مانگنا بھی ایک آرٹ ایک ہنر ہے 226

بھٹکل کے اہل نائط کے روابط، ہزار سال قبل، کیا اہل نائط گجرات بھروچ سے تھے؟

بھٹکل کے اہل نائط کے روابط، ہزار سال قبل، کیا اہل نائط گجرات بھروچ سے تھے؟

نقاش نائطی
۔ +96656267770

کیا بھارت میں اسلام مسلم شاہان کے دور میں پھیلا یا بھارت سے عرب تجار کے ہزار پندرہ سو سالہ تعلقات اور انکے حسن اخلاق کی وجہ سے اسلام، ان آیام ہی بھارت کے مختلف علاقوں صوبوں میں اپنے پاؤں پسار چکا تھا؟ اس موضوع پر تحقیق ہونی چاہئیے۔ مختلف مکتبہ فکر کے محققین و کاتبیں و مورخین کو اس سمت فکر کرنی چاہئیے یا عصر حاضر کے طلبہ کو اس موضوع پر ریسرچ کر، کسی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کرنی چاہئیے

https://bit.ly/39NTDKJ

بھٹکل ڈونگرار مخدوم فقیہ اسماعیل جن کے مزار پر آج سے کچھ دہوں پہلے تک، مستغرق شرک و بدعات،اس زمانہ لاعلمی میں، عظیم الشان عرس سالانہ ہوا کرتا تھا،ان کے والد محترم فقیہ اسحاق علیہ الرحمہ کی قبر اطہر گجرات کے بھروچ شہر میں ہے یہ علم جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے چند اساتذہ کے سفر نامہ گجرات سے واقفیت ہوئی ہےگجرات بھروچ شہر میں پانچویں صدی یعنی 1037 سال قبل کی خستہ حال لکڑی کے ستونوں والی مسجد کے صحن میں، بھٹکل کے مشہور ڈونگرار والے بزرگ مخدوم فقیہ اسماعیل علیہ الرحمہ کے والد بزرگوار اور کائیکنی کے مشہور بزرگ فقیہ ابو محمد علیہ الرحمہ کے دادا مشہور بزرگ فقیہ اسحاق علیہ الرحمہ کے قبرموجود ہےآج سے بارہ پندرہ سو سال قبل، ماقبل نزول اسلام، عرب تجار کے بھارت کے ساحلی سمندر پر واقع، مختلف گاؤں دیہات والوں سے بادبانی کشتیوں کے واسطے سے تجارتی تعلقات قائم تھے۔ جن میں گجرات بھڑوچ،

مہاراشٹرا کونکن، ٹمل ناڈ کلیکیرے، کیرالہ کوچین کالیکٹ و دیگر علاقوں کے ساتھ ہی ساتھ، کرناٹک کے ہوناور یا ہونور کے ساتھ بھٹکل و اطراف بھٹکل والوں سے بھی تجارتی تھے۔ گجرات قائم، احمد آباد، کھمباٹ کی برواڈا جونی مسجد (باہر سے آئے لوگوں کی پرانی مسجد) ابتدائی 13 سالہ مکی زندگی یعنی کم و بیش 610 سے 625 عیسوی کے درمیان تعمیر بھارت کی پہلی قبلہ اول فلسطین کی طرف رخ کئے محراب والی مسجد، اس بات کے ثبوت کے لئے کافی ہے کہ خاتم الانبیاء سرور کونین محمد مصطفی صلی اللہ وعلیہ وسلم کے ابتدائی مکی زندگی ہی میں،

ان عرب تجار کے، تجارت کے ساتھ ہی ساتھ اپنے حسن اخلاق سے دعوت تبلیغ کے مشن ہی کے نتیجہ میں،ان ایام 1500 سال قبل، دین اسلام نہ صرف بھارت کے ساحلوں تک دستک دے چکا تھا بلکہ اسلام قبول کرتے مسلمانوں کی کثیر تعداد کے چلتے، ان ایام ہی مساجد کی تعمیر شروع ہوچکی تھیں۔ گجرات کھمباٹ کی برواڈا مسجد کے علاوہ، کیرالہ کوچین کی چیرامن مسجد، ٹمل ناڈ کلیکیرے کی پللیہ جامع مسجد، کرناٹک بھٹکل کی غوثیہ مسجد بارہ پندرہ سو قبل کی بھارت کی اولین مساجد میں شمار ہوتی ہیں

بارہ پندرہ سو سال قبل، ان ایام جب زاد سفر کے لئے صرف گھوڑا گاڑی یا بیل گاڑی ہی ہوا کرتی تھیں، کیا اہل نائط ساکن بھٹکل کے،گجرات کھمباٹ بھروچ یامہاراشٹرا کونکن یا کیرالہ کوچین اور کلیکیرے ٹامل ناڈ والے اہل عرب یا اہل نائطہ سے تعلقات تھے؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ آج المحترم مولوی سمعان خلیفہ ندوی کے سفر نامہ گجرات پڑھتے کے بعد اور بھٹکل کے مشہور متوفی بزرگ فقیہ اسماعیل مخدوم علیہ الرحمہ کے والد مرحوم فقیہ اسحاق مخدوم کی قبر اظہر گجرات بھڑوچ شہر کی ہزار سالہ مسجد کے صحن میں موجودگی کی

خبر نے، یہ بات واضح کردی ہے کہ یقینا اس سفر سہولیات نہ رہتے دور میں بھی، بھارت کے مختلف علاقوں میں آباد اہل نائطہ کے ایک دوسرے سے تعلق خاص رہا تھا۔ اہل نائط کی تاریخ مرتب کرنا از حد ضروری اس لئے بھی ہے کہ فی زمانہ بھارت پر حکمران ھندو شدت پسند آر ایس ایس رہنما، بھارت میں اسلام کے پھیلنے کو، باہر سے بھارت پر حملہ آور مسلم حکمرانوں کے، اور یہیں بھارت میں رچ بس جانے والے مغل حکمرانوں کے، مسلم حکمرانی دوران تلوار کی نوک پر اسلام بھارت میں پھیلنے کی جو برملا تشہیر کر رہے ہیں اگر تاریخ اہل نائط یا تاریخ عرب تجار بالھند پر کوئی مستند کتاب منظر عام پر آجائے تو، بھارت میں اسلام تلوار کی نوک کے بجائے،عرب تجار کے حسن اخلاق و حسن معاشرت سے پھیلا،یہ ثابت کرنا مستقبل کی ہماری آل مسلمین کے لئے آسان ہوجائے گا۔

بھٹکل کے ایک معزز عالم دین المحترم عبدالمتین منیری ، جن کا تعلق رشتہ داری، تاریخ بھٹکل پر چھ دہے قبل اولین کتاب لکھنے والے المحترم خواجہ اکرمی منیری سے بھی ہے اور اپنے دوبئی سفر معشیت دوران، چار دیے قبل بھٹکل کےپہلے آن لائن ادارے “بھٹکلیس” سے ابتداء ہی سے جڑے رہنے اور دوبئی سفر معشیت، عربی اردو تراجم اوقاف وزارت سے منسلک رہنے کی وجہ سے،

انکے پاس تاریخ اہل عرب پر کافی معلومات کا ذخیرہ موجود رہ سکتا ہے۔ اللہ انہیں صحت والی لمبی عمر عطا کرے اور انہی کے ہاتھوں سے،انکے حیات رہتے، تاریخ اہل عرب بالھند یا تاریخ اہل نائطہ لکھنے کا کام ان سے لے، لیکن عمر کے جس پڑاؤ میں وہ ہیں ان سے تعلق خاص اور عقیدت رکھنے والے مختلف اساتذہ کرام جامعہ اسلامیہ بھٹکل و اعلی درجہ کے تلامیذ جامعہ اسلامیہ سے التماس ہے کہ وہ انکے پاس موجود کاغذی اور عکس بند صوتی مواد سے پرے، ان کے ذہن و قلب میں محفوظ ان تاریخی مواد کو جلد از جلد کتابی شکل دیتے ہوئے، تاریخ اہل نائطہ کو حیات دوام بخشیں۔واللہ اعلم بالتوفئق الا باللہ

تفصیل جاننے کے لئے استاد جامعہ اسلامیہ بھٹکل المحترم محمد سمعان خلیفہ ندوی کا سفر نامہ گجرات پڑھا جائے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں