اے شہنشاہ وقت اک نظر ادھر بھی دیکھ 150

اے شہنشاہ وقت اک نظر ادھر بھی دیکھ

اے شہنشاہ وقت اک نظر ادھر بھی دیکھ

تحریر: محمد اکرم عامر سرگودہا
موبائل؛؛،03008600610
وٹس ایپ،03063241100

دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو ان ممالک کی ترقی کا راز تعلیم، صحت کے ساتھ مختلف محکمہ جات میں پلاننگ کرنے والے انجینئرز کا اہم کردار ہے جو اپنے ملک کی ترقی کیلئے آنے والے 10 سے 50 سال تک کے منصوبے بنا کر حکومت اور اداروں کو پیش دیتے ہیں،پھر وہ اداروں میں رہیں یا نہ رہیں ان کی جگہ آنے والے ان منصوبوں کو آگے بڑھاتے رہتے ہیں، ترقی یافتہ ممالک کی حکومتیں انجینئرز ٹیکنالوجسٹس کو وہ تمام سہولتیں فراہم کرتی ہیں جس کی انہیں ضرورت ہوتی ہے،

ان ترقی یافتہ ممالک کی یہ بھی خاصیت ہے کہ یہ ملک کی ترقی میں ریڑھی کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے انجینئرز ٹیکنالوجسٹس کی فلاح و بہبود کیلئے ہر سطح پر اقدامات کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پاکستان سمیت دنیا کے اکثریتی ممالک ٹیکنالوجی کے حوالے سے چین، جاپان،امریکہ،جرمنی،ملائیشا، آسٹریلیا، اٹلی، سمیت اسی نوعیت کے دیگر ممالک کے مرہون منت ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ ان ترقی یافتہ ممالک میں سوئی سے جہاز تک تیار ہوتا ہے، جسے فروخت کر کے یہ ممالک غیر ترقی یافتہ ممالک سے سالانہ اربوں، کھربوں کماتے ہیں۔بد بختی سے قیام پاکستان سے اب تک اقتدار میں آنے والی کسی بھی حکومت نے انجینئرنگ ٹیکنالوجسٹ کے لئے سروس سٹرکچر ہی نہیں بنایا۔ اس امر کا انکشاف سینٹ کی قائمہ کمیٹی وفاقی تعلیم کے

اجلاس کے دوران ہوا جس نے ہر حکومت کی قلعی کھول دی ہے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے وفاقی تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت میں انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان بننے سے لے کر آج تک انجینئرنگ ٹیکنالوجسٹس کیلئے سروس سٹرکچریا انڈکشن پالیسی نہیں بنائی جا سکی ،ایچ ای سی نے نیشنل ٹیکنالوجی کونسل (این ٹی سی)کیلئے جو قانون بنایا تھا اس میں تحریر تھا کہ جو این ٹی سی کاچیئرمین ہو گا وہ ٹیکنالوجسٹس ہو گا لیکن اس سیٹ پر بھی انجینئر بٹھا دیا گیا، جو ادارے کی نا اہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے، دنیا میں تعلیم کے شعبہ میں اتنا ظلم کسی کے ساتھ نہیں ہوا جتنا انجینئرنگ ٹیکنالوجسٹس کے ساتھ ہوا ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے وفاقی تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت کا اجلاس گزشتہ دنوں چیئرمین سینیٹر عرفان الحق صدیقی کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس اسلام آباد میں منعقد ہوا۔اجلاس میں انجینئرنگ ٹیکنالوجسٹس کے سروس سٹرکچر اور ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے حوالہ سے سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا کہ ریاست والدین کی طرح ہوتی ہے جبکہ ادارے اس کی نمائندگی کرتے ہیں لیکن یہ مسئلہ پاکستان بننے سے لے کر اب تک قائم ہے اور اس میں پاکستان انجینئرنگ کونسل کا منفی کردار واضح ہے

جبکہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کنفیوزڈ دکھائی دیتا ہے۔ سینٹر مشتاق احمد خان نے کمیٹی کو بتایا کہ یہ مسئلہ پچھلے 2 سالوں سے سینٹ کی قائمہ کمیٹی میں چل رہا ہے اور اس کا حل پیش کرنے میں ایچ ای سی ناکام رہا ہے ،پاکستان میں 36 ادارے 200 سے زائد پروگرامز میں یہ ڈگریاں کروا رہے ہیں جس کے باعث ملک میں انجینئرنگ ٹیکنالوجسٹس کی تعداد ساڑھے تین لاکھ سے زائد ہو چکی ہے اور صورتحال یہ ہے کہ پاکستان بننے سے لے کر آج تک ان کا سروس سٹرکچر یا انڈکشن پالیسی تک نہیں بنی؟ سابقہ حکومتیں بھی اس مسئلہ کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دے سکیں اور اب صورتحال یہ ہے کہ 1912ء میں برطانوی حکومت

کے دور میں قائم ہونے والے ادارے گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی رسول، منڈی بہائو الدین میں پچھلے سال 1200 مختص سیٹوں کے مقابلہ میں صرف 184 داخلے ہوئے جو کہ اداروں کی ناہلی اور ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ سینیٹر مشتاق احمد نے واضح کیا کہ سینٹ قائمہ کمیٹی کا سابقہ اجلاس مورخہ 3 فروری 2021کو ہوا تھا جس میں کمیٹی نے اداروں کو مسئلے کا حل پیش کرنے کیلئے 90 دن کا وقت دیا تھا لیکن ان اداروں کی نالائقی کہ پہلی میٹنگ ہی 92 دنوں کے بعد بلائی گئی،ایچ ای سی نے جو کمیٹی بنائی اس کے 4 ممبر ہیں اور چاروں انجینئر ہیں ،ان میں ایک بھی ٹیکنالوجسٹس کا نمائندہ نہیں ہے۔
سینٹر مشتاق احمد خان نے کہا کہ این ٹی سی ایکٹ 2015 سے پائپ لائن میں ہے اور انجینئرنگ ٹیکنالوجسٹس کو درپیش تمام مسائل کا حل بلاواسطہ اس ایکٹ کے پاس ہونے سے مشروط ہے جو التوا کا شکار ہے۔سینیٹر انجینئر رخسانہ زبیری نے اجلاس کو بتایا کہ پاکستان انجینئرنگ کونسل کے ایکٹ میں ترمیم کر کے ٹیکنالوجی سٹریم کو بھی شامل کیا جانا چاہیے کیونکہ پی ای سی واشنگٹن اکارڈ کے ساتھ کام کر رہا ہے جس میں ٹیکنالوجی سٹریم بھی موجود ہے۔ سینیٹر پروفیسر مہر تاج روغانی نے اس ضمن میں کہا کہ ظلم کی ایک انتہا ہوتی ہے، دنیا میں تعلیم کے شعبہ میں اتنا ظلم کسی کے ساتھ نہیں ہوا جتنا انجینئرنگ ٹیکنالوجسٹس کے ساتھ ہوا ہے

،ان کا مزید کہنا تھا کہ ظالموں سمجھ جا ورنہ ان کی بددعا لگے گی۔ سید علی حسن شاہ نے بطور صدر ینگ انجینئرنگ ٹیکنالوجسٹس ایسوسی ایشن کے اجلاس میں شرکت کی اور ساڑھے تین لاکھ انجینئرنگ ٹیکنالوجسٹس کی نمائندگی کرتے ہوئے ہائوس کو بتایا کہ 1974ء سے لے کر اب تک منسٹری آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی طرف سے 4 کمیٹیاں بن چکی ہیں، اس کے علاوہ 3 پرائم منسٹر ٹاسک فورس تشکیل دی جا چکی ہیں اور سینٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی 3 دفعہ اپنی سفارشات دے چکی ہے، اس کے باوجود آج بھی ہم 1974ء والے مقام پر کھڑے ہیں۔ انجینئرنگ ٹیکنالوجسٹس کیلئے پاکستان انجینئرنگ کونسل ہمیشہ سے اپنا موقف تبدیل کرتی رہتی ہے

اور ہائر ایجوکیشن کمیشن آج بھی تذبذب کا شکار ہے۔ جب تک کوئی فیصلہ نہیں ہوتا تب تک انہیں عبوری ریلیف دیا جانا چاہیے، تاکہ نئے گریجویٹس کا مستقبل تباہ ہونے سے بچ جائے؟یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انجینئرنگ ٹیکنالوجسٹس کیلئے قیام پاکستان سے اب تک ملک پر برسر اقتدار آنے والی کسی بھی حکومت نے توجہ نہیں دی، یہی وجہ ہے کہ آج تک ان کے لئے سروس سٹرکچر ہی نہیں بن سکا، جو ان کے ساتھ ظلم نہیں، ظلم کی انتہا ہے، کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ملک کی ترقی کیلئے منصوبے بنا کر دینے ہوتے ہیں،

جن پر سالہا سال بعد بھی عملدر آمد ہوتا رہتا ہے، لیکن پاکستان میں انجینئرنگ ٹیکنالوجسٹس تذبذب کا شکار ہیں اور 1974ء سے ہر فورم پر اپنا حق مانگ رہے ہیں، لیکن مجال ہے کہ کسی حکومت کے کانوں پر جوں تک رینگی ہو، ملک کے کپتان عمران خان بھی صحت، تعلیم بالخصوص انجینئرنگ کے شعبہ کی ترقی کا نعرہ لگا کر اقتدار کے ایوان تک پہنچے، لیکن 3 سال گزرنے کے باوجود کپتان بھی انجینئرنگ ٹیکنالوجسٹس کے مسائل حل نہ کر سکے، اور معاملہ اب بھی سینٹ کی قائمہ کمیٹی میں التواء کا شکار ہے۔

کپتان جی یہی صورتحال رہی تو آئندہ آنے والے حکمرانوں کے دور میں بھی یہ مسئلہ جوں کا توں رہے گا، ملک کے ساڑھے تین لاکھ انجینئرنگ ٹیکنالوجسٹس آپ کی توجہ کے منتظر و مستحق ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ ان کے مسائل کے حل کے لئے کمیٹیاں تشکیل دینے کا کھیل بند کر کے عملی اقدامات اٹھائے جائیں، تا کہ یہ طبقہ جو کہ ملکی ترقی میں ریڑھی کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے دلجمعی سے کام کر کے ملک کو ترقی کی راہ کی طرف گامزن کرے۔ کپتان جی اگر ایسا نہ ہوا تو پھر ملک کو ریاست مدینہ اور ترقی یافتہ بنانے کا آپ کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں