جنگ بدر کے 313 سپاہی اور افغان 313 بدری کمانڈو 357

طالبان اور دارالعلوم دیوبند کا رشتہ

طالبان اور دارالعلوم دیوبند کا رشتہ

تحریر: نقاش نائطی
۔ +966504960485

ایڈوکیٹ اشونی پنڈت مڈگل نہ صرف ھندو برہمن پنڈت ہیں بلکہ آل انڈیا برہمن سماج کے صدر بھی رہتے ہوئے، چونکہ اپنے والد کے دیوبند پولیس انسپکٹر رہتے، انہوں نے دیوبند مدرسہ میں آتے جاتے اور مختلف مسلم شیوخ (پنڈت) کی گود میں کھیلتے پروان چڑھے ہیں اور ایک منجھے ہوئے وکیل رہتے اپنی گفتاری کو قابو میں رکھتے ہوئے طالبانیوں کے دارالعلوم دیوبند کے رشتوں سے پردہ اٹھایا ہے، اس لئے انکے بھارتیہ میڈیا کو دئیےانٹرویو سے طالبانی دیوبندی رشتوں پر ہم نے قلم اٹھانے کی جسارت کی ہے
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1277377699363876&id=100012749744841

انگریزوں نے ، مسلم حکمران بہادر شاہ ظفر سے بھارت کی حکومت چھین کر، اس پر قبضہ کیا تھا اس لئے بھارت کے مسلمان انگریزوں سے دیش کو آزاد کرانا اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے۔ پہلے زمانے میں اسکول کالج اور یونیورسٹیز نہیں ہوا کرتی تھیں اور سلسلہ تعلیم چاہے ھندوؤں کا ہو مسلمانوں کا گرو شکشھک، یا طالب علم استاد ہی سے ہوا کرتا تھا ۔موجودہ دارالعلوم دیوبند کے ذمہ دار المحترم ارشد مدنی کے دادا پڑدادا کے زمانے سے علوم قرآن و حدیث نسل درد نسل پڑھائے اور سکھائے جاتے رہے تھے۔ چونکہ ان ایام ملکوں کی حدود طہ رہتے ہوئے بھی، کسی کے بھی کہیں پر آنے جانے پر پابندی نہ تھی اور پاسپورٹ ویزہ کا سسٹم ایجاد نہ ہوا تھا ۔مسلم گرو کے پاس قران و حدیث سیکھنے پورے بھارت سے مسلمان اپنے بچوں کو جہاں بھیجتے تھے وہیں افغانستان یا دیگر ملکوں سے لوگ اپنی اپنی اولادوں کو دیوبند بھیجتے تھے۔1857 میں بھارت کو انگریز حکمرانی سے آزاد کرانے کی جو سب سے پہلے تحریک غدر اٹھی تھی وہ دیوبند شہر سے مسلمانوں نے ہی شروع کی تھی اگر بڑے بڑے جاگیردار نے ان کی مخبری انگریزوں سے نہ کی ہوتی تو اسی وقت بھارت آزاد ہوگیا

ہوتا لیکن ایشور اللہ کو شاید یہ منظور نہ تھا دیوبند سے شروع ہوئی یہ آزادی ھند “غدر تحریک” ناکام ہونے کی پاداش میں انگریز حکمرانوں نے دیوبند سے قرآن و حدیث کی تعلیم حاصل کئے 40 ہزار مسلمانوں کو گرفتار کر، انہیں دیوبند سے دہلی جاتی شاہراہ کے دونوں طرف لگے،بادشاہ ھند شیر شاہ سوری کے وقت لگائے گئے ان درختوں پر لٹکا کر پھانسی دے شہید کیا گیا تھا تاکہ دہلی آنے جانے والے تمام بھارتی، شاہراہ کے دونوں طرف لٹکتی آزادی ھند کی کوشش کرتے مسلمانوں کی لاشوں کو دیکھ کر دوبارہ آزادی ھند کے بارے میں بھی کوئی نہ سوچیں۔
اس غدر والے واقعہ کے تقریبا نو دس سال بعد ان شہید علماء کے بچے جو مسجدوں کے باہر پیٹ کی آگ بجھانے بھیک مانگ رہے تھے انگریز کلکٹر، انہیں انگریزی تعلیم دلوانے کے بہانے لیجانا چاہ رہا تھا تو یہ دیکھ کر ارشد مدنی کے پڑ دادا نے ان غریب و یتیم بچوں کو اپنی تحویل میں لیتے ہوئے، انہیں تعلیم و تربیت دینے کی خاطر 1866 میں باقاعدہ دارالعلوم دیوبند مدرسہ کی بنیاد ڈالی تھی۔اس وقت کے دیوبند کے بڑے استاد محمود الحسن جو بعد دارالعلوم دیوبند کے ذمہ دار مہتمم یا پرنسپل بنے، انکے طالب علموں میں افغانستان سردار کے بیٹے عبیداللہ سندھی اور محمد میاں انصاری بھی تھے۔ المحترم مولانا عبیداللہ سندھی علیہ الرحمہ اور مٹرم مولانا محمد میاں انصاری علیہ الرحمہ دارالعلوم میں تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے آزادی ھند کی تحریک سے جڑے ہوئے بھی تھے اور انگرئزوں کے خلاف جدوجہد آزادی میں انگریز جیل کی ہوا بھی کھا چکے تھے اور کالا پانی کی سزا بھی بھگت چکے تھے۔
1919 میں افغانستان مختلف قبائلی سرداروں نے پہلی افغان حکومت مہیندرسنگھ کی راج پاٹ میں بنائی تو اس وقت حضرت مولانا عبیداللہ سندھی علیہ الرحمہ اور حضرت مولانامحمدمیاں انصاری علیہ الرحمہ کی افغان علاقے میں بڑی عزت و تکریم تھی چونکہ وہ دیوبند سے فارغ تھے اس لئے ان کے پاس افغانستان میں تعلیم پانے والے تمام طالب علم بھی طالبان کہلائے جانے لگے اور گرو شکشھک یا استاد شاگرد کے رشتہ کو باقی رکھتے ہوئے، اپنی نسبت دیوبند سے کرنے لگے۔ اور یوں فکری طور پر افغانستان کے دینی علوم کے طالب علم یعنی، اسٹوڈنٹ طالبانی ہوگئے۔ 24 دسمبر 1979 جس اس وقت کایوایس ایس آر افغانستان پر چڑھائی کر اس پر قابض ہوا

تو اس وقت کا دوسرا سوپر پاور امریکہ، یوایس ایس آر کو توڑ کراسے ختم کرنے کی خاطر پاکستان کی مدد سے افغانستان کے مختلف سرداروں کی فوجی مدد کرتے ہوئے، یوایس ایس آر کو شکشت فاش دے افغانستان سے بھاگنے پر جب مجبور کیا تو افغانستان پر حکومت کرنے مختلف سردار جب آپس میں لڑنے اور مرنے لگے تب یہی طالبانی کہنے والی پشتون قوم نے، طالبان فوجی طاقت بنا مختلف سرداروں سے لڑتے ہوئے افغانستان پر 1996 نہ صرف پہلی افغان طالبانی حکومت قائم کرنے میں کامیابی حاصل کرلی تھی۔ بلکہ اپنے 1996 سے 2001 تک قائم طالبانی چھ سالہ حکومت میں پورے افغانستان میں منشیات کی پیداوار ہر قابو پاتے ہوئے،

عملا” جرائم فری پر امن افغان حکومت بھی قائم کرلی تھی۔ لیکن انکی کامیاب اسلامک طرز حکومت سے یہود و نصاری عالمی رہنما، 1923 خلافت عثمانیہ کے اختتام بعد عالم پر راج کرتے، یہود و نصاری حکمرانی کو چلینج کرتے، دوبارہ کسی اسلامی خلافت کی، کہیں واپس نہ آجائے، اس لئے ڈرتے تھے۔ اس لئے خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد، عالم کے نقشہ پر کہیں صحیح معنون اسلامی حکومت بننے نہیں دینا چاہتے تھے۔ اس لئے اسلامی حکومت یا اسلامی خلافت سے ڈرتے ہوئے ہی افغانستان میں 1996 قائم ہوئی پہلی اسلامی حکومت کے خاتمہ کی نیت سے، انہوں نے اپنی حکمرانی کا رعب و دبدبہ ڈالتے ہوئے ہی، مختلف عالمی حکومتوں کو طالبانی افغانی حکومت کو تسلیم کرنے سے مانع رکھا ہوا تھا۔ اور بالآخر اپنے ہی خود ساختہ 9/11 حملہ میں اپنے ہی دو ہزارانسانوں کو ٹوین ٹاور حملہ میں مار کر، اس کا الزام القاعدہ سربراہ اسامہ بن لادن کر سر ڈالتے ہوئے،اسامہ کے جائے پناہ افغانستان پر بڑے عالمی 54 ملکوں کی مشترکہ افواج کے ساتھ یلغار کرتے ہوئے، پہلی طالبانی افغان حکومت کو ختم کیا تھا
عالمی یہود و ھنود و نصاری سازش کنندگان نے اپنے طور اپنےمکر و فریب سے عالم کے نقشہ پر وجود پانے والی پہلی طالبانی افغانی حکومت کو ختم کردیا تھا لیکن خالق و مالک کائینات کی منشاء کچھ اور ہی تھی۔اور اللہ رب العزت کے قرآن مجید کی سورہ آل عمران آیت نمبر 54 “وَمَكَرُواْ وَمَكَرَ ٱللَّهُ ۖ وَٱللَّهُ خَيْرُ ٱلْمَٰكِرِينَ” میں بتائے جیسا، “اور انہوں نے مکر و تدبیر کی اور اللہ نے تدبیر کی، اور اللہ بہترین تدبیر کرنے والوں میں سے ہے” جس سو سالہ عقد لوزان میں جکڑے سکوت خلافت عثمانیہ کا خاتمہ گیا تھا اس پر سو سال ختم ہونے سے دو ایک سال قبل ہی، جدت پسند حربی آلات بمبار طیاروں، لاسلکی دور مار میزائیل اور لاسلکی تابع ڈرون سازوں کی بہتات کے ہوتے ہوئے بھی، عالمی طاقتوں کے جبڑوں میں پھنسے افغانستان کو جدت پسند عصری حربی مہارت سے ماورا، پھر ایک مرتبہ انہی افغانی طالبانیوں کے ہاتھوں آزاد کرواتے ہوئے،صحیح اسلامی شریعت والی امارت اسلامیہ کے قیام کا شرف بخشا ہے

“وَتُعِزُّ مَن تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَآءُ ۖ بِيَدِكَ ٱلْخَيْرُ ۖ ” ترجمہ “تم جس کو چاہو بلند کرو اور جسے چاہو ذلیل کرو۔” عالمی طاقت امریکہ و اسکے حواری تمام ممالک چاہیں کسی کو بھی رسواء و ذلیل کرنا چاہیں لیکن اللہ جسے عزت بخشنا چاہے تو کون اسے روک سکے ہے؟ کیونکہ اسی کے ہاتھ میں دونوں جہان کی حکومت ہے

دراصل یہ موجودہ افغانستان کے حکمران اپنے آپ کو دیوبندی مکتبہ فکر کے طالبان جو کہلاتے ہیں کہیں نہ کہیں اپنے جدی پشتی اساتذہ کرام حضرت مولانا عبیداللہ سندھی علیہ الرحمہ اور حضرت مولانا محمد میاں انصاری علیہ الرحمہ سے اپنی عقیدت کی خاطر چمنستان بھارت کو بھی عزت دیتے پائے جاتے ہیں۔ اپنے پہلے دور حکومت دوران بھی پاکستانی شدت پسند مولانا اظہر مسعود کو بھارتیہ جیل سے آزاد کرانے انڈیں ہوائی جہاز جو اغواکرکابل ایرپورٹ پر اتارا گیا تھا اسوقت اٹل بہاری واجپائی کے شدت پسند سنگھی دور حکومت میں بھی 1999 انہی طالبانیوں نے حکومت ھند کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے اس وقت جہاز پر سوار تمام مسافروں کو بخیر و عافیت اغوا کنندگان سے آزاد کراتے ہوئے، بھارت بھیجنے میں ہر ممکنہ مدد وتعاون کیا تھا۔

اب اس 20 سالہ امریکی نرغے سے افغانستان آزاد کراتے جدوجہد والے دور میں، بھارتیہ حکومت کے امریکی اشاروں پر ان طالبانی جنگجوؤں کو زک و نقصان پہنچاتے پس منظر اور 20 سالہ جنگ کے خاتمہ کے لئے دوحہ قطر میں امریکہ و افغان طالبان کے درمیان امن معاہدہ ہونے کے باوجود، امریکی کٹھ پتلی غنی حکومت کو دی جانے والی عسکری مدد خصوص قندھار ایرہورٹ سے سفارتی عملہ کو واپس لانے جہاز بھیجنے کے بہانے کثیر مقدار گولی بارود جہاز بھر کر بھیجنے کے مودی سرکار کے عمل نے، اور طالبان کے کابل فتح بعد بھی،افغانستان کے پنچ سیر صوبہ کہ سربراہ احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود پر تکیہ کر، اور بقول بھارتیہ سابق ملٹری آفیسر اور یوٹیوبر گورؤ آریہ کے، اس اعلانیہ کے در پردہ حربی و مالی مدد و نصرت دیتے ہوئے،

طالبانی مرکزی افغانی حکومت کو زک پہنچانے کی مودی حکومت کی حکمت عملی بھی، اب احمد مسعود کے طالبان کے درمیان خون ریزجنگ بعد، وادی پنج شیر فتح کئے جانے اور صد فیصد افغانستان پر طالبان کا کنٹرول حاصل ہوجائے کے بعد، طالبان بھارت تعلقات میں کشیدگی برقرار باقی رہ سکتی ہےاور ایک حد تک موجودہ طالبان حکمران کو برگشتہ ضرور کئے رکھ سکتی ہے۔ لیکن آج بھی بھارت کی مودی سرکار خلوص نیت کے ساتھ، اب کی موجودہ طالبانی حکمران سے گفت و شنید و امن معاہدہ کرنےمیں کامیاب رہتے ہیں تو یقینا طالبان حکمران جو اپنی زبان کے پکے ہونے کے معاملے میں عالم میں اپنی لازوال مثال قائم کر چکے ہیں،

اور اپنے ہر دشمن کو عام معافی دینے کے تناظر میں،یقینا بھارت میں موجود انکے جدی پشتی اساتذہ کرام کے دینی مدرسہ دار العلوم دیوبند ہی کی خاطر، بھارت سے امن قائم کرنے کا عہد طالبان کرسکتے ہیں۔ اس سمت طالبان سے امن معاہدہ کروانے بھارتیہ حکومت دارالعلوم دیوبند کے ذمہ دار حضرت مولانا ارشد مدنی کو بھارت کے امن دود یا سفیر کے طور بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ چائینا کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے کہ کس طرح اس نے طالبان سے اپنی مدد کے بدلے امن معاہدہ کرتے ہوئے ،اپنے مسلم علاقے زنجیانگ کے مسئلہ پر افغان طالبان کی ہم نوائی حاصل کی ہے اور 20 سال لمبی جنگ لڑنے والے امریکہ و یورپی ممالک نے در پردہ طالبان سے بات چیت کے ذریعہ کیسے اپنے موجودہ مسائل حل کر لئے ہیں۔ہم امن پسند بھارتیہ شہری ہونے کے ناطے ہماری بھارتیہ حکومت کو اچھا مشورہ دے سکتے ہیں۔لیکن ایک منتخب جمہوری حکومت ہونے کے ناطے کس ملک سے کیسے تعلقات استوار رکھنے حتمی فیصلہ کرنے کا تمام تر حق موجودہ بھارتیہ سنگھی مودی حکومت کو ہی حاصل ہے

۔اور بھارتیہ سنگھی مودی حکومت بھارت کے مستقبل کے مفاد کے پیش نظرجوبھی فیصلہ مستقبل میں لیتی ہے امن پسند شہری ہونے کے ناطے ہم حکومتی فیصلے کے ساتھ ہیں۔ ایک بات جو ہماری سمجھ سے بالاتر ہے افغان سرزمین پر 2001 سے پہلے تک طالبان کا نہ صرف قبضہ تھا بلکہ ان کی تمام تر جرائم سے پاک پرامن حکومت بھی تھی ایک مفروضہ 9/11 دہشت گردانہ سازش کے تحت اس طالبانی حکومت کو نیست و نابود کردیا گیا تھا اور اب 20 لمبے سال تک طالبان عالمی افواج سے لڑ کر انہیں شکشت فاش دے عالمی امن عقد کے ساتھ جب وہ دوبارہ فتح کابل کی صورت افغانستان پر حکومت کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں فلسطین پر غاصب اسرائلی افواج کو جب نہ صرف عالمی سطح پر قبول کیا گیا ہے وہیں پر ایک جنگ جیتی ہوئی طالبانی فوج کو عالمی طاقتوں کا قبول نہ کرنا کہیں نہ کہیں ان یہود و ہنود و نصاری عالمی طاقتوں کا، مسلمان یا اسلامی دشمنی ہی قرار دی جاسکتا ہے واللہ الموافق بالتوفیق الا باللہ۔

طالبان صحیح یا غلط یہ مستقبل طے کرے گا، جو لوگ ان کو دارالعلوم سے جوڑ رہے ہیں وہ صحیح نہیں: مولانا ارشد مدنی
https://urdu.millattimes.com/archives/73941

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں