجوہات کوبیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ”کہ سب سے بڑا مرض جو ترکوں میں پیدا ہوا وہ جمود تھا اور جمود بھی دونوں طرح کے علم و تعلیم میں بھی جمود اور فنون جنگ اور عسکری تنظیم وترقی میں بھی ۔۔۔ علمی جمود اور ذ ہنی اضمحلال اس وقت صرف تر کی اور اس کے علمی اور دینی حلقوں کی خصوصیت نہیں تھی ، واقعہ یہ ہے کہ پورا عالم اسلامی مشرق سے مغرب تک ایک علمی انحطاط کا شکار تھا ، دماغ تھکے تھکے سے تھے اور طبیعتیں بجھی بجھی سی نظر آتی تھیں اور ایک عالمگیر جمود اور افسردگی چھائی ہوئی تھی علم وصنعت کے میدان میں ترکوں کی پسماندگی کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ سولہویں صدی مسیحی سے پہلے ترکی میں جہاز سازی کی صنعت شروع نہیں ہو ئی تھی، اٹھارویں صدی عیسوی میں ترکی پریس و مطابع ،حفظانِ صحت کے مراکز اور فوجی تعلیم طرز کے مدارس سے روشناس ہوئے۔اٹھارویں صدی کے آخر تک ترکی نئی ایجادات اور ترقیوں سے اس قدر بیگا نہ تھا کہ جب قسطنطنیہ کے باشندوں نے دار السطنت پر ایک غبارہ کو پرواز کرتے ہو ئے دیکھا تو اس کو سحر یا کیمیا کی کرشمہ سازی سمجھے، یورپ کی چھوٹی چھوٹی سلطنتیں ترکی سے اس میدان میں بازی لےجا چکی تھیں
آج یہ جو سکوت کابل ہوا ہے۔ کیا یہ سکوت، سکوت غرناطہ اسپین سکوت بغداد اور سکوت خلافت عثمانیہ سے مختلف نہیں ہے؟ کیا یہ سکوت کابل ہمیں اپنے اسلامی سنہرے دور کے اولین دنوں والے فتح مکہ کی یاد نہیں دلاتا ہے؟وہی نبی آخرالزمان محمد مصطفی ﷺ ہیں جنہیں انکے اپنوں نے قتل کرنے کی سازش رچی اپنے آبائی وطن مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کر جانے پر مجبور کیا تھا 8 لمبے سال بعد جب آپ ﷺ ایک کثیر فوج کے ساتھ مکہ فتح کرنے پہنچتے ہیں اور مکہ فتح کرلیتے ہیں تو اللہ کے رسول ﷺ کا سب سے پہلا اعلان عام معافی کا ہوتا ہے بغیر ایک قطرہ خون بہانے نہ صرف مکہ فتح ہوجاتا ہے بلکہ خود انہیں ستانے اور انکی جان کے درپے دشمنان اسلام تک کو علم معافی دی جاتی ہے۔ کیا فتح کابل پر وہی فتح مکہ والی سنت کو زندہ نہیں کیا گیا ہے؟

کہنا آسان ہے لیکن عمل کرنے والوں کے دل و دماغ پر کیا گزرتی ہے انہیں پتا ہے آج سے کم و بیش بیش سال قبل 9/11 انکے ناکردہ گناہ کی سزا کے پاداش میں انکی عوامی حکومت کو تاراج کرنے والے اور 20 لمبے سال کے دوران لاکھوں کی تعداد میں انکے اپنوں کا قتل کرنے والے اور انکی عورتوں کی عزتوں کو پامال کرنےوالے اسلام دشمنوں کے ساتھیوں کو عام معافی دینا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ جس جرم کی پاداش میں عوامی افغانی حکومت کو تاراج کیا گیا تھا بعد کے دنوں 9/11 خود امریکی سی آئی اور اسرائیلی موساد کی کارستانی کیا ثابت نہیں ہوئی تھی؟ دراصل سکوت خلافت عثمانیہ کے 65 سال بعد عالم کے کسی حصے پر اسلامی حکومت کو برداشت کرنا یہود و نصاری،عالمی قوتوں کو پسند نہ تھا 1990

کے آس پاس افغانستان میں قائم اسلامی حکومت کامیاب چلتی نظر آتی تو عالم کے مختلف ملکوں میں ایک حد تک عملا” ناکام اشتراکیت، ملوکیت و سرمایہ دارانہ نظام کی بقاء کے لئے مستقل خطرہ پیدا ہوسکتا تھا اسی لئے کمزور افغانی اسلامی حکومت کو تاراج کرنے خود اپنے گھر 9/11 کا ڈرامہ رچا گیا اور اپنے دو ایک ہزار شہریوں کو مارکر، اس کا الزام اسامہ بن لادن والی القاعدہ پر تھوپنے ہوئے، اسامہ بن لادن کی جائے پناہ اولین اسلامی مملکت افغانستان پر عالم کی رہکارڈ بمباری کرتے ہوئے اسے تاراج کیا گیا تھا

“وَمَكَرُواْ وَمَكَرَ ٱللَّهُ ۖ وَٱللَّهُ خَيْرُ ٱلْمَٰكِرِينَ”، “اور انہوں نے تدبیر(مکر) کی اور خدا نے تدبیر کی اور اللہ بہترین تدبیرکرنے والوں میں سے ہے”

یہودی و نصار عالمی سازش کاروں نے عالم کے نقشہ پر اسلامی حکومت کے طلوع ہوتے پس منظر کو یکسر ختم کرنے کی سازش رچی تھی لیکن اللہ رب العزت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ 1980 کے دہے میں افغانستان پر روسی یلغار کے بعد روس کو کدھیڑنے جن جہادیوں کو خود امریکہ نے مالی و حربی مدد سے تیار کیا تھا اسے پتہ نہ تھا اس کی اپنی مدد سے اسلامی مدارس کے کٹر پنتھی دیوبندی مسلک کے ماننے والے حنفی مسلمان، افغانستان میں عالم کی پہلی حنفی اسلامی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے! اس وقت طالبانی حکومت بھی یہود و نصاری کی عیاریوں سے واقف نہ تھی

اور نہ ہی موجودہ جدت پسند حربی طریقہ جنگ سے واقف و آشنا تھے۔یہ تو اچھا ہوا کہ صاحب امریکہ نے اپنے اسلام دشمنی کے ایجنڈے پر عمل پیرا عالمی 52 ملکی حربی اتحاد کے زعم میں، اسے تاراج کرتے ہوئے ان میں اصلا” موجود جذبہ جہاد کو پھڑکا اور بھڑکا دیا تھا۔ اس بیس سالہ جنگ میں حربی اعتبار سے جدت پسند بمبار طیاروں میزائلوں ڈرون سازیوں کی حربی جدت پسندی میں لڑتے، مرتے، تبتے ہوئے کل کے ان پڑھ اجڈ غیر تربیت یافتہ جہادی جذبہ سے سرشار جنگجو،آج جدت ہند حربی آلات کا مقابلہ کرنے لائق تربیت یافتہ عالمی طاقت میں صرف بن چکے تھے، بلکہ عالمی امریکی و یہودی سراغ رسانوں سے مڈبھیڑ ہوتے ہوئے،جانے انجانے میں میں ان سے تدریب و تربیت پاتے ہوئے، نہ صرف صاحب امریکہ کو شکشت فاش دینے لائق حربی قوت بن چکے ہیں بلکہ سراغ رسانی میں اپنی حربی حکمت کو کھیلنے کے معاملہ میں اور دشمن اسلام کی حربی قوتوں کو چکمہ دینے کے معاملے میں، شعبہ سراغ رسانی میں بھی؛ عالمی یہود و نصاری قوتوں کو پچھاڑ چکے ہیں۔

اب 15 اگست 2021 فتح کابل کے بعد بیس سالہ عالمی جنگ میں تربیت یافتہ افغانی جنگجو، اپنے عرب رہنماؤں کی سرپرستی و تدریب کے چلتے، اب باقاعدہ سکف و صالحین والے اسلامی شرعی حکومت قائم کرنے کا اعلان کرچکے ہیں۔ گویا اسلامی حکومت کو شروع ہونے سے پہلے ختم کرنے کی عالمی یہود و نصاری سازش خود انکے کے گلے کا پھندا بن چکی ہے۔ ان کے ہزار نہ چاہتے ہوئے بھی، 15 اگست 2021 عالم کی پہلی اسلامی شریعہ حکومت کی شروعات ہوچکی ہے۔ وہ بھی کل 2002 جو حکومت افغانستان میں قائم تھی عالمی یہود و نصاری قوتوں کے اسے قبول نہ کرنے کی وجہ سے اور جدت پسند جمہوری نظام کے بدلہ اسلامی شرعی نظام رائج کرنے کی انکی ضد کےچلتے، ہزارحیلےبہانوں سے اس وقت کی افغان حکومت مختلف عالمی پابندیوں تلے دبی،تمدنی ترقی یافتگی سےماورا پچھڑی مملکت تھی لیکن خالق کائیبات کی تدبیر کوسلام افغانستان پر یہود و نصاری کے قبضہ اور انکے ظلم ستم نے جہاں ان افغانی جنگجوؤں کو جدت پسند حربی تربیت و تدریب عطا کی ہے وہیں

ان بیس سالوں نے افغانستان میں اپنی لازوال حکومت قائم رکھنے کے چکر میں افغانستان کو سڑکوں، ہائے ویز کے لامتناہی جال کی تعمیر، ڈیم ایرپورٹس مختلف حکومتی تعمیرات کا لامتناہی ترقیاتی تعمیراتی جال، ہزاروں کروڑ اپنے خرچ کر، ایک نئےترقی پزیر افغانستان کی صورت ھدیتا” نئی افغان حکومت کو چھوڑ بھاگنے پر ان غاصب قوتوں کو مجبور کرتے ہوئے،افغانستان کی ان ترقیاتی اسکیمیوں پر صرف کئے گئے ہزاروں کروڑ ڈالر کی رقم نہ وہ افغانی حکومت سے طلب کرسکتے ہیں اور نہ اس پر سود ملنے کی توقعات وہ رکھ سکتے ہیں گویا خالق کائینات نے طالبان جنگجوؤں کے، اس پر کئے توکل کامل، بھروسہ و اعتماد اور جہادی جدوجہد کا صلہ، انہیں اغیار کے ہاتھوں بسا بسایا ترقی پزیر افغانستان حکومت کی صورت تحفتا” انعام میں دی ہے

ایک لحظہ کے لئے سوچا جائے پہلے والی ملا عمرعلیہ الرحمہ کی افغانی حکومت اتنے منظم اعتبار سے ترقی پزیر افغانستان کی تعمیر نو، بغیر ایک پائی خرچ کئے یا قرض لئے خود ترقی کرسکتی تھی؟ ڈھائی لاکھ آفغانی فوج جو کل تک سابق افغان صدر اور انکے حلیفوں کے تابع تھی آج نہیں تو کل نئی طالبانی حکومت کے تابع و وفادار جب بن جائیگی تو سوچئے انکی تربیت و تدریب پر خرچ ہونے والے کروڑوں ڈالر انکے بچیں گے کہ نہیں؟ علاوہ افغانستان کی سر زمین کے اندر موجود ہزاروں لاکھوں کروڑ کی معدنیات جس کے لئے عالم یہود ونصاری قوتوں نے افغانستان پر چڑھائی کی تھی

اور وہ اس معدنیات سے مستفید بھی ہورہے تھے اب نئی افغان طالبان حکومت چائینا کے ساتھ اسلامی اوصول اشتراک کے تحت ،اسے نکال عالم کے امیر مملکت بن جائیں گے تو یہ آج وقوع پذیر اسلامی شرعی حکومت، کیاعالم کے اور ملکوں کے لئے مشعل راہ بنتے ہوئے ایک نئے اسلامی خلافت کی راہ ہموار نہیں کریں گے؟اسی لئے تو بڑے بزرگوں خوب تر کہا ہے کہ اللہ رب العزت کی مشیت وہی بہتر جانے ہیں۔ 2002 میں افغانستان پر یہود و ہنود و نصاری کی حربی یلغار آج بیس سالوں بعد افغانیوں کے لئے وردان یا نعمت غیر مترقبہ کیا ثابت نہیں ہوئی ہے؟

ایک وقت کی اسلامی حکومت خلافت عثمانیہ ترکیہ سابقہ دو دہے سے سو سالہ عقد لوزان کے خاتمہ پر،خلافت عثمانیہ کی دوسری باری شروع کرنے کے لئے تلملا رہی ہے۔ جلد یا بدیر ترکیہ کے خلافت عثمانیہ کے اعلان کے ساتھ ہی افغانستان و ترکیہ میں اسلامی حکومت کے قیام بعد ، یقینا اسکے اثرات خیر سے عالم کی اولین ایٹمی طاقت، افغانستان پڑوسی مملکت پاکستان میں بھی پایا جانے والا اسلامی رحجان جلد یا بدیر اسے بھی اسلامی مملکت میں تبدیل ہوتے دیکھ پائیگا۔ اور یہ افغان پاک و ترک کی تکڑی کئی ایک روس سے آزاد ہوئی مسلم مملکتوں؛ عرب ملکوں پر مشتمل ایک اسلامی خلافت میں تبدیل ہوتے دیکھ سوچ کر ہی یہود و نصاری کی نیند و چین اڑی ہوئی لگتی ہے۔ بے شک انسان کتنا بھی مکرو فریب سے لبریز اور سرشار کیوں نہ ہو لیکن جب اللہ تدبیر کرنے پر آتا ہےتوانسانوں کی سب تدبیریں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں ۔ انشاءاللہ۔
ان ایام بھارت میں ھندو آحیاء پرستی کا جو طوفان بدتمیزی 30 کروڑ مسلم اقلیت کو پریشان کئے ہوئے ہے وہیں پر ہزاروں سال سے بریمن ھندوؤں کی ستائی 40 کروڑ دلت پچھڑی جاتی آبادی اپنے مستقبل کے لئے ہم مسلمانوں سے زیادہ پریشان ہے اوپر سے پڑھا لکھا درمیانی ذات برادری والا طبقہ بھی؛اور بعض اعلی عصری تعلیم یافتہ برہمن بھی، اس منو اسمرتی والے چھوت چھات اندھ کال یوگ سے پریشان ہیں۔ ایسے میں اسلام دھرم کی رواداری و آپس کی چھوٹ چھات بھید بھاؤ سے پاک برادرانہ کیفییت انہیں اسلام دھرم کو جاننے اور سمجھنے پر اکسا رہی ہے ایسے میں ہم بھارت واسی 30 کروڑ ہم مسلمان اپنی قبر ہرستی والی مشرکانہ افعال کو چھوڑ کر، احکام قرآنی پر عمل پیرا، اخوت بھائی چارگی کا بخوبی مظاہرہ کریں

تو بعض اسلامی حلقوں میں احادیث رسولﷺ کی رو سے پندرھویں صدی کے اختتام تک، زمام علم اسلامی عربوں سے نکل کر، صائیبین قوم کے ہاتھوں جانے والی پیشین گوئی کے مصداق یہ منووادی سناتن دھرمی آسمانی ویدک ھندو قوم جوکہ حضرت نوح علیہ السلام کی امتی، زبر الاولین یا صحوف اولی والی قوم صائینیں ہے کیا پتہ آج سے ساٹھ باسٹھ سال بعد، پوری کی پوری ھندو قوم دامن اسلام میں پناہ لے لے، اور یوں مشرق سے ھند سے جہادی دستے نکل پورے عالم پر چھا جانےوالی اللہ کے رسول محمد مصطفی ﷺ کے ھند سے انہیں آنے والی خوشبودار ہوا اور “غزوہ ھند” کی پیشین گوئی پوری ہوجائے۔ کچھ بھی ہو۔ آج 15 اگست 2021 فتح کابل، فتح مکہ کی طرح عالم اسلام کے لئے یقینا” نشاظ ثانیہ ثابت ہوجائے وما علینا الا البلاغ

اسلام دشمنی انکے خوف قبول اسلام کی وجہ سے ہے

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1273459989755647&id=100012749744841

ایودھیہ سے آرہے ایک بوڑھے ھندو پنڈت کے ساتھ محترم مولانا سید خلیل الرحمن سجاد نعمانی علیہ الرحمہ کے ریل سفر دوران حسن سلوک دیکھ کر ، اس بوڑھے پنڈت نے کیا کہا تھا؟ یہ جو تم مسلمان اپنا حسن اخلاق دکھا اور درشا رہے ہو اسے جاری رکھو میں ایک روشنی کو عالم پر پھیلتا دیکھ رہا ہوں؛ پیاسا کوئیں کے پاس آنے کا وقت ہو چلا ہے
https://youtu.be/SbrW1vYdUos

کابل میں طالبان کے پرامن داخلے،عام معافی اور امن کی ضمانت نے فتح مکہ کی یاد تازہ کردی اور دنیا بھر کی ٹیکنالوجی سے لیس عالمی طاقتوں کو عملا برادیا کہ ان کی قوت کے آگے کوئی طاقت نہیں ٹہر سکتی بشرطہ کہ وہ ہر قربانی کے لئے تیار ہو کاش ہم اور عالم اسلام اس معجزے سے سبق لے سکیں ۔ محمد تقی عثمانی
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1273441049757541&id=100012749744841

2001 امریکی حکومت کے افغانستان پر یلغار اور تاراجی افغانستان سے پہلے افغانستان طالبان لیڈر ملا عمر علیہ الرحمہ کا وائس آف امریکہ کو دئیے گئے انٹرویو میں اللہ پر مکمل یقین و بھروسے کو آج فتح کابل کے پس منظر میں غور سے سنا اور دیکھا جائے
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1273433713091608&id=100012749744841

یہود و نصاری عالمی طاقتوں کی افغان طالبان جنگ اسلامی نظام کو ختم کرنے کی جنگ یے

نیٹو کے سکریٹری جنرل نے اس وقت کہا تھا “کون کہتا ہے جنگیں ختم ہوگئیں ابھی تو اسلام میدان میں ہے ابھی تو ہمیں اس کے ساتھ لڑنا ہے”۔ سابق جنرل حمید گل علیہ الرحمہ
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1273438926424420&id=100012749744841

Exit mobile version