اسلامی خلافت نشاط ثانیہ کی راہ، فتح کابل کیا ہموار کریگا؟ 184

مسیحی و اسلامی حربی تاریخ کا تقابل وقت کی اہم ضرورت

مسیحی و اسلامی حربی تاریخ کا تقابل وقت کی اہم ضرورت

نقاش نائطی
۔ +966504960385

مسیحی اور اسلامی حربی تاریخ کا تقابل وقت کی اہم ضرورت
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1275423312892648&id=100012749744841

طالبان 1996 سے 2002 اپنی اسلامی حکومت کے دوران کیا تھے؟ ان میں اس وقت کیا خامیاں تھیں؟ کس ناکردہ گناہ کی پاداش میں ان کی عوامی حکومت کو تاراج کیا گیا تھا؟اور کس کسم و پرسی کی حالت میں اپنی بےکسی کے باوجود عالم کی ترقی پزیرجدت پسند ہتھیاروں سے لیس امریکہ و اسکے 52 ملکی اتحادی افواج کو شکشت فاش دینے میں کامیابی طالبان نے حاصل کی ہے؟ اور 15 اگست فتح کابل کو عالم اسلامی کی تاریخ کا ایک سنہرا باب بنادیا ہے؟
عالم کی تارہخ گواہ ہے فاتح اقوام مفتوحہ علاقوں کو تاراج کیا کرتی تھیں۔ انکے مردوں کو قتل عام اور ان کی عورتوں کی عزتوں کی پامالی ہوا کرتی تھی۔ 630 عیسوی سال بمطابق 20 رمضان المبارک 7 ھجری، عیسوی کیلنڈر کے حساب سے 1381 سال قبل اور اسلامی ھجری کیلنڈر کے حساب سے 1435 سال قبل فتح مکہ کا جو عام معافی کا معجزہ رونما ہوا تھا اسکی یاد میں آج فتح کابل نے، انہی اجڈ غیر تعلیم یافتہ دہشت گرد کہے جانے والے طالبانی لیڈروں نے، اپنے خاتم الانبیاء رسول مجتبی صلی اللہ و علیہ وسلم کی سنت پر عمل پیرا، عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے، عالم کے ہم عصری تعلیم یافتگان کو ورطہ حیرت میں مبتلا کیا ہوا ہے۔

اس سے پہلے آج سے 834 سال قبل 1187 عیسوی میں فتح یروشلم کے وقت فاتح یروشلم سلطان صلاح الدین ایوبی علیہ الرحمہ نےان مسیحی حکمرانوں کو عام معافی دی تھی، جنہوں نے مسیحی افواج کے فلسطین فتح کرنے وقت،مسجد اقصی میں پناہ لئے50 ہزار فلسطینی مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹتے ہوئے پورے فلسطین میں دس لاکھ مسلمانوں کا قتل عام کیا تھآ۔آج مغرب کے اجڈ غیر تعلیم یافتہ دہشت گرد ٹہرائے گئے ان طالبانی جنگجوؤں نے، 2002 عالمی افواج کے کابل فتح کرنے کے بعد، عبدالرشید دوستم کے وعدہ کرنے پر،اپنے آپ کو امریکی افواج کے ماتحت سرینڈر کئے

گرفتار شد 8 ہزار نہتے طالبانیوں کو، محفوظ مقام منتقلی کا وعدہ کر کنٹینروں میں بھرکر، دشت لیلی ریگستان لیجا دھوکہ سےفائیرنک کر شہید کرنے والی افواج کو عام معافی کا اعلان کیا یے۔ 9/11 امریکی ٹون ٹاور حملہ کا الزام لگا عالم کی کمزور ترین اسلامی حکومت پر، عالم کی طاقوت ور ترین 52 ملکی اتحادی افواج کی یلغار اور بیس سالہ تباہ کن بمباری والی جنگ کے دوران 70 ہزار نہتے افغانیوں کو بے قصور شہید کرنے والے، ہزاروں افغانی نساء کی عزت تار تارکرنے والے اتحادی ظالم افواج کو، عام معافی کا اعلان کرنا کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ اپنے آپ کو مہذب کہنے والےمسیحی افواج کی تاریخ میں کہیں ایک آدھ ایسا، اپنے دشمنوں کو عام معافی دینے کا کوئی واقعہ تاریخ کے پنوں پر بھی کیا ملتا ہے؟ جو 1400 سال اسلامی کی تاریخ میں ایک دو نہیں، یہ آج 15 اگست 2021 تیسری دفعہ دہرایا جارہا ہے؟

عالمی سطح پر کئی ہزار سالہ یہود و ہنود و نصاری کی حربی تاریخ اور 1400 سو سالہ دین اسلام کی حربی تاریخ کا تقابل کرتے ہوئے، عصر حاضر کے ہم 700 کروڑ اہل عالم کے لئے، کونسا دین زیادہ امن پسند اور لائق عمل ہے اس پر تحقیق نؤ، وقت کا سب سے اہم تقاضہ پے۔ اب تک ضبط تحریر ہوئی عالمی حربی تاریخ میں 3000 ہزار سالہ مسیحی حربی تاریح اور 1400 سو سالہ اسلامی حربی تاریخ کا تقابل کرتے ہوئے، کس نے کس پر کتنے ظلم کئے ہیں اور امن عامہ قائم کرنے کی کوششں کس دین کے ماننے والوں نے زیادہ کئے ہیں؟ اس پر از سر نو تحقیق ہونی چاہئیے،

اس کے لئے مسلم ملکوں کے کالج طلبہ کے درمیان یا عالمی سطح پر عام لکھنے والوں کے درمیان ایک بہت بڑے انعام کے ساتھ اس موضوع پر تحقیق و مقابلہ آرائی ہونی چاہئیے۔ اور اس ضمن میں تین سے پانچ ہزار سالہ ضبط ٹحریر کتابوں کو کنگھال کر عالم کے مختلف ادیان ماننے والوں نے حرب و جنگ وجدال کا بہانہ بناکر، عالم کی انسانیت پر کتنے بڑے بڑے ظلم کئے ہیں اور انسانیت کا کس قدر قتل عام کیا ہے اس پر ازسر نو تحقیق و مقابلہ ہونا چاہئیے۔

کچھ سال قبل سعودی عرب کی طرف سے خاتم الانبیاء رحمت العالمین محمد مصطفی صلی اللہ وعلیہ وسلم کی سیرت پر، گرانقدر انعام کے ساتھ، کتب نویسی کا جو مقابلہ منعقد ہوا تھا اسی طرز عالم کے منجملہ لکھنے والوں کےدرمیان مختلف الزبانی تحریری مقابلہ مختلف ادیان کی حربی تاریخی تقابل اور انسانیت نیز امن عامہ کے لئے کونسا مذہب مفید و بہتر ہے اس پر ایک عظیم الشان تحریری مقابلہ ہونا اب وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے۔تاکہ یہود و ہنود و نصاری مختلف ادیان کے مقابلہ دین اسلام کس قدر عملی اعتبار سے موجودہ عالم کے لئے مفید تر ہے عصر حاضر کی مختلف المذہبی تعلیم یافتہ عوام کے سامنے حقائق رکھے جاسکیں۔ وما علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں