’’پنجاب پولیس ، احتجاج کی کال اور انتقامی کارروائیاں‘‘ 169

’’پنجاب پولیس ، احتجاج کی کال اور انتقامی کارروائیاں‘‘

’’پنجاب پولیس ، احتجاج کی کال اور انتقامی کارروائیاں‘‘

تحریر: اکرم عامر سرگودھا
فون: 03008600610
وٹس ایپ: 03063241100

پاکستان کے دیگر صوبوں کی نسبت پنجاب میں پولیس ملازمین کی اکثریت تذبذب کا شکار ہے، جس کی اصل وجہ صوبائی پولیس سروس کے کانسٹیبل سے ایس پی عہدہ تک کے ملازمین کی ترقیوں میں ایک حکم نامہ کے ذریعے پی ایس پی افسران کے لئے لگایا جانے والا کٹ ہے، اس طرح صوبائی پولیس سروس کے رینکر ملازمین کی حق تلفی کر کے پی ایس پی افسران کو نوازا جا رہا ہے،

پی ایس پی پولیس افسروں کی غیر قانونی پالیسیوں سے تنگ آ کر رینکر کانسٹیبل سے ایس پی تک کے افسران نے علم بغاوت بلند کیا ہے۔ اور 12 ستمبر 2021ء کو یہ متاثرہ پولیس ملازمین پنجاب بھر سے پریس کلب لاہور کے سامنے اپنے حق کیلئے دھرنا دینے جا رہے ہیں، قانون نافذ کرنے والے ادارے کے ملازمین کی جانب سے شاید یہ پہلا اجتماعی احتجاج ہو گا جو رینکر پولیس ملازمین اپنے حقوق کیلئے کریں گے، احتجاج کے پس منظر میں حقائق کچھ یوں ہیں کہ پولیس میں ترقی کے نظام میں بہت سی قباحتیں ہیں، صوبائی پولیس سروس کے ملازمین کی ترقیوںکا 20 فیصد کوٹہ سی ایس پیز کو دے دیا گیا،

جس سے رینکر ملازمین کی ترقیوں کے مواقع محدود ہو کر رہ گئے ہیں، اسی بناء پر پروبیشنز بیج 2009ء کے اے ایس آئیز نے 12 ستمبر کو شملہ پہاڑی کے سامنے تنگ آ کر احتجاج کرنے کی کال دی ہے، کیونکہ قبل ازیں وہ یہ مسئلہ پنجاب کے تمام متعلقہ فورمز پر اٹھا چکے ہیں کہ پولیس آرڈر 2013ء میں تبدیلی کی جائے اور ڈائریکٹ سب انسپکٹرز کی بھرتی بند کی جائے اور 2009ء کے بیج کو ترقی دے کر سب انسپکٹر بنایا جائے، مگر کسی فورم پر انہیں انصاف نہیں ملا، 13 سال گزرنے کے باوجود یہ لوگ اے ایس آئی کے عہدہ پر ہی کام کر رہے ہیں، جبکہ پولیس رولز کے مطابق ان کی اگلی ترقی 3 سال بعد ہونا لازمی تھی،

اب نئے ٹی ایس آئی بھرتی کر لئے گئے ہیں، جس کی وجہ سے ان اے ایس آئیز کی اگلے رینک میں ترقی مشکل اور نا ممکن نظر آ رہی ہے۔اسی بناء پر 2009 سے 2017 تک مختلف موقعوں پر بھرتی ہونے والے اے ایس آئیز نے اس پالیسی سے تنگ آ کر آخر کار احتجاج کا راستہ اپنایا ہے؟ اور ان کا احتجاج کسی صورت بھی غیر قانونی، غیر اخلاقی، یا خلاف ڈسپلن نہیں؟ نیز یہ کہ اپنے حق کیلئے آواز اٹھانا ہر فرد، ادارے کے ملازم کا جمہوری حق ہے اور اس جمہوری حق کو پنجاب پولیس کے متاثرہ ملازمین استعمال کرنے جا رہے ہیں؟ اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ پنجاب پولیس کے رینکرز کی جانب سے کیا جانے والا یہ پہلا احتجاج بھرپور ہو گا جس میں رینکرز کی بڑی تعداد پنجاب بھر سے شرکت کرے گی۔
یہاں یہ توجہ دلانا بھی ضروری ہے

کہ پی ایس پی افسران کی ترقی تین سے چار سال کے دوران اگلے عہدہ پر ہو جاتی ہے، 2009ء میں جو اے ایس پی بھرتی ہوئے تھے وہ سب اب اس وقت کسی نہ کسی ضلع میں ڈی پی او یا ایس ایس پی لگے ہوئے ہیں، جبکہ رینکر ایس پی کئی کئی سال سے اب تک ایس پی کے عہدہ پر ہی کام کر رہے ہیں، کیونکہ ان کی ترقیوں کا کوٹہ پہلے ہی کم کر کے پی ایس پیز کو دے دیا گیا ہے۔اس بناء پر اب پنجاب پولیس میں صورتحال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ گزشتہ چند ماہ سے پنجاب پولیس میں پروفیشنل مینجمنٹ سروس (پی ایم ایس) اور صوبائی پولیس سروس میں بھی محاذ آرائی کی سی کیفیت دیکھنے میں آ رہی ہے،

دیکھا جائے تو حقائق اور حالات کے مطابق صوبائی پولیس سروس رینکر کے مطالبات جائز ہیں، اسی بناء پر چند روز قبل ایس پی عہدہ کے 43 پولیس افسران نے پولیس سروس آف پاکستان پی ایس پی کیڈر میں شامل ہونے سے انکار کیا تھا، یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا تھا جب آئی جی پنجاب کی جانب سے پنجاب کے ایڈیشنل آئی جیز، آر پی اوز، ڈی آئی جیز کو ہدایت کی گئی کہ وہ صوبائی پولیس سروس کے گریڈ 18 کے ایس پی عہدہ کے پی ایس پی کیڈر حاصل کرنے کے خواہشمند افسران بارے آئی جی آفس کو آگاہ کریں۔

جسکے جواب میں 43 ایس پیز نے آئی جی پنجاب کے جاری کردہ اس پلان کو مسترد کرتے ہوئے نا مناسب اور امتیازی قرار دیتے ہوئے وفاقی سروس کے افسران کے ماتحت کام کرنے کو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دے دیا تھا، اور صوبائی پولیس سروس کے ایس پیز نے واضح کیا کہ پولیس آرڈر 2002ء کے نفاذ سے قبل کانسٹیبل سے اے ایس آئی، سب انسپکٹر، انسپکٹر تک بھرتی ہونے والے پولیس ملازم گریڈ 20 اور 21 تک ترقی پاتے رہے ہیں لیکن مستقبل میں ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا؟ در حقیقت صوبائی پولیس افسران کی بات سچ اور درست نظر آتی ہے، وفاقی حکومت کے قانون اپنی جگہ لیکن وفاق کے سول سرونٹ ایکٹ 1973ء اور پنجاب سول سرونٹ ایکٹ 1974ء میں Encadrement کا کہیں کوئی واضح ذکر نہیں ہے۔

آئین کے مطابق چونکہ رولز ایکٹ کے ماتحت ہوتے ہیں اس لئے رولز کی اہمیت نہیں ہوتی۔ جس کی وجہ سے Encadrement نہیں ہو سکتی۔ 18ہویں ترمیم سے قبل وفاق نے قانون سازی کی تھی جس میں لاء اینڈ آرڈر بھی آتا تھا۔ 18 ہویں ترمیم کے بعد کنکرنٹ لسٹ کے خاتمہ سے وفاقی حکومت کی طرف سے کی گئی قانون سازی بھی ختم ہو گئی تھی جس کے بعد سے پرانا سسٹم چل رہا تھا۔ اس طرح حقیقت تو یہ ہے کہ صوبائی پولیس سروس کے افسران کی سنیارٹی لسٹیں صوبہ کو ہی بنانی چاہئیں،

ورنہ صوبائی پولیس سروس کے رینکرز کی نا قابل تلافی حق تلفی ہو گی۔ کیونکہ اگر ان افسران کی ترقیوں کی لسٹیں وفاق بنائے تو سول سروس آف پاکستان اور پولیس سروس آف پاکستان کے مقابلے میں صوبائی سروس کے افسران کی سنیارٹی نیچے آ جاتی ہے۔ جس سے ان کی ترقی کا موقع ختم ہو کر رہ جاتا ہے۔کپتان جی آپ ملک کے وزیر اعظم ہیں اور فوج کے بعد پولیس امن و امان کے قیام اور جرائم پیشہ عناصر سے نمٹنے کیلئے بھرپور کردار ادا کرتی ہے۔ لیکن دوسروں کو انصاف دلانے والے پنجاب پولیس کے رینکرز کانسٹیبل سے ایس پیز تک خود اپنے حق حاصل کرنے کیلئے انصاف کے منتظر ہیں۔ آخر انہیں انصاف کون فراہم کرے گا؟ عرصہ سے یہ ملازمین اور افسران اپنے جائز حقوق حاصل کرنے کیلئے جستجو کر رہے ہیں

اور پنجاب کا کوئی ایسا فورم ان افسران نے نہیں چھوڑا جہاں جا کر انہوں نے اپنا حق نہ مانگا ہو لیکن انہیں انکا حق نہیں دیا گیا اور پی ایس پی کو ترجیح دی گئی شاید پی ایس پی نوری مخلوق ہے۔ اگر رینکر کانسٹیبل سے افسران تک کو ان کا حق دے دیا جاتا تو قانون کے یہ محافظ کبھی شملہ پہاڑی کے سامنے احتجاج کی کال نہ دیتے۔ کپتان جی اب بھی سوچئے اور پنجاب پولیس میں رینکر کے مسائل کے حل کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیجئے اور رینکرز کی جنگ لرنے والوں کیخلاف انتقامی کارروائیاں بند کروائی جائیں،

کیونکہ رینکر کی آواز بلند کرنے والے ایک ماہ قبل تعینات ہونے والے ایس پی انویسٹی گیشن شیخوپورہ کو انتقامی طور پر جنوبی پنجاب تبدیل کر دیا گیا ہے، کپتان جی اپنے حق کیلئے آواز بلند کرنے والوں کیخلاف انتقامی کارروائیاں کرنا جمہوری حکومتوں کا شیوہ نہیں، بلکہ ایسا تو ڈکٹیٹر کی حکومت میں ہوتا ہے۔ کپتان جی رینکر کی آواز بلند کرنے والے ایس پی انویسٹی گیشن شیخوپورہ کا تبادلہ پنجاب پولیس میں بہت سے سوالات پیدا کر رہا ہے ۔اور ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت پنجاب پی ایس پی افسران کے سامنے ہتھیار ڈال چکی ہے

اور رینکر کے مسائل کو مزید التواء میں رکھنا چاہتی ہے۔ لیکن اپنے حق کیلئے اٹھنے والی ہر آواز میں کمی نہیں اضافہ ہوتاہے۔ اس لئے کپتان جی حالات اور وقت کا تقاضہ ہے کہ پنجاب پولیس کے رینکرز کے مسائل کے حل کیلئے ترجیح بنیادوں پر اقدامات اٹھائے جائیں، اس سے پہلے کہ دوسرے محکموں کے ملازمین کی طرح پنجاب پولیس کے رینکر بھی اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ اور دھرنے کی کال دیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں