کپتان جی صوبائی پولیس افسران و رملازمین کو انصاف دو
تحریر:اکر م عامر سرگودھا
فون نمبر: 03008600610
وٹس ایپ: 03063241100
ملک کے سیاسی حالات بتا رہے ہیں کہ کپتان اور اس کے کھلاڑیوں نے ڈنک ٹپائو پالیسی کے تحت تین سال سے زائد حکومت گزار لی ہے لیکن اس اوران پی ٹی آئی کی حکومت نے عوام کو بنیادی سہولت فراہم نہیں کی الٹا مہنگائی کی چکی میں پیس کر رکھ دیا ہے جس پر تاجر، صنعتکار، کسان عوام اور سرکاری ملازمین سبھی مشکل کا شکار ہو کر رہ گئے ہیں۔ کپتان تو پنجاب پولیس سمیت دیگر محکموں میں اصلاحات لانے اور عوام و ملک کو خوشحال کرنے کا بلند و بانگ دعوی کر کے اقتدار میں آئے تھے،
لیکن کسی بھی طبقہ کی فلاح نہ ہو سکی اور نہ کسی محکمہ کی اصلاح؟ یہی وجہ ہے کہ ملک کے مقتدر طبقہ پنجاب پولیس کے صوبائی پولیس افسران سے کانسٹیبل تک، اساتذہ، ینگ ڈاکٹرز، لیڈی ہیلتھ ورکرز، محکمہ صحت، حتی کہ ہر محکمہ کے ملازمین اپنے حق کیلئے آئے روز اسلام آباد کی سڑکوں پر احتجاج کرتے نظر آتے ہیں، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ملک کے سرکاری محکمہ جات کے ملازمین اپنے مسائل کے بارے میں وزیر اعظم اور حکام بالا کو جو مراسلے لکھتے ہیں، ایسے مراسلے کپتان اور اس کی کابینہ کے گرد حاوی بیورو کریسی کا گروپ دبا لیتا ہے، بالخصوص جس میں کسی آفیسر یا سرکاری ملازم نے اپنا حق مانگا ہوا۔
پھر تنگ آ کر سرکاری ملازمین اسلام آباد، لاہور سمیت ملک کے بڑے شہروں میں احتجاج کرتے ہیں، راقم اس ضمن میں کوارڈی نیٹر آل پاکستان پرونشنل سول سروس ایسوسی ایشن طارق محمود اعوان کے 28 ستمبر 2020ء کو لکھے گئے خط کی مثال دینے جا رہا ہے، جسے وزیر اعظم پاکستان کے نام ارسال کیے کو 1 سال کا عرصہ گزرنے کو ہے مگر صوبائی پولیس افسران وزیر اعظم کے اب تک جواب کے منتظر ہیں۔ اس خط میں آئین، قانون اور دستاویزات کی روشنی میں سی ایس پی رولز 1954 کی جعلی و غیر قانونی حیثیت کی وضاحت کی گئی ہے اور وزیر اعظم کو باور کرایا گیا تھا کہ چاروں صوبوں نیز گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے 4 ہزار صوبائی سول افسران آپ اور آپ کی کابینہ کی توجہ غیر قانونی سی ایس پی رولز 1954ء کی طرف مبذول کروانا چاہتے ہیں جو کسی آئینی بنیاد اور قانون سازی کے بغیر وجود میں آئے ہیں،
مگر بد قسمتی سے پاکستان کی سیاسی انتظامی اور قانونی تاریخ کے سب سے بڑے فراڈ کو آج کی سول سروس ریفارمز ٹاسک فورس اور اسٹیبلشمنٹ ڈویڑن آپ اور آپ کی کابینہ سے قانونی شکل دلوانے کی کوشش کر رہے ہیں، یوں سول سروس ریفارمز کے نام پر آپ کے تبدیلی، تصور اور نظریئے کو چکمہ دیا جا رہا ہے، نیز اصلاحات کی جگہ سٹیٹس کو مزید مضبوط کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ تمام قاعد قانون سازی یا آئین سے براہ راست تشکیل دیئے جاتے ہیں مگر اس کے بر عکس یہ رولز وفاق اور صوبوں کے درمیان ایک مبینہ محض معاہدہ سے بنائے گئے ہیں جو سرے سے موجود ہی نہیں۔ اس کا صریحا مطلب یہ ہے
کہ پاکستان میں سول سروس کی بنیاد بغیر کسی دستاویز، آئین و قانون کے محض ایک دھوکہ پر قائم ہے۔ خط میں وزیر اعظم کو یہ بھی باور کرایا گیا ہے کہ یہ بات انتہائی تشویشناک ہے کہ سی ایس پی معاہدہ 1939ء جنہیں ان رولز کی بنیاد قرار دیا جاتا ہے اور جس کے ذریعے صوبائی پوسٹس کو فیڈرل ڈی ایم جی کیلئے ریزرو کر دیا گیا ہے، جب اس معاہدہ کی بابت اسٹیبلشمنٹ ڈویڑن حکومت پاکستان سے (رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت ) دریافت کیا گیا تو جواب ملا کہ سب کچھ ایسٹا کوڈ میںموجود ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایسٹا کوڈ میں یہ معاہدہ موجود نہیں ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سی ایس پی رولز دھوکہ دہی پرمبنی ہیں جس کی نہ کوئی قانونی حیثیت ہے اور نہ آئینی۔کیونکہ یہ کسی لیجسلیشن سے وجود میں نہیں آئے۔
پاکستان کی سول سروس ریفارمز کی تاریخ سیاسی انتظامیہ کو دھوکہ دہی کے مترادف ہے، حکومتی نمائندہ اور اسٹیبلشمنٹ ڈویڑن کی موجودگی میں ریفارمز بھی اس دھوکہ دہی کا تسلسل ہیں۔ قانونی طور پر ہر سروس کے اپنے کیڈر اور رولز ہوتے ہیں، موجودہ پاس سروس کے نہ تو رولز ہیں اور ہی کیڈر ہے، اس سے پہلے ڈی ایم جی سروس کے نہ ہی رولز تھے اور نہ ہی کیڈر تھا، کیونکہ اب آئینی طور پر صوبائی پوسٹس کو وفاقی یا آل پاکستان سروس کیلئے مختص نہیں کیا جا سکتا، اس لئے پاس سروس جو کہ 2014ئ میں غیر قانونی طریقہ سے بنائی گئی اس نے ایک دوسرے سروس سی ایس پی کے 1954ء کے رولز میں دھوکہ دہی سے ترمیم کیں،
حتی کہ سی ایس پی سروس کو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی ایڈمنسٹریٹو ریفارمز کے ذریعے ختم کر دیا گیا تھا، مزید یہ بھی باور کرایا گیا تھا کہ غیر قانونی سی ایس پی رولز میں ڈی ایم جی/پاس/سی ایس پی کو سروس آف فیڈریشن کے تحت قائم کیا گیا ہے اور صوبائی پوسٹس کو فیڈرل سروس کیلئے کلونیل پریکٹس کے تحت ریزرو کیا گیا ہے، حتی کہ سی ایس پی، ڈی ایم جی اور پاس مختلف سروسز ہیں۔ جبکہ فی الحقیقت سی ایس پی اپنے ہی رولز کے تحت سروس آف فیڈریشن تھی اور آل پاکستان سروس نہیں تھی، آل پاکستان سروس کا ڈومین آرٹیکل 1953-54ء کے تحت سی سی آئی سبجیکٹس ہیں جو کہ فیڈرل لیجسٹلیٹولسٹ پارٹ ٹو ہے۔ اور آل پاکستان پوسٹس پر صرف پارلیمنٹ سے پاس شدہ ایکٹ کے تحت قائم کی جا سکتی ہیں،
آئین کے مطابق صوبائی پوسٹس کو وفاق یا آل پاکستان سروس کیلئے ریزرو نہیں کیا جا سکتا، آل پاکستان سروس کے تحت آرٹیکل 240 (ب) کی پوسٹس پر قبضہ کرنا وفاقی اور پارلیمانی نظام میں حکومت پر صاف قدغن ہے۔
غیر قانونی ہونے کے باوجود اگر ان رولز پر من و عن عمل کیا بھی جائے تو ان سی ایس پی رولز میں جو سی ایس پی کیڈر ہے اس کے مطابق سی ایس پی/پاس کیڈر میں 322 صوبائی پوسٹیں ہیں اور یہ پوسٹیں ڈی ایم جی اور پی ایم ایس میں 1993ء کے فارمولے کے تحت تقسیم ہونگی۔
طرفہ تماشہ یہ ہے کہ فارمولا خود بھی ایک فراڈ ہے اور اس استفسار کے باوجود اسٹیبلشمنٹ ڈویڑن نے اس کی نقل دینے سے انکار کر رکھا ہے۔ تا ہم 322 صوبائی پوسٹس کے بر عکس 5000 صوبائی پوسٹس پر قبضہ کیا گیا ہے جو کیلکولیشن آف پوسٹس حکومتی نمائندہ اور اسٹیبلشمنٹ ڈویڑن آپ کو دے رہے ہیں وہ سراسر جھوٹ، فریب اور مکاری پر مشتمل ہے۔ آل پاکستان پراونشنل سول سروس ایسوسی ایشن نے حکومتی نمائندہ اور اسٹیبلشمنٹ ڈویڑن کے ساتھ میٹنگ میں ٹھوس شواہد کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ کیلکولیشن اور آف پوسٹس میں وزیر اعظم اور کابینہ کو دھوکہ میں رکھا جا رہا ہے۔
وزیر اعظم کو لکھے گئے خط میں تو بے شمار رولز اور قانونی حوالے دیئے گئے ہیں جنہیں زیر نظر کالم میں سمانا مشکل ہے، تا ہم آل پاکستان صوبائی پولیس ملازمین کہتے ہیں کہ تلخ حقیقت یہی ہے کہ پاکستان کی آئینی، سیاسی، وفاقی، انتظامی ادارہ جاتی تباہی کی ذمہ دار پریکٹس صوبائی پوسٹس کو وفاقی سروس کیلئے ریزرو کرنا ہے۔ جس پر یہ غیر قانونی سی ایس پی رولز 1954ء قائم ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب پاکستان کا پہلا آئین ہی 1956ء میں نافذ ہوا تو کیا 1954ء کے غیر آئینی رولز پر ریاست پاکستان کی سول سروس کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے؟ ہرگز نہیں۔ جناب عالی! جبکہ پاکستان اس دوران سیاسی نشیب و فراز سے گزرا، آئین سازی کا ارتقاء بھی ہوا اورپاکستان کو ایک وفاقی وپارلیمانی ریاست کی شکل دی گئی۔
وزیر اعظم کو باور کرایا گیا کہ 1915ء کے انڈیا ایکٹ کے تحت صوبوں کو کنٹرول کرنے کیلئے جو استعماری نظام متعارف کرایا گیا تھا، حد درجہ بدقسمتی سے وہی غیر انسانی وغیر آئینی پریکٹس بغیر کسی قانونی بنیاد کے آج بھی جاری و ساری ہے، 1954ء کے غیر آئینی سی ایس پی رولز اسی کلونیل نظام کے مطابق ہیں، جبکہ پاکستان کا آئینی نظام اس پریکٹس کو بیک جنبش قلم رد کرتا ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک بھر کے سرکاری محکمہ جات کے ملازمین اپنے مسائل اور حقوق کیلئے وزیر اعظم سمیت ارباب اختیار کو خط لکھتے ہیں، اسی طرح ملک بھر کے صوبائی پولیس افسران ملازمین سندھ، پنجاب، بلوچستان، خیبر پختونخواہ، گلگت بلتستان میں لاکھوں کی تعداد میں فرائض سر انجام دینے والے صوبائی پولیس افسران و ملازمین کی تنظیم کے کوارڈی نیٹر نے خط لکھا جسے ایک سال ہونے کو ہے مگر کپتان جی اس کا کوئی جواب نہیں آیا، حالانکہ ملک میں پاک فوج کے بعد پولیس وہ فورس ہے جو ملک میں امن و امان قائم رکھنے کے ساتھ جرائم پیشہ افراد کے قلع قمع کیلئے ہر اول دستہ کا کردار ادا کرتی ہے اور پاک فوج کے بعد ملک کی حفاظت کیلئے سب سے زیادہ شہادتیں بھی پولیس کے محکمہ نے دی ہیں،
جو ایک سال سے آپ کو لکھے گئے خط کے جواب کے منتظر ہیں، آخر کب اور کون جوا ب دے گا، ان کا حق انہیں کون دلائے گا، یہ وہ سوال ہیں جس کے جواب کے ملک بھر کے تمام صوبوں کے صوبائی پولیس افسران و ملازمین انتظار میں ہیں، لیکن لگتا یہ ہے کہ کپتان جی آپ کے گرد بیورو کریسی کا جو حصار ہے یہ آپ کو اس خط کا جواب نہیں دینے دی گی، کیونکہ یہ بیورو کریسی حکومت پر حاوی نظر آ رہی ہے۔ کپتان جی اسی طرح کے خطوط دیگر محکمہ جات کے متاثرین، ملازمین نے بھی اپنے حقوق کیلئے آپ کو لکھے ہیں،
جو بھی جواب کے منتظر ہیں۔ اگر مناسب سمجھیں تو اپنے ماتحتوں سے ایسے اہم مسائل کے مراسلے فوری طور پر طلب کر کے ملک بھر کے ملازمین کے مسائل پر توجہ دیں اور ان کا کوئی حل نکالیں۔ کیونکہ آپ ملک کو خوشحال کرنے کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آئے تھے۔ یہ اسی صورت ممکن ہو گا جب آپ عوام اور سرکاری ملازمین سمیت دیگر طبقات کے مسائل حل کریں گے؟ لیکن کپتان جی سردست عوام اور سرکاری ملازمین کو موجودہ حکومت سے مایوسی ہے۔ جسے دور کرنا حاکم وقت کا فرض ہے۔