جنگ بدر کے 313 سپاہی اور افغان 313 بدری کمانڈو 192

احکام خدا وندی میں سے،بعض کو لئے، بعض کو چھوڑنے والے ہم مسلمان

احکام خدا وندی میں سے،بعض کو لئے، بعض کو چھوڑنے والے ہم مسلمان

تحریر: نقش نائطی
۔ +966504960485

یہودیوں کے ایجاد کردہ واٹس آپ سے اجتناب کرنے کا کہنے والے علماء کرام، کیوں کر یہودیوں کے ایجاد کردہ فون و موبائل و انٹرنیٹ سےاستفادہ حاصل کر رہے ہیں؟ ان یہودیوں کے ایجاد کردہ دوائیاں کھا کھاکر، مختلف اسقام و بیماریوں سے صحت یاب کیوں کر ہو رہے ہیں؟ نبی آخر الزمان محمد مصطفی صلی اللہ نے تو کبھی یہودیوں کی بنائی چیزوں سے استفادہ سے ہم مسلمانوں کو منع نہیں فرمایا تھا! بلکہ مسلمانوں کے جھوٹے کھانے کو شفا اور کفار کے جھوٹے کھانے تک کو جائز قرار دیتے ہوئے

صرف اور صرف دینی راہ میں، ہمیں انکے نقش قدم پر چلنے سے منع کیا تھا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ وعلیہ وسلم کی پیشین گوئی کے عین مصداق، بعینہ یہود کی طرز پر، ہم مسلمانوں نے،خصوصا ہمارے علماء کرام نے، اپنے آپ، علماء کرام کو نبیوں کے مقام متمیز پر براجمان کرتے ہوئے، ہمیں پکے جامد مقلد شافعی و حنفی بناتے ہوئے، ہم مسلمانوں ہی کو چار سے چالیس فرقوں میں بانٹتے ہوئے،

ایک دوسرے کو کافر کافر کہتے جینے کی راہ پر ہمیں گامزن کئے ہوئے، ھندو برہمنوں کے طرز دین کے نام سے دنیوی من سلوی ہڑپ کئے جئے جارہے ہیں۔ اوپر سے گاہے بگاہے علماء کرام کے احترام کے بہانے سے اپنے مسند اعلی کو محفوظ کئے بھی رکھے رہتے ہیں۔کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم انکے صحابہ رضوان اللہ اجمعین، تابعین ، تبع تابعین، میں سے کوئی حنفی شافعی مالکی حنبلی بھی تھے؟ یا دیوبندی ندوی بریلوی بھی تھے؟ وہ تو سب کے سب مسلمان تھے لیکن آج کے ہم مسلمان شافعی حنفی جامد مقلد جو کہتے فخر محسوس کرتے ہیں ہمیں اس کی فکر بھی نہیں رہتی کہ ہم حنفی شافعی جامد مقلد رہتے مسلمان بھی باقی بچے رہتے ہیں یا نہیں؟

آپ صلی اللہ وعلیہ وسلم نے ان پر اتری آیت کریمہ،”اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ”، “خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ” ترجمہ “اپنے رب کے نام سے پڑھو” جس نے پیدا کیا، “اس نے انسان کو خون کے جمنے سے پیدا کیا۔” بھی ہمیں بتاتے ہوئے، قرآنی تعلیمات کی روشنی میں، دنیوی سائینس کی مدد سے اسرار و رموز عالم،ارض و سماوات، بر و بحر و بیابان و صحرا، شجر و ھجر، حل کرنے کی بھی تو ہمیں ہدایت دی تھی۔ اور جب تک ہمارے جد امجد اس پر عمل پیرا رہے، ہم عالم پر حکمرانی کرتے پائے گئے تھے۔

ہمیں پتہ ہونا چاہئیے، کہ ابتدائی زندگی اسلام کے 800 سو لمبے سال تک قرآن کی روشنی میں علوم دنیا، ارض و سماوات پر تحقیق و جستجو سے، عالم کی انسانیت کو نت نئی چیزیں ایجاد کر ہم مسلمانوں ہی نے عالم کو دی تھیں۔ ہم مسلمانوں نے ہی، سب سے پہلے خلاء و شمش و قمر پر کمندیں ڈالی تھیں، ہم نے ہی عالم کو تاریخ و جغرافیہ کے فن سے روشناس کیا تھا۔ ہم نے بحری سفر کو مسخر کرتے ہوئے براستہ بحر عالم کے کونے کونے تک تجارت قائم کی تھی۔ کیا ہم وہ اپنی تابناک تاریخ بھول گئے، ہمارے ہی وہ اسلاف تھے جنہوں نے اپنے جنگی بیڑے کو یورپ کے ساحلوں پر لنگر اندازکر، سرزمین یورپ کو دین اسلام کے لئے مسخر کیا تھا۔

آج ہم جدت پسندی کی انکی راہ پر نہیں، بلکہ وہ ہمارے اسلاف ہمارے جد امجد کے یا قرون اولی کی سلف و صالحین کے، قرآن کی روشنی میں دنیا مسخر کرنے کے علم پر، ہماری نقل کرتے ہوئے ، دنیا پر قابض بنے بیٹھے ہیں۔ ہم نے تو قرآن کو “وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلا” اور (صرف) تلاوت قرآن کے ساتھ زندگی بتانا ضروری سمجھتے ہوئے، قرآن پر تدبر و تفکر کرنا چھوڑ دیا ہے جب کے دین اسلام کے منکر یہی وہ یہود و نصاری ہیں جنہوں نے قرآن کے تراجم پر بھروسہ کرنے کے بجائے، عربی زبان پر عبور حاصل کرتے ہوئے،

براہ راست آیات قرآنی پر تدبر و تفکر کرتے ہوئے، علوم عصر حاضر پر مہارت حاصل کرتے ہوئے، عالم پر حکمرانی کررہے ہیں۔ آج جس علم و سائینس کو قرآن کی کسوٹی پر پرکھنا ہم مسلمانوں نے چھوڑ دیا ہے، کفار و مشرکین نے اسے گلے لگالیا ہے۔ آللہ کے رسول صلی اللہ وعلیہ وسلم کے وقت کے صرف سود خور بنئے، یہود آج سائینسی علم حاصل کئے دنیا مسخر کرنے میں مست و مصروف ہیں۔ اور ہم مسلمان جنت کے حصول کے چکر میں، اپنے مطلب کی باتوں کو لیتے ہوئے، اصل دنیا مسخر کرنے کے عمل کو ہم نے چھوڑا ہوا ہے اور جب تک ہم اللہ کے رسول صلی اللہ وعلیہ وسلم کی بتائے تمام تر احکامات پر عمل پیرا نہیں رہیں گے تب تک ہم یہود وہنود و نصاری کے آگے ذلیل ورسوا ہوئے، جینے پر مجبور کئے جاتے رہیں گے

آج بھی ہم چاہیں تو دنیا کو دنیوی علوم ہی سے مسخر کرسکتے ہیں۔ہم مسلمانوں سے صرف نماز روزے کے اعمال ہی کروانے ہوتے تو، رب دو جہاں کی حمد و ثناء کرنے والے فرشتوں کی کیا کمی تھی خالق کائینات کے پاس؟ کیا وہ رب و دو جہاں،اللہ کے رسول صلی اللہ و علیہ وسلم کو، بعدنبوت 23 سالا زندگی کے زیادہ تر دن کفار مکہ کے نشانہ اذیت پر رکھ یا مختلف حرب و غزوات میں مشغول رکھ مشقت والی زندگانی جینے پرمجبور کیوں کر کیا ہوتا؟ کیا اللہ رب العزت چاہتے تو اپنے نبی سلیمان علیہ السلام کی طرح جن و انسان پر حاکم بنا،اپنے محبوب نبی محمد مصطفی صلی اللہ وعلیہ وسلم کو، بن مانگے،

بن طلب کئے سردار قریش بنا دنیوی عیش و عشرت کے مزے چکھتے ہوئے، دین اسلام کا کام ان سے نہیں لے سکتے تھے؟ محمد رسول اللہ کی اتنی آزمائشیں لینے کا آخر کیا مطلب تھا؟ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ وعلیہ وسلم کی بیشتر مشقت والی زندگیوں کو بھول کر، صرف ان کے سجدوں کے گرویدہ بنے، صرف ان نفل سجدوں ہی سے،دنیا ہی میں رہتے آخرت کو مسخر کرنے ہی میں مشغول پائے جاتے ہیں۔کیا دنیوی زندگانی میں کسی دنیادار کے یہاں روزگار پر رہتے،اپنے مالک ارضی کے کچھ احکامات پر عمل آوری، اور کچھ اعمال سے روگردانی کی ہمت ہم کیا کر پاتے ہیں؟ پھر کیوں ہم نے اسلامی احکامات میں سے، اپنے لئے بعض کو نہ صرف چن لیا

اور بہت سے اعمال سے انکار کئے، دین ہی کے نام سے، اللہ کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے،بعض فرضی اعمال کو دین ہی کے نام سے وضع کئے، مختلف اقسام کے شرک و بدعات کو کئے جارہے ہیں۔ یاد رکھئے دین اسلام میں بدنی اعمال سے زیادہ تفکری رجحان زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ کوئی شخص اپنے دنیوی مالک سے بغاوت والے رجحان کو اپنے میں تقویت دیتے، صرف بعض حکم مالک بجا لاتے، مالک ارضی کی مکمل رضا حاصل نہیں کرسکتا،بالکل اسی طرح مشیت رب دوجہاں کو درکنار کر، صرف ذکر و اذکار و نفل نمازوں کے بل پر، اللہ رب العزت کو بھی راضی نہیں کیا جاسکتا ہے ۔وما علینا الی البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں