کپتان جی صوبائی پولیس افسران و رملازمین کو انصاف دو 150

شہباز، حمزہ کیس، کرپشن ثبوت 5 صندوق

شہباز، حمزہ کیس، کرپشن ثبوت 5 صندوق

تحریر: اکرم عامر سرگودھا
فون نمبر: 03008600610
وٹس ایپ: 03063241100

ہمارے ملک کا یہ المیہ رہا ہے کہ جب سے یہ وجود میں آیا اس وقت سے سیاستدان، بیوروکریٹ، چھوٹے بڑے ملازم، جاگیردار، وڈیرے، صنعتکار اور تاجر عوام حتی کہ ہر طبقہ کے لوگوں کی اکثریت اس ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں مصروف ہے، جسے ’’کرپشن‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ کرپشن کی مختلف قسمیں ہوتی ہیں، سرکاری ملازم محکمہ کے بجٹ کو خوردبرد اور رشوت لے کر کرپشن کے مرتکب ہوتے ہیں تو صنعتکار بجلی چوری اور ٹیکس بچا کر اس کا حصہ بنتے ہیں، جاگیردار اور وڈیرے آبیانہ، مالیہ بچا کر اور بینکوں سے قرض لے کر خرد برد کرکے اور غریب کا حق مار کر کرپشن کرتے ہیں، کرپشن کی روک تھام کرنے والے ادارے کرپشن کے فروغ کا باعث بنے ہوئے ہیں اس طرح جہاں جس کا دائو لگتا ہے وہ کرپشن کا مرتکب ہو کر ملکی خزانہ کو اپنی تجوریوں میں منتقل کر لیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ کرپشن کے ناسور نے ملک کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے،

ملک کا ہر بچہ بڑا عالمی مالیاتی اداروں کا مقروض ہے، ملک کے بڑے بڑے ادارے غیر ملکی بینکوں کے قرضے تلے دبے ہوئے ہیں، پیپلز پارٹی ہو یا مسلم لیگ (ن)، پی ٹی آئی ہو یا کوئی اور جماعت، ہر حکومت نے اقتدار میں آ کر سب سے پہلا نعرہ ملک سے کرپشن ختم کرنے کا لگایا، لیکن پھر الٹا کھیل کھیلا گیا، بادی النظر میں ماضی کے حکمرانوں نے قومی خزانہ کو اتنی بیدردی سے لوٹا کہ جس کی دنیا کے کسی ملک میں مثال نہیں ملتی۔ اسی طرح کی صورتحال موجودہ حکومت کے دور میں بھی ہے، نیچے سے اوپر تک کرپشن کا دور دورہ ہے، یہی وجہ ہے کہ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ کرپشن کے ثبوت اب عدالتوں میں فائلوں کی بجائے صندوقوں میں پیش کرنے پڑرہے ہیں۔ جو کہ دنیا میں ملک و قوم کیلئے بد نامی کا بھی باعث ہے۔
پی ٹی آئی کے کپتان عمران خان اقتدار میں آئے تو انہوں نے بھی کرپشن کو ملک کا سب سے بڑا ناسور قرار دیا اور کہا کہ یہ (کرپشن) ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہی ہے، وہ (عمران خان) سب سے پہلے ملک سے کرپشن کا خاتمہ کریں گے اور احتساب بلا امتیاز ہو گا۔ کرپشن کے خاتمہ کیلئے پی ٹی آئی کے کپتان نے نیب، اینٹی کرپشن، ایف آئی اے سمیت دیگر اداروں کو متحرک کیا اور احتساب کا عمل شروع ہوا، کئی پی ٹی آئی کے بڑے نام بھی احتساب کی زد میں آئے، تو اپوزیشن بالخصوص مسلم لیگ (ن) کی قیادت عوام کو باور کرانے لگی کہ اپوزیشن کیخلاف انتقامی کارروائیاں کی جا رہی ہیں، کپتان کی حکومت کے پاس اگر کوئی کرپشن کا ثبوت ہوتا تو وہ کسی فورم پر پیش کرتے۔ یہی بحث مباحثہ جاری ہے اور شہباز شریف، حمزہ و دیگر کیخلاف زیر سماعت کیس میں ایف آئی اے پنجاب کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد رضوان و ماتحت عملہ نے شہباز شریف اور ان کے بیٹے حمزہ شہباز کیخلاف عدالت میں کرپشن کے پیش کیے ہیں تو پتہ چلا کہ یہ ثبوت چند فائلوں پر مشتمل نہیں بلکہ پانچ صندوقوں پر مشتمل ہیں

جن میں کرپشن کی فائلوں کو ترتیب دے کر رکھ کر عدالت میں پیش کیا گیا ہے، ایف آئی اے حکام کہتے ہیں کہ شہباز شریف، حمزہ شہباز اور دیگر پر کرپشن کے لا تعداد ثبوت موجود ہیں، کرپشن کی فائلوں پر مبنی صندوق اب عدالت میں پیش کیے جا چکے ہیں، عدالت نے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی عبوری ضمانت میں 9 اکتوبر تک توسیع کر دی ہے، لاہور کی بینکنگ کورٹ کی عدالت منی لانڈرنگ کیس و ایف آئی کے مقدمات میں پیش کیے گئے کرپشن کے ان ثبوتوں کا جائزہ دوران سماعت لے گی، پھر سزا جزا کا تعین ہو گا کہ شہباز شریف اور حمزہ نے کتنی کرپشن کی ہے؟ اسی قسم کی کرپشن کی کہانیاں حکومت اور اپوزیشن کے دیگر لیڈروں کے گرد گھوم رہی ہیں، قانون نافذ کرنے والے ادارے کہتے ہیں کہ ان میں سے کچھ کے ثبوت مرتب کیے جا چکے ہیں،

کچھ عدالتوں میں پیش ہو چکے ہیں، اور کچھ ثبوتوں کی فائلیں اسی طرح صندوقوں کی شکل میں جلد عدالتوں میں پیش کر دی جائیں گی تا کہ کرپشن کے مرتکب سیاستدان ، بیورو کریٹ و دیگر طبقہ اپنے کیے کی سزا بھگت سکیں؟یہاں توجہ طلب امر یہ ہے کہ ماضی میں بھی کرپشن کے بڑے بڑے سکینڈل عدالتوں میں زیر سماعت رہے جن میں سابقہ وزراء اعظم، وزرائ، بیورو کریٹ اور بڑے بڑے نامی گرامی نام شامل تھے،

لیکن شاید عدالتی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہو رہا ہے کہ کرپشن کے ثبوت صندوقوں میں اکٹھے کر کے عدالتوں میں پیش کیے جانے لگے ہیں۔ ثبوت جمع کروانے والی تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ متذکرہ سیاستدان دوران انکوائری تعاون کرنے سے گریزاں رہے، سوال کرتے تو موصوف پرانی کہانیاں سناتے، شہباز شریف کو تو یہ بھی یاد نہیں کہ کاروبار حمزہ چلاتے ہیں یا ان کے بیٹے سلیمان؟ سو کرپشن کے ایک بڑے کیس میں اتنے بڑے ثبوت پیش کرنا کسی تحقیقاتی ادارے کا خاص خاصہ ہے جس کا نتیجہ کیا نکلے گا اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے؟
کپتان کی حکومت کو تین سال گزر چکے ہیں

کپتان نے بھی اسی طرح ملک سے کرپشن کے خاتمے کا نعرہ لگایا تھا جس طرح آنے والی سابقہ ہر حکومت کے حکمران لگاتے تھے، لیکن ماضی میں دیکھا گیا ہے حکمران اقتدار میں آ کر کرپٹ عناصر کو پکڑنے کی بجائے اکثر خود اس کرپشن کی دلدل میں دھنس جاتے تھے، کپتان کی حکومت کے دور میں بھی پی ٹی آئی کے کئی افراد کرپشن کے الزامات کی زد میں آئے اور ان کے کیس عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ یہاں دیکھنا یہ ہے کہ کیا کپتان کا دور بھی سابقہ حکمرانوں کی طرح کا سا ثابت ہو گا اور ملک میں کرپشن کا اسی طرح زور رہے گا جس طرح چل رہا ہے، کیونکہ کپتان کے دور میں بھی اب تک کرپشن ختم تو درکنار کم بھی نہیں ہوئی؟

لیکن کپتان اب بھی پر عزم ہیں کہ وہ کرپشن کا خاتمہ کر کے دم لیں گے؟ تو کپتان جی ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بر سر اقتدار آتے ہیں سب سے پہلے ملک کو کرپشن کے ناسور سے پاک کر دیا جاتا تو اب تک ملک ترقی کی طرف گامزن ہو جاتا اور اسکا ریلیف عوام کو ریلیف ملتا، لیکن حالات تو اب بھی ماضی کی حکومتوں کی طرح ہی لگ رہے ہیں، کرپشن، مہنگائی، بیروزگاری نے عوام کا بھرکس نکال کے رکھ دیا ہے۔ حالیہ تین برسوں میں غربت، بیروزگاری، مہنگائی کی وجہ سے خود کشیوں کی شرح میں کئی فیصد اضافہ ہوا ہے۔
سو بات کہاں سے کہاں نکل گئی بات ہو رہی تھی شہباز شریف اور حمزہ کیخلاف کرپشن کیسوں میں پیش کیے جانے والے ثبوتوں کی جو ایف آئی اے حکام نے صندوقوں میں پیش کیے، اب ان ثبوتوں کا جائزہ لے کر عدالت شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی سزا جزا کا تعین کرے گی، میاں نواز شریف پہلے ہی کرپشن کیسز کی وجہ سے ملک سے علاج کرانے کے چکر میں باہر گئے لیکن واپس نہیں آئے، جبکہ شہباز شریف کو مقدمات کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ بکھرتی مسلم لیگ (ن) کو بھی سنبھالنا ہے اور پارٹی میں اختلافات کو کم کرنا ہے۔
کپتان جی شہباز ، نواز ، حمزہ شہباز کی طرح حکومت اور اپوزیشن کے بہت سے سیاستدانوں، بیوروکریٹس کی کرپشن کی اسی نوعیت کی فائلیں دفتروں میں سالہا سال سے الماریوں میں دبی پڑی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک بھر کے سیاستدانوں، بیورو کریٹس اور دیگر کرپشن میں ملوث طبقات کی زیر التوا انکوائریاں فوری طور پر نکلوا کر انہیں مکمل کر کے منطقی انجام تک پہنچایا جائے تو پھر عوام یقین کریں گے کہ آپ کرپشن کے خاتمہ کیلئے مخلص ہیں؟ ورنہ تو کپتان جی اگر یہی صورتحال رہی تو آپ کا شمار بھی سابقہ حکمرانوں جیسا ہی ہو گا، جو اقتدار میں آنے سے پہلے کرپشن کے بلند و بانگ دعوے کرتے رہے اور اقتدار میں آ کر اپنا بیانیہ بدل لیا تا کہ اپنا دورانیہ پورا کر کے کھوکھلا کر کے چلتے بنیں۔ کپتان جی مورخ نے تاریخ لکھنی ہے اس لئے ابھی دو سال سے کم وقت آپ کی حکومت کے پاس ہے، اب بھی احتساب کیجئے لیکن بلا امتیاز تو ایسی کئی انکوائریاں نکلیںگی جن میں پانچ نہیں کئی کئی درجن صندوق بطور ثبوت عدالتوں میں پیش کرنے پڑیں گے؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں