ملاوٹ مافیا پر ہاتھ کون ڈالے گا؟ 320

ملاوٹ مافیا پر ہاتھ کون ڈالے گا؟

ملاوٹ مافیا پر ہاتھ کون ڈالے گا؟

سچ /عبدالجبار گجر
محکمہ صحت راشی فوڈ انسپکٹروں کی کرپشن‘کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اندرون شہرلیہ ملاوٹ مافیا کا راج ملاوٹ شدہ اشیائے خوردونوش کے استعمال سے شہری خوفناک بیماریوں میں مبتلا ہونے لگیہیں۔ تمام فوڈ انسپکٹرز نے ضلع شہر بھر میں کھانے پینے والی دوکانوں برگر فوڈ پوانٹس‘ہوٹلوں‘چائے کی دوکانوں دودھ‘دہی‘مٹھائیاں‘بیکری کا سامان بنانے اور بیچنے والے دوکانداروں سے منتھلیاں طے کر رکھی ہیں۔ جبکہ عرصہ دراز سے فوڈ سمپلنگ بند کر کے ماہانہ لاکھوں اور سالانہ کروڑوں روپے رشوت وصول کر کے ملاوٹ خوروں کو ملاوٹ کا زہر ملانے کی کھلی چھٹیملی ہوئی ہے۔ جس سے شہری گیسٹرو‘ہیضہ‘پیلے‘کالے یرقان‘شوگر‘ہارٹ اٹیک‘کینسر‘دمہ‘ٹی وی و دیگر بیماریوں میں مبتلا ہو کر ہسپتالوں میں پہنچ رہے ہیں

انسانی حقوق تنظیموں نے سخت تشویش کا اظہارکیا ہے۔ جبکہ متاثرہ عوام سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔اگست میں حکومت کی طرف سے یہ خوشخبری سننے کو ملی کہ ملاوٹ مافیا کی اب عدالت سے ضمانت نہیں ہوگی جبکہ پنجاب فوڈ اتھارٹی نے ملاوٹ مافیا کے خلاف گرینڈ آپریشن کا فیصلہ کیا، اشیائے خوردونوش میں ملاوٹ کرنے والوں کی نشاندہی کرنے والوں کو 5لاکھ روپے تک کا انعام دینے کی سفارش کی گئی،لیہ کے عوام جانتے ہیں کہ دودھ، مکھن، دیسی گھی، چائے کی پتی، آئس کریم، کیچپ، اچار، ہلدی، سرخ مرچ اور دیگر مصالحہ جات میں ملاوٹ کرنے والوں کے خلاف بھرپور کارروائی کی ضرورت اک عرصہ سے محسوس کی جارہی ہے دودھ اور مرچ مصالحوں کے بعد ملاوٹ مافیا نے شہد کو بھی نہ بخشا۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی نے لاہور میں، شہد میں ملاوٹ کرنے والی 3 فیکٹریاں سربمہر کر دیں۔ ایک ہزار کلو سے زائد جعلی شہد بھی وہاں سے پکڑا گیا۔
جعلی اور دو نمبر ادویات اور دیگرا شیائے خور دونوش تیار کرنے والے ہوں یا ملاوٹ زدہ چیزیں فروخت کرنیوالے یہ سبھی معاشرے کے ناسور اور خون چوسنے والی جونکیں (blood suckers of society) ہیں۔یہ مافیاز اول نمبر کے دہشت گردہیں۔جو معاشی دہشت گردی کے علمبردار ہوتے ہوئے عملاً خفیہ کمین گاہوں سے ہر طرف حملہ آور او ر انسانی جانوں سے کھیل رہے ہیں۔ عملاً دولت ان کے گھر کی لونڈیابن کرانھیں اربوں روپوں میں کھیلاتی ہے ان کی دیکھا دیکھی معاشرہ کے لالچی افرادانسانی دہشت گردیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ملاوٹ مافیا کی زہریلی اشیاء کی فروختگی سے پورے معاشرہ میں بیماریاں تیزی سے پھیلتی اور لوگ اسے کھا کھا کر اگلے جہاں کو سدھار رہے ہیں۔ایسے واقعات میں تو بیسیوں آدمی زہر آلود اشیاء، مٹھائیاں وغیرہ کھا کر اور زہریلی شرابیں، پی کرلقمہ اجل بن چکے ہیں۔ ان ناسوروں پر مقدمات کا اندراج،تفتیش،مقدمہ کی تکمیل،چالان مرتب کرکے عدالت کو بھجوانا جیسے مراحل ایسے ہیں کہ جتنا مال لگاؤ گے رنگ چوکھا آتا جائے گا

۔کیسا ہی بڑا جرم سرزد ہو جائے اور میڈیا لاکھ پیٹتا رہے اس کی کھل کر وضاحتیں پیش کرے ملزم کو الف ننگا کرڈالے مگر پو لیس نظام اوربیورو کریسی کی چالیں اور ڈھنگ ایسے ہیں کہ رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ملزم بھی باعزت بری ہو جاتے ہیں۔مگر یہ ہے کہ پو لیس سرکار،کرپٹ بیورو کریسی اور کچہریوں کے کار پردازوں کی چاندی ہو جاتی ہے اور مظلوم شخص لاکھ گواہیاں پیش کرتا رہے سر پیٹ لے۔خواہ اپنا سارا جھگا تک ہی کیوں نہ لٹا ڈالے اس کا کچھ نہیں بننے والا۔اب گھی کو لے لیں تو ایک برانڈڈالڈا نامی شروع ہوا تھا اب درجنوں بناسپتی بازار میں سستے ناموں موجود ہیں۔ نکل دھات جو گھی بنانے کے لیے بطور عمل انگیز (catalyst) استعمال ہوتی ہے۔اسے گھی سے دوبارہ نکالنے کے لیے بہت ہی زیادہ توانائی خرچ ہوتی ہے۔

نئے گھی بنانے والے اسے نکالنے کاتردد کیوں کریں۔ان کا گھی اسی طرح ذرا سستے داموں بک جاتا ہے اب انسانوں کے پیٹ میں یہ دھات جمع ہوتی جاتی ہے اندر سے چبھتی اور معدہ کی اندرونی جلد کو کاٹ کر السر بناڈالتی ہے۔اسی لیے آجکل پیٹ کی بیماریاں بھوک کا خاتمہ، ابکائیاں محسوس ہو نا پیٹ بھرا بھرارہنا عام ہیں۔جعلی شہد تیار کرنے والے گڑ کا مکسچر تیار کر کے مارکیٹوں میں پھینک ڈالتے ہیں۔سرخ مرچ تو شاید ہی کہیں سے خالص مل سکے۔اس میں ہمیشہ ہی اینٹیں پسی ہوئی ملتی ہیں ادویات خصوصاً جان بچانے والی جعلی تیار کرکے مہنگے داموں بکتی ہیں۔ اور بیماری کے تدارک کے لیے ان کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ہمارے سارے شربت برانڈڈ کمپنیوں کے تیار کردہ کم اور جعلی دو نمبر زیادہ بک رہے ہیں۔گدھوں کا گوشت تک بک چکا اور عوام کہتی ہے کہ شاید یہ ڈرامہ حکومتی کار پرزادوں کا ہی ہے کہ لوگ نفرت کرکے گوشت کی خریداری کم اور مرغی زیادہ خریدیں کہ اس کاروبار پر شریفوں اور ان کے رشتہ داروں کی ہی اجارا داری ہے وزیر خزانہ نے یہ کہہ کر کہ دال سبزی مہنگی ہے

تو مرغی کھائیں اس امرکا خود ہی عملاً ثبوت دے ڈالاہے۔کئی سال قبل کتا ذبح کرتے ہوئے بھی قصائی پکڑے گئے تھے۔ جعلی مال تیار کرنے والے ذلیل اور کمینہ ترین افراد دوکانداروں کو کم قیمت پر فروخت کرتے ہیں دوکاندار زیادہ منافع کے لالچ میں دو نمبر کام کرنے والوں کے معاون بنے ہوئے ہیں۔چائے تو مختلف قسم کی اشیاء ملاکر سر عام بن اور بک رہی ہے۔ چونکہ یہ معاشرہ کا بڑ ا مشروب ہے اسلئے اس کے تاجر اورصنعتکار تو سالوں میں کئی دوسری فیکٹریاں لگانے اورہزاروں ایکٹر زرعی زمین خریدنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ مصالحہ جات تو مختلف اشیاء ڈالنے کے بعد پیس کر کھلے عام خوبصورت پیکٹوں میں بکتے ہیں۔

روزمرہ استعمال کی بوتلیں ہر کمپنی کی ہرتحصیل ہیڈ کوارٹر پر آٹھ دس فیکٹریوں میں بن اور بک رہی ہیں آخر یہ سارا سلسلہ کیسے چل رہا ہے۔حکومتی کار پردازوں کو ایسے غلیظ ترین کاروبار نظر نہیں آتے اور پولیس بیورو کریسی، ممبران اسمبلی،وزراء آنکھیں کیوں بند کیے ہوئے ہیں؟ان سبھی کوایسی تمام خفیہ کمین گاہوں کا پتہ بھی ہوتاہے اور آنکھ بھی سبھی دیکھتی ہے مگر آنکھوں پر نوٹوں کی پٹیاں چڑھی ہوئی ہیں۔اور تمام جعلی اور ملاوٹ شدہ اشیاء کے ڈھیروں منافعوں کا 50فیصد مقتدر سیاسی افراد، پولیس،کرپٹ بیورو کریسی کو بطور نذرانہ پیش ہوتا رہتا ہے اور مقامی کرپشن کے غلیظ جو ہڑ میں ڈبکیاں لگاتے ہوئے

افراد حصہ بقدر جسہ اوپرتک اپنی”ایمانداری”سے پہنچاتے رہتے ہیں اسلئے یہ سبھی کاروبار عملاً رواں دواں ہیں۔اور کھلے عام ہوتے دیکھ کر بھی انکا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم یہ سب کچھ زہریلا ملاوٹ شدہ مال کھائے پیئے جارہے ہیں اور فوراً مرتے نہیں یہ ویسا ہی ہے کہ جعلی موبل آئل ڈال کر گاڑی کاا نجن ایک ہی دن میں خراب نہیں ہو جاتا۔بیعنہہ ہم آہستہ آہستہ مختلف بیماریوں کا شکار ہو کر جعلی عطائیوں اور ڈاکٹروں کو بھاری فیسیں ادا کر رہے ہیں۔ایسی ملاوٹ شدہ اشیاء کھا کر آجکل کام کرنے میں دل نہیں لگتا، پیدل چلنا محال ہے، اسائش پسند ہوتے جارہے ہیں کوئی محنت مشقت کے قابل نہیں رہے۔ملاوٹ مافیا سانپ ہمیں روز ڈنگ مارتے ہیں اور وہ خود اور انکی پرورش کرنے والے اہم سیٹوں اور اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں تو ان کو کوئی کیسے پکڑ یا پکڑواسکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں