تریپورہ منظم مسلم کش فساد
تحریر: نقاش نائطی
۔ +966562677707
اسلام کی فطرت میں قدرت نے یہ لچک دی ہے
اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے
عالمی سازشوں کے متعدد بار بغداد کو روندے جائے کے باوجود، بغداد کی گلیاں اس بات کی شاہد رہی ہیں کہ اسلام کی نشوونما کے لئے بغداد کی حصہ داری ہمیشہ تسلیم کی جاتی رہی ہے۔ 2002 گجرات، 2016 اعظم گڑھ 2020 دہلی منظم فساد بعد اب 2021 تریپورہ منظم مسلم کش فسادات کے ذریعہ دشمنان اسلام، ہم بھارت کے مسلمانوں کو جو پیغام دینا چاہتے ہیں انہی اس بات کا ادراک رہے کہ اسلام دنیا میں دبنے اور ختم ہونےکو نہیں بلکہ پورے عالم کو منور کرنے کے لئے آیا ہے۔ بھارتیہ ھندو شدت پسند مسلمانوں کو، جو بھی پیغام وہ دینا چاہیں وہ دیتے رہیں لیکن اس بات کا ادراک انہیں بخوبی رہے
کہ یہ دین اسلام کو کبھی ختم کرنے میں کامیاب ہو نہیں سکتے ہیں۔ یہ صرف ہمارا کہنا ہی نہیں بلکہ ھندو احیاء پرست شدت پسند ھندو جنونیوں کو بھی اس کا بخوبی احساس ہے لیکن سب کچھ جانتے بوجھتے وہ بھارت کی ھندو اکثریت کو مسلم دشمنی میں سرشار رکھے،ان کا استحصال کرتے رہتے، بھارت پر حکمرانی کے اپنے خواب کو سدا زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔ ابھی یوپی سمیت پانچ صوبوں کے انتخابات جو ہونے جارہے ہیں انہیں پتہ ہے پانچوں ریاستی انتخابات میں انکی شکست یقینی ہے،پھر بھی مسلم منافرت کا انکے پاس موجود آخری تڑپ کا پتہ کھیلتے ہوئے، پس ماندہ ذات برادری پچھڑی جاتی، اکثرہت والی تریپورہ جیسے بھارت کے دوسرے سب سے چھوٹے راجیہ میں، ھندو شدت شدت پسندوں نے ایسا کیا جادو کردیا
کہ 42 لاکھ آبادی والے تریپورہ میں کم و بیش 9% فیصد کے حساب سے 3 لاکھ 78 ہزار والی مسلم آبادی کو، وہاں کی پچھڑی جاتی اکثریت، منظم طریقے سے مارنے پر اترآئے۔ 2002 گجرات فساد میں سنگھی مودی امیت شاہ کی یہی حکمت عملی تھی، وہاں گجرات کے دلت و ہچھڑی جاتی ھندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف منظم طریقے سے مارنے مرنے پر اکسایا تھا۔ اب ان 5 ریاستی انتخاب سے پہلے، بنگلہ دیش کے ھندو درگا پوجا پنڈال میں، اپنے گرگوں کے ہاتھوں قرآن کریم کی بےحرمتی کروا، بنگلہ دیشی مسلمانوں کے ہاتھوں ھندوؤں کی بنی درگت کا بہانہ بنا، سنگھی حکمرانوں نے،بہت ہی بڑی سازش کے تحت،تریپورہ میں مسلم کش فساد برپا کرواتے ہوئے،
ھندو احیا پرستی کا ترپ کا پتہ عین 5 ریاستی انتخابات سے قبل کھیلتے ہوئے، کم از یوپی انتخاب جیتنے کے فراق میں لگتی ہے آرایس ایس بی جے پی سنگھی حکومت۔ اپنے ظلم کی انتہا روا رکھتے ہوئے ، وہ کسی صورت یوپی انتخابات جیتنے کے فراق میں لگتے ہیں کسی صورت ھندو مسلم منافرت آگ بھڑکا کر ہی اگر وہ اپنےمقصد میں کامیاب رہتے ہیں تو سونے پہ سہاگہ بصورت دیگر انہیں مسلم منافرت بھڑکا اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کا کچھ تو موقع ملا اس پر وہ شاکر رہتے پائے جاتے ہیں
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا مولانا ظفر علی خاں ایک خوبصورت ویڈیو کلپ کسی دوست نے آج ہی ہمیں ارسال کی ہے اسے ہم نے تریپورہ مسلم کش فساد پر کچھ لکھنے کی جستجو کرتے، ہمیں اپنے اللہ کی طرف سے بھیجے اس ویڈیو کلپ کو بہترین موقف جانا اور اسی پر اپنے تفکرات قلم بند کرنے کی کوشش کر رہے ہیں
کسی قبیلہ کا جنگجو گھوڑا دلدل میں پھنس جاتا ہے۔ قبیلہ کے ذمہ دار گھوڑے کی تلاش میں گھوڑے کے دلدل میں پھنسے مقام تک پہنچ جاتے ہیں۔ دلدل کی گہرائی و گیرائی کا جائزہ لیا جاتا ہے، وہ گر چاہتے تو، دلدل میں پھنسے گھوڑے کو رسی باندھ کر اپنے گھوڑوں کی مدد سے کھینچ، دلدل سے آرام سے آزاد کراسکتے تھے، لیکن چونکہ انکا جنگجو تربیت یافتہ گھوڑا تھا اس کے ذہن وافکار پر بوقت ضرورت انسانی مدد آنے کی امید میں، کسی اور جگہ پھنسنے پر,انتظار کرتے، تل تل مرنے کے بجائے،
کتنے بھی خراب ناموافق حالات سے نبزد آزما رہتے، اپنی شجاعت و قوت آزادی سے حالات سے لڑتے ہوئے، اپنے اطراف کے ناموافق حالات کے ساتھ نبزد آزما ہونے کی تدریب و تربیت دینے ہی کی نیت سے، باہم مشورہ کرتے ہیں اور پھر قبیلے کے اور انیک اس کے ساتھی گھوڑوں کو اس دلدل کے اطراف گول گول بھگاتے ہوئے، دلدل میں پھنسے اپنے جنگجو گھوڑےمیں بھی، اپنے اور ساتھیوں کے ساتھ دوڑنے اور موج مستی کرنے کی تڑپ جگانے میں کامیاب ہوتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے دلدل
میں پھنسے گھوڑے کے تن بدن میں دلدلی قید سے نکلنے اور آپنے ساتھیوں کے ساتھ دوڑنے کی امنگ جاگ جاتی ہے اور وہ دلدل میں پھنسا گھوڑا اپنی پوری قوت یکجاکئے، دلدل سے نکلنے کی بارہا پئے درپے کوشش کرتا ہے اور یوں وہ بظاہر انسانی مدد کے بغیر ہی، اس میں پیداکئے جانے والے، جہادی جذبے ہی سے سرشار ہوتے،اپنی ہی قوت ارادی کے سہارے دلدل سے باہر خود سے نکلنے میں کامیاب رہتا ہے
یہ تو اوصول فطرت ہے ہم اسلام کے سپاہیوں کو، اپنے میں قوت ارادی اور قوت مدافعت یکجا کر، اپنے اطراف کے دشمنوں سے خود سےنبزد آزماہونے کی تڑپ و فکر پیدا کرنا مقصود ہوتا ہے۔ شیر اپنے بچوں کو زندگی پھر خود شکار کر انہیں بیٹھ کر کھلاتے، ہم کبھی نہیں پاتے ہیں۔ باز اپنے بچوں کو اپنی پیٹھ پر بیٹھا صدا اڑا نہیں کرتا یے، یہاں تک کہ جنگل کےانجان کنوئیں کی جھاڑیوں میں،پرورش پارہے ابابیل،اپنے بچوں کو اڑنا سکھاتے، کنوئیں کے پانی میں گر کر ، ڈوب غرق ہوتےمرتے نہیں دیکھا کرتے،
بلکہ ان بے زبانوں کی تربیت اتنی عمدہ ہوتی ہے کہ وہ پہلی ہی جست میں ماہر بن جایا کرتے ہیں۔ لیکن اشرف المخلوقات کہے جانے والے اعلی تمدنی ترقی یافتہ تعلیم یافتہ ہم انسان ہی اپنی اولادوں کو،ان کے جوان سال ہونےکےباوجود نہ صرف بے بی فیڈر کی طرح کھلا اورپلا رہے ہوتے ہیں، بلکہ انکے شاندار مستقبل کی ضمانت کے لئے، اپنی آخرت خراب کر، انکے کے لئے ڈھیر ساری دولت چھوڑ انہیں نکما بنا رہے ہوتے ہیں
جہاں تک بعد آزادی ھند بھارت میں مسلسل ہوتے رہے فسادات ہوں یا 2014 بعد سنگھی مودی یوگی راج میں مختلف جگہوں پر ماقبل انتخاب منعقد پذیر ہونے والے مختلف فسادات ہوں، بعد فساد تباہ حال مسلم آبادیوں کی بازآباد کاری میں ہم مسلمان اتنے تربیت یافتہ ہوگئے ہیں کہ گویا ہم،ہمہ وقت منتظر پائے جاتے ہیں کہ کہیں فساد برپا ہو اور ہم اپنے اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے ہی کی نیت سے،اتنےبڑھ چڑھ کر، بعد فساد متاثرین کی بازآباد کاری میں لگ جاتے ہیں کہ کچھ وقفہ بعد، اس علاقے کی خوشحالی دیکھ، پتا بھی نہیں چلتا کہ کچھ عرصہ قبل اس علاقے میں فساد تاراجی بھی ہوئی تھی؟ تباہ شدہ مساجد کی ازسر نو تعمیر سے، بھی بعض علاقے کے مسلمان، اپنی خستہ حال مساجد کو کسی ایسے فساد کی نظر تباہ ہونے کی گویا دعا کرتے پائے جائیں۔
یہی تو امت مسلمہ ھند اور امت مسلمہ عالم کے ساتھ ہوتا آیا ہے۔اور مسلمان اس چکرویو یا پریشان حالی سے نکلنے میں کامیاب نہیں پائے جاتےہیں، تو مستقبل میں بھی انکے ساتھ یہی کچھ توہوتا رہیگا۔ تمثیل یہودیوں کے ہاتھوں مسلسل تباہ و برباد ہوتے فلسطینی علاقوں کو ہی ذہن میں رکھا جائے، وقفہ وقفہ سے یہود کسی نہ کسی بہانے فلسطینی علاقوں کو اپنی بمباری سے تباہ و برباد تاراج کرتے رہتے ہیں
اور گویا کچھ سالوں تک ان تباہ حال فلسطینی علاقوں کی باز آبادکاری آس پاس کے مسلم عرب ملکوں کے کندھوں ہی پر رہتی ہے۔ گویا نازی یہودی حکومت، دانستہ سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت، کچھ سالوں کے وقفہ سے، فلسطینی آبادیوں کو تہس نہس کرتے رہتے ہیں اور عرب حکمران ان فلسطینی ابادیوں کی باز آباد کاری سے، گویا بنا تکھے بازآباد کاری میں مسلسل محو و مصروف پائے جاتے ہیں۔ گویا یہود سازش کاروں کو پتہ ہے کچھ سالوں کے وقفہ بعد، ان عرب حکمرانوں کو تباہ حال فلسطین کی بازآباد کاری میں مشغول نہ رکھا جائے تو شاید فلسطین کی بازاباد کاری کی فکر سے آزاد عرب قوم، اسرائیلی ہی کو صفحہ ہستی سے مٹانے کمربستہ نہ پائے جائیں۔
یہی کچھ بھارت کے مسلمانوں کے ساتھ ہوتا آیا ہے اور ہم مسلمان باہم اتفاق سے، اس سازش کا مداوا کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو مستقبل میں بھی ہم بھارتیہ مسلمانوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا رہیگا۔ 2002قبل صوبائی انتخاب گجرات فساد بعد، سنگھی مودی جی کی مکمل اکثریتی جیت نے اور 2016 ماقبل یوپی انتخاب نوٹ بندی کے چلتے اپنے کھسکتےووٹ کو، اعظم گڑھ منظم مسلم کش فساد بعد، مکمل اکثریتی یوپی سنگھی جیت نے، ان شدت پسند سنگھیوں کو صدا انتخاب جیتنے، مسلم دشمنی درشا اکثریتی ھندو ووٹروں کو حاصل کرنے کا سنجیونی بوٹی کی صورت نسخہ کیمیہ دیا ہوا ہے۔جب جب بھی انہیں اپنے بل پر صوبائی یا مرکزی حکومتی انتخاب جیتنے میں دقت پیش آتی ہے، تو وہ انتخاب سے قبل کسی علاقے کے مسلم اقلیت کو آگ میں جھونک آنتخاب جیتے پائے جاتے ہیں۔
اور مسلمان سب کچھ جانتے بوجھتے اپنی کھلی آنکھوں سے، کسی مسلم علاقے کی تاراجی دیکھتے، بعد فساد انکی بازآباد کاری سے اپنے مسلم امہ کی فکر کو درشاتے پائے جاتے ہیں۔ ہم بعد فساد بازآباد کاری کے مسلم جذبہ کے خلاف نہیں ہیں، جو بازآباد کاری کا کام کرتے ہیں انہیں اپنا کام کرنے دیں لیکن مسلم دانشوروں کا ایک طبقہ کاش کہ دلدل میں پھنسے اس گھوڑے کو ان قبائلی جنگجوؤں کے قوت ارادی عطا کر، خود سے دلدل سے نکلنے جیسا خود مدافعتی آگہی علم،بھارت کے مختلف علاقوں میں بسے مسلمانوں تک ودیعت کر، انہیں اپنے اطراف کے دشمنوں سے نبزد آزما ہونےکی آگہی دیتے پھریں تو یقینا کسی بھی علاقے کے ہم مسلمان ، اپنے اطراف کے دشمنوں کے مقابلہ میں تعداد میں کم ہونے کے باوجود، ہمارے دینی اقدار قوم و ملت کی دفاع کرتے مرے تو شہید یعنی سیدھے جنتی اور بچے تو عزت و قدر و منزلت والے غازی، دونوں طرف کی جیت ہی جیت کے چلتے،
اپنے سے کئی گناہ دشمنوں پر بھاری پڑنے کافی ہوتے ہیں۔ ہمیں یاد پڑتا ہے نوے کے دہے میں سنگھی پولیس کو اعتماد میں لیتے ہوئے، تریپورہ جیسے ہی ترشول بردار ھندو شدت پسندوں کے کئی سو پر مشتمل دہشت گردوں نے، منظم انداز اچانک مسلم علاقوں میں حملہ کر ایک 90 سالہ بڑھیا اور دو ساٹھ سالابزرگوں کو شہید کرتے ہوئے، علاقےکے مسلمانوں کو اپنے حفاظتی حصار میں 24 گھنٹہ تک مقید رکھنے میں کامیابی حاصل کرلی تھی اور وقفے وقفے سے قرب و جوار کے، کرائے کے غنڈوں کو لاکر،مسلم علاقوں میں یلغار کرتے گھسنے اور تباہی مچانے کے فراق میں تھے۔ لیکن الحمد للہ شہادت کے جذبہ سے سرشار کچھ سرپھرے جوان بچوں نے، نعرہ تکبیر اللہ و اکبر کا نعرہ لگاتے حصار بند ھندو شدت پسندوں کا گھیرا توڑ، ان کے علاقے میں گھس کر، کچھ باہر سے آئے
غنڈوں کو ڈھیر کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں اور چونکہ اس وقت مرنے والے قرب و جوار گاؤں سے آئے، شرپسند عناصر تھے، اسلئے شرپسند ان کی اموات بعد، انکے پارتو شریر کوخاموشی سےانکے علاقوں میں منتقل کروا، امن قائم کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ وہ دن اور آج کا دن ، پولیس ریکارڈ مطابق اپنے وقت کا ھندو مسلم منافرت والا مشہور سرخ زنگی زون، ان تین دہوں میں، خصوصا 2014 والے،اب کے اس خطرناک مذہبی منافرت والے اس مودی دور میں بھی، ہمارا علاقہ امن و شانتی کا گہوارہ بنے،
اس منافرت آمیز سنگھی بھارت کے لئے ایک مثالی امن والا علاقہ بن چکا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہمارے علاقےمیں منافرت پھیلانے والے سنگھی شدت پسند ھندوؤں کی کمی ہے؟ لیکن کمزور مسلمانوں پر اپنا زور بازو بتانے اور جتانے والے یہ شدت پسند ھندو احیا پرست، برابری کی سطح پر مقابلہ آرائی سے ہمیشہ اجتناب کرتے پائے جاتے ہیں، اسی لئے ہمیشہ جب جب بھی ھندو مسلم تہواروں کے مواقع پر دونوں طرف ذمہ دار، امن عامہ نشستوں سے علاقے میں، امن قائم رکھنے میں ہمیشہ کامیاب رہے ہیں
ہمیں یاد پڑتا ہے 2006 بنگلہ دیش کے نوبل انعام جیتنے والے محمد یونس نے، اپنے وسائل سے غربت کے مارے،سمندر و ندی نالوں کے درمیان بسے بنگلہ دیشیوں کو، معشیتی طور اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے،گرامین بنک شروع کرتے ہوئے کہا تھا کہ کسی بھوکےغریب کو ایک وقت پیٹ بھر کھانے، اس کے ہاتھ میں ایک مچھلی تھما دینے سے اچھا ہے کہ انکے ہاتھ میں مچھلی پکڑے والا جال تھما اسے مچھلی پکڑنے کا گر سکھادیا جائے تو وہ نہ صرف مچھلی پکڑ خود پیٹ بھر کھانے لائق بنےگا بلکہ مچھلی پکڑ پکڑ اور بہتوں کو کھلانے کا بندوبست کرتا پایا جائیگا۔ بالکل اسی طرز، بعد فساد تباہ و بربادمسلم معاشرے میں،
باز آباد کاری کے نام کروڑوں خرچ کرنے کے بجائے، دستور الھند میں اقلیتوں کو خود حفاظتی دئیے اختیارات ہی کے تحت، حساس علاقوں کے کم تعداد مسلمانوں کو خود مدافعتی تربیت گر دی جائے اور ان میں کثرت تعداد سے ڈرے بنا اپنے بچاؤ میں لڑتے ہوئے خود کے ساتھ اپنے بہن بھائیوں کو بچانے کی تربیت و تدریب دی جائے تو یقینا یہ ہم مسلم اقلیت پر، ہمارے لیڈران کا بڑا کرم ہوگا۔کسی ایک علاقے میں اقلیت میں ہونے کے باوجود، وہاں کے مسلمان اپنے خود اعتمادی سے،خود حفاظتی طریقے پر لڑتے ہوئے، ان پر حملہ آورشدت پسند غنڈوں میں سے چند کو ڈھیر کرنے میں گر کامیاب رہتے ہیں تو، خربوزے کو دیکھ خربوزہ رنگ پکڑتا ہے مثل مصداق، ہر علاقے کے مسلمان اقلیت میں ہونے کے باوجود، ان شدت پسند غنڈوں پر بھاری پڑتے ہوئے،
پورے بھارت میں ھندو مسلم محبت اخوت کا ماحول پیدا کرنے میں یقینا کامیاب ہو سکتے ہیں۔ یہ اسلئے کہ یہ ڈرپوک ھندو شدت پسند سنگھی سرپھرے ، ہمیشہ سے کمزور و ناتواں پر حملہ آور ہوتے پائے جاتے ہیں،خود مرنے سے ڈرتے ہیں،ایک مرتبہ کسی بھی علاقے کے مسلمان اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے، ان پر حملہ آور شدت پسندوں میں چند کو،ڈھیر کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو یقین مانئیے برابری کی سطح پر لڑنے سے یہ ڈرپوک سنگھی ہمیشہ کتراتے پائے جائیں گے۔ اس لئے اس انگرئزی مقولے کے مصداق، “حملہ آور پر حملہ کرنے میں پہل مدافعتی جنگ کا بہترین ہتھیار ہوا کرتا ہے” یقینا مسلم علاقوں کو ان شدت پسند ھندو جنونیوں سے آمان میں رکھنے ممد و مددگار ضرور ثابت ہوگا ۔ وما علینا الا البلاغ
بعد فساد باز آباد کاری کے بجائے، خود مدافعتی گر مسلمانوں کو سکھایا جائے
وقتی جسمانی مدد کے بجائے مجبور و لاچار لوگوں میں، خود اعتمادی پیدا کرتے ہوئے، حالات سے نبزد آزما ہونے کا گر سکھاتے، دلدل میں پھنسے گھوڑے کو خود سے نکلتے دیکھئے۔ اور دستور ھند میں ہمیں تفوئض،اپنے مسلمان بھائیوں میں، خود حفاظتی فن کا استعمال کر، اپنے اطراف کے ان پر حملہ آور غنڈوں سے بچنے کا گر سکھلایا جائے ابن بھٹکلی