!!پنجاب پولیس ترقی، الٹی گنگا بہنے لگی!!
تحریر: محمد اکرم عامر سرگودھا
فون نمبر: 03008600610
وٹس ایپ: 03043241100
پاکستان کا یہ المیہ رہا ہے کہ قیام پاکستان سے اب تک ہر برسر اقتدار آنے والے ہر حکمران نے،قانون نافذ کرنے والے اداروں بالخصوص پولیس کو جرم اور جرائم پیشہ عناصر کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا ٹاسک دیا اور اس کے بدلے پولیس رولز میں اصلاحات کرکے ملازمین و افسران کو سہولتیں دینے کا لالی پاپ دیا ،مگر کسی بھی حکومت نے عوام اور ملک کی محافظ پولیس فورس کو وہ مراعات اور سہولیات نہ دیں جو ان کا حق تھا، نئے پولیس آرڈیننس کے تحت پنجاب میں صوبائی رینکر پولیس فورس کی ترقیوں کو کم کرکے پی۔ ایس پیز کیڈر کے افسران کا کوٹہ بڑھا کر رینکرز کانسٹیبل سے آفیسر تک کے ملازمین حق پر ڈاکہ ڈال لیا گیا، جس سے پنجاب پولیس میں صوبائی پولیس فورس کے کانسٹیبل سے لیکر آفیسر تک کے ملازمین جن کی تعداد پی ایس پی سے کئی گنا زیادہ ہے میں بے یقینی کی سی کیفیت پائی جارہی ہے ۔
اب صورتحال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ گزشتہ دنوں سے پنجاب پولیس میں پروفیشنلز مینجمنٹ سروس (پی ایم ایس) اور صوبائی پولیس سروس دونوں میں محاذ آرائی کی سی کیفیت ہے، در حقیقت دیکھا جائے تو صوبائی پولیس سروس کے مطالبات جائز ہیں، چند روز قبل ایس پی عہدہ کے 43 افسران نے پولیس سروس آف پاکستان (پی ایس پی) کیڈر میں شامل ہونے سے برملا انکار کر دیا ہے، یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب آئی جی پنجاب کی طرف سے پنجاب کے ایڈیشنل آئی جیز، آر پی اوز، ڈی آئی جیز کو مراسلہ میں ہدایت کی کہ صوبائی پولیس سروس کے گریڈ 18 کے ایس پی عہدہ کے پی ایس پی کیڈر حاصل کرنے کے خواہشمند افسران کی بابت انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس کے دفتر کو آگاہ کیا جائے، اس صورتحال پر صوبائی پولیس سروس کے 43 افسران نے چیف سیکرٹری کے نام تحریری خط میں آئی جی پنجاب کے جاری کردہ پلان کو مسترد کرتے ہوئے
اسے نا مناسب اور امتیازی قرار دیتے ہوئے وفاقی سروس کے افسران کے ماتحت کام کرنے کو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے، اور صوبائی پولیس سروس کے 43 ایس پیز نے واضح کیا کہ پولیس آرڈر 2002ء کے نفاذ سے قبل کانسٹیبل، اے ایس آئی، سب انسپکٹر، انسپکٹر تک بھرتی ہونے والے اہلکار گریڈ 20 اور 21 تک ترقی پاتے رہے لیکن اب ایسا ممکن نظر نہیں آ رہا۔ در حقیقت بات تو صوبائی پولیس افسران کی درست نظر آتی ہے، وفاقی حکومت کے قانون اپنی جگہ لیکن وفاق کے سول سرونٹ ایکٹ 1973ء اور پنجاب سول سرونٹ ایکٹ 1974ء میں (ENCADREMENT) کا کوئی ذکر نہ ہے۔ آئین کے مطابق چونکہ رولز ایکٹ کے ماتحت ہوتے ہیں، اس لئے رولز کی اہمیت نہیں ہوتی۔ جس کی وجہ سے ENCADREMENT نہیں ہو سکتی۔ 18 ہویں ترمیم سے قبل وفاق نے قانون سازی کی تھی جس میں لاء اینڈ آرڈر بھی آتا تھا،
18 ہویں ترمیم کے بعد کنکرنٹ لسٹ کے خاتمہ سے وفاقی کی گئی قانون سازی بھی ختم ہو گئی تھی۔ جس کے بعد پرانا سسٹم ہی چل رہا تھا لیکن اس کی قانونی حیثیت نہیں۔ اس طرح صوبائی پولیس سروس کے افسران کی سنیارٹی لسٹیں صوبے کو ہی بنانی چاہئیں، ورنہ ان کی ترقیاں متاثر ہو جاتی ہیں۔ اگر ترقیوں کی لسٹیں وفاق بنائے تو سول سروس آف پاکستان اور پولیس سروس آف پاکستان کے مقابلے میں صوبائی سروس کے افسران سنیارٹی میں نیچے آ جاتے ہیں۔ جس سے ان کی سنیارٹی تقریبا ختم ہو جاتی ہے۔ صوبہ میں چونکہ پوسٹیں زیادہ ہوتی ہیں اس لئے ترقی کے مواقع بھی زیادہ ہوتے ہیں، چیف سیکرٹری کے نام خط میں ایس پیز نے یہ تو نہیں لکھا لیکن ان کا اصل مسئلہ یہی ہے، وفاق میں تمام صوبوں کے وفاقی سول افسران کے نیچے اگر صوبائی پولیس کے افسروں کو لگا دیا گیا تو انہیں وفاق میں گریڈ 19 میں ہی 10 سے 15 سال لگ جاتے ہیں۔ صوبائی پولیس سروس کے افسروں کا خیال ہے کہ اگر چانس لینا ہی ہے تو وفاق کے افسران کی بہتات سے ہٹ کر صوبائی حکومت میں ہی لیا جائے، جو صوبائی پولیس سروس کے لئے فائدہ مند ہے۔ اس طرح صوبائی پولیس سروس کے ملازمین کی ترقیوں کے چانس بھی زیادہ ہیں۔
اسی بناء پر صوبائی پولیس سروس کے ملازمین اور افسران اپنے حق کے لئے آواز اٹھارہے ہیں ، ایک رپورٹ کے مطابق ترقی اور پوسٹنگ کے معاملے پر رینکر پولیس افسران اور پی ایس پی افسران میں محاذ آرائی بھی صوبائی پولیس سروس کے ملازمین کی حق تلفی کی وجہ سے دیکھنے میں آ رہی ہے، اور واضح طور پر پنجاب بھر کے ایس پی رینک کے 43 افسران نے پی ایس پی کیڈر میں شامل کئے جانے کے فیصلے کی مخالفت کی ہے پی ایس پی کیڈر میں شامل ہونے کی مخالفت کرنے والے یہ 43ایس پیز رینکر ہیں، جو کہ نچلے عہدوں سے ترقی پاکر سکیل 18 میں ایس پی کے عہدے تک پہنچے ہیں، ان ایس پیز کا موقف ہے کہ ان کی ترقی کا اختیار صوبائی حکومت کے پاس ہے اور وہ قانون کے مطابق ترقی پاتے ہوئے اس عہدے تک پہنچے ہیں، اسی وجہ سے صوبائی پولیس سروس کے ایس پیز نے پی ایس پی کیڈر میں شمولیت سے انکار کیا ہے
،ان ایس پیز کا کہنا ہے کہ پی ایس پی افسران پہلے ہی ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں، اور ہمارا ترقی کا کوٹہ کم کرکے کچھ حصہ پہلے ہی سی ایس پیز کو دے دیا گیا ہے ، اس طرح صوبائی پنجاب پولیس کے افسران اور پی ایس پی افسران کچھ دنوں سے کھل کر آمنے سامنے آچکے ہیں، اور پنجاب پولیس کے افسران میں محاذ آرائی بڑھتی جارہی ہے۔ اگر یہی حالات رہے تو ہوسکتا ہے کہ حق تلفی سے دل برداشتہ ہوکر صوبائی پولیس سروس کے کانسٹیبل سے لیکر افسران تک کوئی راست قدم اٹھانے پر مجبور ہو جائیں کیونکہ صوبائی پولیس سروس کے کانسٹیبل سے آفیسر تک میں بے چینی کی فضاء پائی جارہی ہے ، کیونکہ پی ایس پیز کا کوٹہ بڑھانے سے صوبائی پولیس سروس کے ملازمین کی حق تلفی ہوئی ہے، ماضی میں مثالیں موجود ہیں کہ رینکر پولیس کے بڑے عہدوں تک پہنچ کر ریٹائر ہوئے مگر اب ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔
حالات اور وقت کا تقاضا ہے کہ پنجاب کے اعلی افسران اور سیاست دان اس معاملے کے حل کیلئے آگے بڑھیں،اور صوبائی پولیس سروس کے ملازمین کی حق تلفی کو روکیں، کپتان جی آپ نے بھی اقتدار میں آنے سے پہلے نعرہ لگایا تھا کہ برسر اقتدار آکرپنجاب پولیس میں اصلاحات لائیں گے، کپتان جی یہاں تو الٹی گنگا بہنے لگ گئی ہے، پنجاب میں صوبائی پولیس سروس کے لاکھوں ملازمین جن میں کانسٹیبل سے ایس پیز عہدہ تک کے افسران شامل ہیں کی حق تلفی ہورہی ہے، کیونکہ پی ایس پی کیڈر کا ٹاسک ہے کہ صوبائی پولیس سروس کے ملازمین انسپکٹر کے عہدہ تک پہنچ کر ریٹائر ہوجائیں، کپتان جی یہ صوبائی پولیس سروس کے ملازمین سے ظلم نہیں تو کیا ہے؟ کپتان جی اپنی ٹیم کے صوبائی کپتان عثمان بزدار اور پنجاب کے حکام کو ہدایت کریں کے وہ اس مسئلہ کا جلد سے جلد حل نکالیں،پنجاب پولیس کا ریکارڈ دیکھ لیں جتنا کام رینکر پولیس ملازم کررہے ہیں
،پی ایس پیز کی کارکردگی ان کی نسبت کمزور ہے، اس کے باوجود حق تلفی بھی صوبائی پولیس سروس کے ملازمین اور افسران کی ہورہی، آخر کیوں؟ پی ایس پی افسران میں کیا خوبی ہے کہ صوبائی پولیس سروس کے ملازمین کا کوٹہ کم کرکے انہیں نوازا جارہا ہے؟ کپتان جی یاد کراتا چلوں آپ پنجاب پولیس میں اصلاحات لانے کانعرہ لگا کر اقتدار میں آئے تھے، آپ کی حکومت کے تین سال گزر چکے ہیں دوسال سے کم عرصہ باقی ہے کپتان جی پنجاب پولیس میں کوئی تبدیلی تو نظر نہیں آرہی ،لیکن پنجاب پولیس میں اپنے پیٹی بھائیوں کی حق تلفی بڑھتی جارہی ہے،جسے روکنا ہوگا؟ کپتان جی اس کیلئے آپ کو صوبائی پولیس سروس کے ملازمین کو ان کا حق دلوانا ہو گا۔ اور ان میں پائی جانے والی بے چینی کی کیفیت ختم کرنا ہو گی، اس سے پنجاب پولیس کا مورال بلند ہو گا۔