ادھورے لوگوں کے ادھورے خوابوں 201

ادھورے لوگوں کے ادھورے خوابوں

ادھورے لوگوں کے ادھورے خوابوں

تحریر:مریم حیات

شناخت انسانی زندگی کا کتنا بڑا المیہ ہے اس کا اندازہ وہی کر سکتا ہے جو بے شناخت ہو یا پھر کسی کی شناخت کو جبریہ مسخ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہو۔۔۔ اور یہ شناختی المیہ اگر جغرافیائی ہو تو اور زیادہ کرب انگیز ہو جاتا ہے۔۔
انسان کے بس میں تو نہیں ہوتا کہ وہ اپنی مرضی کے جغرافیے میں پیدا ہو۔۔۔ہاں البتہ جو صاحبِ استطاعت ہوتے ہیں وہ بعد میں اپنی مرضی کے جغرافیے میں سامانِ زیست کر لیتے ہیں۔۔۔لیکن جو بے مقدور ہوتے ہیں وہ اسی شناخت کو اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں

جو ان پر مسلط کر دی جاتی ہے۔۔۔جغرافیائی شناخت ان لوگوں کو کے لیے زیادہ گھمبیر مسئلہ بنتی ہے جن کی زندگیوں میں اس میں رد و بدل کیا جاتا ہے(نئی نسل اس کرب کا اندازہ نہیں کر سکتی)۔۔۔خاص طور پر اس وقت جب اس ردو بدل میں لوگوں کی مرضی بھی شامل نہ رہی ہو۔۔۔ لوگوں کی اکثریت اس نئی جغرافیائی حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہو جاتی ہے۔۔۔ وہ پھر سے اس ماضی میں لوٹ جانا چاہتے ہیں جو ان کے لاشعور کا حصہ بن چکا ہوتا ہے۔۔۔جس میں انہیں اپنی جڑیں ملتی ہیں۔۔
نئی پود کو نئی زمینوں پر اگانا آسان ہوتا ہے کہ ان کی جڑیں زیادہ گہری نہیں ہوتیں۔۔۔انہیں آسانی سے ادھر سے ادھر کیا جا سکتا ہے۔۔۔ لیکن وہ جن کی جڑوں کا سینکڑوں برس سے زمین کے ساتھ رشتہ رہا ہو۔۔۔انہیں نئی زمینوں کے موسم اگرچہ وہ کتنے ہی خوشگوار کیوں نہ ہوں راس نہیں آتے۔۔۔ کیونکہ ان درختوں کی جڑیں اس رَس کی عادی ہوچکی ہوتی ہیں جو انہوں نے سینکڑوں برس میں اس زمین سے کشید کیا ہوتا ہے۔۔۔ اسی لیے جب انہیں اکھاڑ کر کسی نئی جگہ لگانے کی کوشش کی جاتی ہے

تو وہ مر جھا جاتے ہیں۔۔۔یہاں تک کہ مر جاتے ہیں۔بے بسی انسانی زندگی کا ایک اور بڑا المیہ ہے۔۔۔جو انسانی خواہشات کو لگام ڈالتی ہے۔۔۔ یہ لگام بعض دفعہ اتنی کھینچی ہوتی ہے اور ایسا درد پیدا کردیتی ہے ناقابلِ برداشت ہوتا ہے۔۔۔یہاں تک کہ بے بسی نفسیاتی عارضے میں بدل جاتی ہے۔۔۔بعض لوگ اس عارضے کو زندگی بھر سنبھالے رکھتے ہیں۔۔۔اور بعض لوگ اس عارضے سے تنگ آ کر مر جاتے ہیں۔۔
بے بسی کے ڈسے ہوئے لوگ کبھی مکمل نہیں ہو پاتے۔۔۔وہ زندگی بھر ادھ ادھورے رہتے ہیں۔۔۔یہاں تک کہ ان کے خواب بھی ادھ ادھورے ہو جاتے ہیں۔۔۔ کہ ان خوابوں کی تعبیر کے راستے میں حقیقت وہ سدِ سکندری ہے جسے چاٹ کر مٹا دینا ان ادھورے لوگوں کے بس سے باہر رہتا ہے۔۔
ادھ ادھورے لوگ بھی ایسے ہی لوگوں کی کہانی ہے جو عدم شناخت (جس کا شکار انہیں بنا دیا گیا تھا) کی دیوار کو چاٹ کر مٹا دینا چاہتے ہیں۔۔۔لیکن افسوس بے بسی۔جب لوگ اور معاشرے ایسی بے شناختی کی صورتحال کا سامنا کرنے لگیں تو معاشروں اور نسلوں میں ایسا خلا پیدا ہوتا ہے جسے پاٹ لینا قائم شدہ صورتحال میں نا ممکن ہو جاتا ہے۔۔۔ایسے میں لوگوں کے پاس دو راستے بچتے ہیں۔۔۔ یا تو وہ قائم شدہ صورتحال کو تسلیم کر لیں۔۔۔یا وہ پرانی صورتحال کی طرف لوٹ جانے کی تگ و دو کریں۔اور یہ دونوں صورتیں کہیں نہ کہیں متشدد ہو جاتی ہیں۔۔۔یا تو لوگ مساکیت پسند ہو جاتے ہیں یاپھر سادیت پسند۔۔
ایسی متشددانہ صورتحال میں بعض ایسے رویے بھی سامنے آتے ہیں جو معاشرتی روایتوں اور ضابطوں کے کھلم کھلا مخالف ہوتے ہیں۔۔۔اور ایسے جذبے پروان چڑھنے لگتے ہیں جنہیں عموماً معاشرے معاشرتی بگاڑ کا نام دیتے ہیں۔۔
یہ کہانی ایسے ہی لوگوں کی دنیا ہے۔۔۔جو عدم شناخت کا شکا ر ہے۔۔۔وہ جو اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتی ہے۔۔۔اور اس بے بسی کے جال کو توڑنے کے لیے لوگ جائز اور نا جائز کے تصور سے ماوراء ہو جاتے ہیں۔۔۔اور پھر ایسا بگاڑ پیدا ہوتا ہے

جب سالوں کے دکھ سکھ میں ساتھ رہنے والے لوگ ایک دوسرے کے خلاف ہو جاتے ہیں۔۔۔اور اسی پر ہی بس نہیں ہوتا بلکہ لوگ اس نظام کے ہی خلاف ہوجاتے ہیں۔۔۔اور تب صحیح اور غلط کا تصور مٹ جاتا ہے۔۔۔اور طاقتور اور کمزور کا ایک نیا تصور جنم لیتا ہے۔۔۔ اور شناخت اسی کی ہے جو طاقتور ہے۔کمزور کا کیا ہے۔۔۔اس کے پاس اپنی مرضی کا کونسا حق ہوتا ہے۔۔۔وہ تو ادھ ادھورا ہے۔۔۔اسے بس اتنی رعایت ہوتی ہے کہ وہ ادھ ادھورے خواب دیکھ لے۔۔۔اور ان ادھ ادھورے خوابوں کی تعبیر بھی ادھ ادھوری ہی ہوتی ہے۔۔۔اور یہی ادھ ادھورے لوگوں کی کہانی ہے۔۔ راولپنڈی‘

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں