467

میں اور میرا پاکستان

میں اور میرا پاکستان

تحریر: محمد طالب عباسی کی زبانی
پاکستان 14 اگست 1947 میں دنیا کے نقشے پر ظہور پذیر ہوا۔پاکستان کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے بے شمار لوگوں نے اپنے گھر بار، بیوی بچے، جان و مال سب کچھ داوٴ پر لگا دیا تھا پاکستان کے قیام کے حصول کے لیے ہندوستان کے مسلمانوں نے 1857 کی جنگ آزادی کے بعد جہدو جہد کا آغاز کر دیا تھا لیکن قائداعظم محمد علی جناح کے بقول پاکستان اس وقت معرض وجود میں آ گیا تھا جب ہندوستان کا پہلا شخص مسلمان ہوا تھا۔ پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے کیوں کے اس کے پیچھے ایک نظریہ کارفرما ہے۔ جسے نظریہ پاکستان کہا جاتا ہے اور نظریہ پاکستان کے پیچھے نظریہ اسلام مضمر ہے

یعنی نظریہ پاکستان اور نظریہ اسلام ہم معانی ہیں نظریہ پاکستان اسلامی تعلیمات کی عملی شکل کا نام ہے۔ہندوستان کے مسلمانوں نے خالصتا اسلامی ریاست کا مطالبہ کیا تھا کے ایک ایسی ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے جہاں انڈیا کے مسلمان قرآن و سنت کے مطابق اپنی زندگیاں گزار سکیں ان کے مطابق تقسیم ھند کا مطلب ایک آزاد مسلم مملکت کا قیام تھا جس کا یہ مطلب ہرگز بھی نہ تھا کے دنیا کے ممالک میں ایک اور ملک کا اضافہ ہو جاہے یہ ریاست براۓ ریاست نہ تھی بلکے اس کے پس منظر میں ایک نظریہ ،ایک آدرش اور ایک مقصد تھا اور وہ مقصد دین محمدی کا نفاذ اور دین مصطفی کا اجرا تھا بہت سے ممالک نے مختلف نظریات اپنائے ہیں ، لیکن نظریات سے پیدا ہونے والے صرف دو ممالک اسرائیل اور پاکستان ہیں ، بالترتیب صہیونی تحریک اور دو قومی نظریہ۔
لیکن اسلام کے نام پر حاصل کیا جانے والا ملک آج اس کا نام ہی اسلامی جموریہ پاکستان رہ گیا ہے پاکستان آج تک اپنے وہ مقاصد حاصل نہ کر سکا جس کے لیے یہ بنایا گیا تھا۔بانی پاکستان قائداعظمؒ نے اپنی بہت ساری تقاریر میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پاکستان کا قیام اسلامی اصولوں پر استوار کیا جائے گا انہوں نے کراچی میں مسلم لیگ کے اجلاس (1943) میں خطاب کے دوران قرآن پاک کی طرف رجوع کیا اور ان الفاظ میں وضاحت فرمائی۔” وہ کونسا رشتہ ہے جس سے منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں؟ وہ کونسی چٹان ہے جس پر ان کی ملت کی عمارت استوار ہے؟ وہ کون سا لنگر ہے

جس سے اس امت کی کشتی محفوظ کر دی گئ ہے؟ وہ رشتہ،وہ چٹان، وہ لنگر الله کی کتاب قرآن مجید ہے۔ ہندوستان کے اندر مسلمانوں کی دوسرے مذاہب سے الگ پہنچان اسلام سے ہی ممکن ہوئی ہے۔ قائداعظمؒ نے ایک اور موقع پر فرمایا تھاکے ہمارا نصب العین یہ تھا کہ ہم ایک ایسی مملکت کی تخلیق کریں جہاں ہم آزاد انسانوں کی طرح رہ سکیں جہاں ہماری تہذیب و تمدن پھلے پھولے اور جہاں معاشمرتی انصاف کے اسلامی تصور پوری طرح پنپنے کا موقع ملے۔ لیکن تحریک پاکستان کے دوران ہر شخص قیام پاکستان کو اپنے تصور کی آنکھ سے دیکھ رہا تھا راسخ العقیدہ افراد ایسی پاکیزہ اسلامی ریاست کا خواب دیکھ رہے تھے جس میں وہ قرآن و سنت کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ فوج اور نوکر شاہی اس لیے خوش تھیں کے نئ ریاست میں ان کے لیے ترقی کی راہیں ہموار ہوں گی۔ تاجر اور صنعت کار خوشحالی کے کاروبار کے لیے آزاد راہیں تلاش کر رہے تھے

جہاں ہندوؤں سے مسابقت نہ ہو۔ جاگیردار اور وڈیرے ترقی پسند سیاست دانوں سے چھٹکارہ چاہتے تھے جو جاگیرداری کے خاتمے کی بات کر رہے تھے۔ انگریزوں نے بھی محسوس کر لیا تھا کہ مسلمان ہندوؤں کی بنسبت ذہنی محکوم نہیں ہوتے بالکہ خانوں، وڈیروں، پیروں اور جاگیرداروں کے آگے باآسانی گھنٹے ٹیک دیتے ہیں۔ 1928 کی نہرو رپورٹ کے بعد جناح کی عملاً اور حقیقتاً سوچ بدل گئی تھی۔ 1937 کے الیکشن میں مسلمانوں کے مسلم لیگ کو صرف 5 فیصد ووٹ ملے۔ اس وقت مسلم لیگ کو جاگیرداروں اور وڈیروں کی حمایت حاصل نہیں تھی اور ووٹ نہ دینے والے %95 لوگ انہیں وڈیروں اور جاگیرداروں کے زیراثر تھے مسلم لیگ نے ان وڈیروں اور جاگیرداروں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کہ کسی نہ کسی طرح پاکستان تو حاصل کر لیا

لیکن پاکستان بننے کے بعد ان کو پارٹی ڈسپلن نہ سیکھا سکی اور پاکستان بننے کے بعد ہی مسلم لیگ کا شیرازہ بکھر گیا۔ پاکستان بننے کے بعد اس کو کئی چیلنجز کا سامنا تھا جس کی وجہ قائداعظم محمد علی جناح کو نئ مملکت کا قانون بنانے کا موقع نہ مل سکا اور ان کی وفات کے بعد جاگیرداروں، وڈیروں اور افسرشاہی کو اپنی مرضی کی حکومت کرنے کی کھلی چھٹی مل گئی۔اس کے بعد 1949 میں اسلامی ریاست کے حوالے سے قرارداد مقاصد پیش کی گئی جس میں اسلامی طرز حکومت کی ضمانت دی گئی تھی ۔
علامہ اقبال نے اپنے اشعار میں بھی ملت اسلامیہ کے بارے میں بڑے واضح انداز میں فرمایا۔

اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سےنہ کر۔

خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی۔

ان کی جمیعت کا ہے ملک و نسب پر انحصار ۔

قوت مذہب سے مستحکم ہے جمیعت تری۔

پاکستان کی بنیاد نظریہ اسلام پر رکھی گئی تھی کہ پاکستان ایک ایسی ریاست ہو گی جس میں مسلمانوں کو قرآن و سنت کے مطابق زندگی گزارنے کا موقع ملے گا۔ لیکن قیام پاکستان کے بعد ملک اپنے مقاصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ پاکستان کے تینوں دساتیر میں قرارداد مقاصد کو ابتدائیہ کے طور پر رکھا گیا رائج الوقت آئین پاکستان میں ترمیم کر کے اس کو آئین کا لازمی جزو قرار دے دیا گیا۔ پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا گیا لیکن عملا اسلامی طرز حکومت کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں