Site icon FS Media Network | Latest live Breaking News updates today in Urdu

ففتھ جنریشن وار اور ہمارا کردار

ففتھ جنریشن وار اور ہمارا کردار

ففتھ جنریشن وار اور ہمارا کردار

ففتھ جنریشن وار اور ہمارا کردار

تحریر: راجہ فرقان احمد

انسانی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان ایسی ایجادات کرتا رہتا ہے جس سے اس کا مال وجان محفوظ رہے. اس سلسلے میں ویسٹ فیلیا کا معاہدہ انتہائی اہم ہے جو 1648 میں ہوا. اس معاہدے میں نیشن سٹیٹ کی بنیاد رکھی گئی.اس معاہدے کے ذریعے یورپ میں جنگوں کا خاتمہ ہوا. مختلف ریاستیں بنائی گئی. ریاست ایک ایک فرد سے مل کر بنتی ہے.
ریاست کی حفاظت پر بات آتی ہے تو ریاست ہر طرح کے اقدامات لیتی ہے جس سے اس کی عوام محفوظ اور معاشرہ پرامن رہے.
پاکستان کی بات کی جائے تو ہم پچھلی کئی دہائیوں سے غیرروایتی جنگ لڑ رہے ہیں. اس جنگ کے سبب پاکستان میں سیکڑوں افراد دہشت گردی کا نشانہ بنے. اس جنگ میں نہ صرف عام شہریوں کو بلکہ پاکستان کو بھی نقصان پہنچا. اس کا نقصان پاکستان کو یہ ہوا کہ حالات واقعات اور جنگ کے نت نئے طریقوں سے یہ ملک تھوڑا پیچھے رہ گیا.
خصوصی طور پر ففتھ جنریشن وار جو نظریاتی جنگ میں شمار ہوتی ہے پچھلے کئی سالوں سے ہم اس میں خاطر خواہ نتائج حاصل نہ کر پائے.
ہمیں اکثر یہ سننے کو ملتا ہے کہ پاکستان ففتھ جنریشن وار کا حصہ بن چکا ہے. ففتھ جنریشن وار کو جانے سے پہلے ہمیں پچھلی جنریشن وارز کو جانا ضروری ہے. جو چیز تقریبا دس بیس سال بات آئے اسے جنریشن کہتے ہیں. جنریشن آف ماڈرن وارفئیر کی تھیوری 80 کی دہائی میں امریکی تجزیہ کاروں نے ایجاد کی جس میں سے ولیم ایس لینڈر کا نام سرفہرست ہے.
وہ امریکہ کے دائیں بازو کے اسپورٹ ہیں. انہوں نے اپنی زندگی میں کبھی بھی کسی بھی جنگ میں حصہ نہیں لیا مگر اس کے باوجود وہ امریکن دفاع کے لیے لکھتے ہیں. انہوں نے جنگوں کو دیکھ کر اس تبدیلی کو مختلف جنریشن میں تقسیم کیا. جب جنگوں میں دونوں طرف کے انسان آمنے سامنے رہ کر تلواروں سے لڑا کرتے تھے تو اس کو فرسٹ جنریشن وار کا نام دیا گیا۔
انگلش سول وار (1642–1651) اور امریکہ کی جنگ آزادی (1775–1783) اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔ پھر جب بندوق اور توپیں کی ایجاد ہوئی اور اس کے ذریعے جنگیں لڑی جانے لگیں تو ان جنگوں کو سیکنڈ جنریشن وار کہا جاتا ہے۔ سیکنڈ جنریشن وار کی سب سے بڑی مثال پہلی جنگ عظیم (1914 – 1918) ہیں.
سیکنڈ جنریشن وار کو فرینچ آرمی نے ڈیولپ کیا تھا. جوں جوں انسانوں نے ترقی کی راہیں ہموار کی، جنگی محاذ پر بھی ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوششوں میں مگن رہے. جب جنگوں میں فضائیہ اور نیوی وغیرہ کو بنیادی حیثیت حاصل ہوئی یا میزائلوں کے ذریعے دور سے دشمن پر وار کرنے کا راستہ نکلا اور ٹیکنالوجی کا استعمال فیصلہ کن کردار ادا کرنے لگا سو اس طرح کی جنگوں کو تھرڈ جنریشن وار کا نام دیا جاتا ہے۔ تھرڈ جنریشن وار کی سب سے بڑی مثالیں دوسری جنگ عظیم (1939 – 1945) اور کوریا وار(1950 – 1953) ہے.
تھرڈ جنریشن تک جنگیں صرف افواج کے درمیان لڑی جاتی تھیں. ایک ملک کی فوج کو دوسرے ملک کی افواج کا معلوم ہوتا تھا. لیکن جوں جوں وقت گزرا جنگی محاذ پر بھی نت نئے تجربات کیے گئے جو کامیاب رہے. جنگ لڑنے کے لیے ملکی افواج کے ساتھ ساتھ نان اسٹیٹ ایکٹرز کا کردار بھی اہم ہو گیا. مقامی شرپسند عنصراور پراکسیز کا کردار بھی اہم بن گیا. نان اسٹیٹ ایکٹرز کے ساتھ ساتھ سفارت کاری، معیشت اور پروپیگنڈے کے ہتھیار بھی شامل ہوگئے.
اس طرح کی جنگ کو فورتھ جنریشن وار کا نام دیا گیا. فورتھ جنریشن وار کی مثال سرد جنگ کی ہے جس طرح سوویت یونین نے کئی ممالک میں یہ جنگیں اپنی فوجیں بھیجنے کی بجائے مقامی طاقتوں کے ذریعے لڑیں. دوسری طرف امریکہ نے افغانستان میں نان اسٹیٹ ایکٹر کی حیثیت رکھنے والے مجاہدین کو سپورٹ کرکے سوویت یونین کے خلاف جنگ لڑی۔ افغانستان، عراق اور شام وغیرہ کی جنگیں اب تک کی نمایاں مثالیں ہیں.
ففتھ جنریشن وار کی اصطلاح ڈیوڈ ایکس نے 2009 میں امریکی میگزین وائرڈ پر اپنے ایک کالم میں دی.
ففتھ جنریشن وار کی سادہ الفاظ میں تعریف یہ ہے کہ اس میں پوری قوم شریک ہوتی ہے. اس میں بیٹل یعنی ایک دوسرے کے سامنے لڑنے کی نوبت نہیں آتی. ففتھ جنریشن وار میں دشمن اپنے ہارڈ پاور کی بجائے سافٹ پاورز کو استعمال کرتا ہے. ففتھ جنریشن وار کے بنیادی ہتھیار جہاز، ٹینک اور میزائل نہیں بلکہ سفارت کاری، پراکسیز، ٹی وی، ریڈیو، اخبار، سوشل میڈیا، فلم اور معیشت ہیں۔ یہ زمین پر نہیں بلکہ ذہنوں میں لڑی جاتی ہے۔ انسانوں کو نہیں بلکہ ان کے ذہنوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ فوجیں بھیجنے کی بجائے زیرنشانہ ملک کے شہریوں کو اپنی ریاست اور فوج کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ ففتھ جنریشن وار کے متعلق ایک کہاوت بہت مشہور ہے “یہ وہ جنگ ہے جسے جیتنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے لڑا ہی نہ جائے”.
پاکستان کئی سالوں سے اس جنگ کا حصہ ہے.
کبھی پاکستانیوں کو اپنی افواج کے خلاف اکسایا جاتا ہے اور کبھی سیاستدانوں کے خلاف۔ اس جنگ میں ہم سب کو مل کر لڑنا پڑے گا. سچ اور جھوٹ کا فیصلہ سوچ سمجھ کر کرنا ہوگا۔
مصنف کے بارے میں:
مصنف فری لانس صحافی ہے جو اس وقت اسلام آباد، پاکستان میں مقیم ہے۔ مصنف سے Twitter: furqanraja1122
پر رابطہ کیا جاسکتا ہے.

Exit mobile version