Site icon FS Media Network | Latest live Breaking News updates today in Urdu

ماؤں کی گود میں قوم کا مستقبل

ماؤں کی گود میں قوم کا مستقبل

ماؤں کی گود میں قوم کا مستقبل

ماؤں کی گود میں قوم کا مستقبل 

تحریر:عینی ملک

اللہ پاک نے جہاں مرد کو منفرد و اعلیٰ مقام سے نوازا ہے۔ وہاں اللہ سبحان و تعالیٰ نے عورت کو مرد پر بھی تین درجے زیادہ فضیلت عطا کی ہے۔ الله پاک ہر چیز کا خالق و مالک ہے اور اپنی تمام کائنات کی تخلیق میں سے سب سے پہلے تخلیق کا وصف صرف عورت کو عطا کیا ہے۔ دوسرا وصف اللہ پاک نے اپنی محبت کو صرف ماں کی محبت سے تشبیہ دی ہے۔ تیسرا وصف وہ خود پردے میں ہے لیکن اپنی ساری مخلوق میں سے اللہ پاک نے صرف عورتوں کو پردے میں رہنے کا حکم دیا ہے۔ عورت ہونا اور باحجاب ہونا اس ربِ کریم کا بہت بڑا احسان ہے اسکا جتنا شکر ادا کریں اتنا ہی کم ہے۔ماں ایک عظیم رشتہ بھی ہے اور ایک عظیم درس گاہ بھی۔ جہاں سے قوموں کے مستقبل کا آغاز ہوتا ہے۔ ماں کی شان میں میری کتاب “اے کاش” سے ایک نظم ” ماں کی دعا ” پیش خدمت ہے۔

(نظم)
درد و غم ، تقدیر
سب سے لڑ جاتی ہے ایک دعا
آنسو ، اندھیرے مفلسی ، ذلت
سب سے لڑ جاتی ہے ایک دعا
ناممکن کو ممکن میں بدل دے
کچھ ایسا اثر کر جاتی ہے یہ ایک دعا
چاند ، سورج ، ستارے ،موتی بن جاتے ہیں مقدر
دکھوں کے آگے یوں ڈٹ جاتی ہے یہ ایک دعا
ہاتھوں کی لکیروں سے تقدیر کے ستاروں تک
سب سے لڑ جاتی ہے یہ ایک دعا
اداس لمحوں میں پلکوں کے سب بوجھ اتارے
ایسی طاقت ہے یہ ایک دعا
پھول تتلیوں ، جگنوؤں سے بھر دے دامن
روشن صبح ، سورج کی پہلی کرن جیسی ہے یہ اک دعا خوشیاں ، ترقیاں ، اقبال عظمت
سب ایک ساتھ جھولی میں ڈال دیتی ہے
یہ ایک دعا
ہم کو اپنی آغوش میں لے کر
درد سب اپنے آنچل میں سمو لیتی ہے
یہ ایک دعا
خون و وحشت کی ساعتوں میں
ٹھنڈا سائبان ہے یہ ایک دعا
ترقی ، شہرت، دام و دولت
ہاتھ باندھے کھڑے ہو جائیں ایک صف میں
شکستہ بازیوں کو یوں جیت میں بدل دیتی ہے
یہ ایک دعا
تنها أداس راستوں میں غم کی سب بارشوں میں تحفظ کی ایک چادر ہے یہ ایک دعا

تاریخی اوراق کا جائزہ لیا جائے تو دنیا کی جتنی اہم شخصیات گزری ہیں۔ ان سب کی ترقی و کامیابی کے پیچھے ایک ماں کی نیک تربيت کا ہاتھ ہے۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی بات کی جائے تو آپ کے والد ایک بینک میں کام کرتے تھے۔ اقبال کی والدہ سود کے سخت خلاف تھی اور اس پیشے کو اللہ کے احکامات کے برحلاف سمجھتی تھی۔ چنانچہ جب اقبال نے آنکھ کھولی تو ان کی والدہ نے تحیہ کر لیا کہ وہ جسم سے اقبال کو سیر نہیں کریں گی۔ وہ یہ سمجھتی تھی اس طرح اقبال کی تربيت سود کے حرام مال سے ہوگی

اور اقبال کا باطن آلودہ ہو جائے گا۔ آپ کی والدہ نے اپنے سارے زیورات بیچ ڈالے جو کہ حلال کمائی کے تھے اور ایک بکری خریدی تاکہ اقبال کو اس کا دودھ پلایا جاسکے۔ اقبال کی پرورش شیر خواری میں اسی بکری کے دودھ سے ہوئی۔بعدازاں اقبال کی والدہ کی اس حکمت عملی سے آپ کے والدہ محترم بینک کی ملازمت سے سبکدوش ہوگئے۔ یہ ماں کی گود کی تربيت کا اثر تھا کہ ہم نے علامہ اقبال جیسی بےمثال شخصیت نے دنيا میں الگ مرتبہ اور مقام پایا۔دنیا کی تاریخ میں ماں کی تربيت نے کئی عظیم ہستیوں کو جنم دیا اور تاریخ کی کایا پلٹ دی۔شیخ عبد القادر جیلانی توحید کے علمبردار تھے

اور برصغیر و پاک ہند میں اسلام کی بنیاد رکھنے والے ولی اللہ تھے۔ آپ نے اسلام کو اغیار اقوام تک پہنچایا۔آپ کی والدہ ماجدہ نے آپ کو ایک نصیحت کی بیٹا ہمیشہ سچ بولنا اور کبھی جھوٹ مت بولنا چاہے تمہاری جان ہی چلی جائے۔ ہمیشہ سچ کا دامن تھامے رکھنا۔ ایک وقت آیا جب شیخ عبد القادر جیلانی سفر پر گئے۔ آپ کی والدہ نے آپ کے کرتے کے اندر چند اشرفیاں سی دیں۔ دوران سفر آپ کو چوروں نے گھیر لیا۔ آپ نے ڈاکوؤں کو اپنی ماں کی نصیحت سنا کر ڈاکوؤں کے دل جیت لیے اور ڈاکوؤں نے ہمیشہ کیلئے ڈاکے سے توبہ کر لی۔
یہ سب ماں کی لازوال تربيت ہے۔ ایک ماں نہ صرف معاشرے کے اعلی اقدار کو سنبھالتی ہے بلکہ اسلام کے بتائے ہوئے سنہری اصولوں اور اللہ کے بتائے ہوئے احکامات کی پاسداری بھی با خوبی کرتی ہے۔امام شافی کی والدہ کا تعلق یمن سے تھا اور ان کے والد کا تعلق قریش سے تھا۔ ان کی والدہ نے امام شافیؒ کو بچپن میں ہی مکہ بھیج دیا تاکہ ان کی پرورش علمائے دین کے زیر سایہ ہو۔ آپ جیسے عظیم عالمگیر عالم سامنے آئے۔آپ کی والدہ نے آپ کی جدائی برداشت کی۔ مگر دنیا کی ہر ماں کو یہ پیغام دیا کہ ایک ماں اپنے بچے کی ترقی و عظمت کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرتی۔

“In his theory of inheritance, Aristotle considered the mother to provide a passive material element to the child, while the father provided an active, ensouling element with the form of the human species.”

نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ بچے کی سات سال تک تربیت صرف ماں کی گود میں کی جائے۔ آج کی ہر ماں کو چاہئے کہ وہ اپنے بچے پر مکمل توجہ دے۔ اگر تربیت کی عمر میں اس نے کوتاہی کی تو وہی بچے بے راہ روی کا شکار ہوجائیں گے۔ معاشرے میں اندر ماں ہی ایسی ہستی ہے جو تقدیر بدل سکتی۔

Napolean Bonaparte once said
“Give me an educated mother, I shall promise you the birth of a civilized, educated nation”,

آج کی عورت مرد کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہے۔ یاد رکھیں بڑی گاڑی اور بڑے گھر کے چکر میں کبھی اولاد کو اگنور نہ کریں۔ ایک ماں کی گود ہی پہلی درس گاہ ہے۔ جس نے ایک بچے کو حضرت امام حسین ع جیسی بے مثال ہستی نے پرورش بھی پائی۔ اس شخصیت کے پیچھے ایک عظیم ماں بی بی فاطمہ ہیں۔ جس نے جھولے میں آپکو کو ایسی تربيت دی جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ یہ وہ مائیں ہیں جنہوں نے اللہ کی رضا کو اپنی رضا بنایا۔ ایسی مائیں جن کی تربیت سے کوئی صحابی بن گیا تو کوئی ولی اللہ بن گیا۔
حضرت امام غزالی ؒ دین اسلام کے بہت بڑے عالم تھے اور بڑے درجے والے ولی اللہ تھے.ان کی زندگی کا جائزہ لیں تو ان کی زندگی کے پیچھے ان کی والدہ محترمہ کا بھر پور کردار نظر آئے گا۔ محمد غزالیؒ اور احمد غزالیؒ دو بھائی تھے۔ یہ اپنے بچپن میں ہی والد کے سایہ رحمت سے محروم ھو گئے تھے۔ پھر ان دونوں کی تربیت کی ذمہ داری انکی والدہ محترمہ نے نبھائی۔ ان کے بارے میں ایک عجیب بات کہ مان نے ان کی تربیت اتنے اچھے طریقے سے کی کہ ان کو نیکی اور ہدایت کے رستے پر لگا دیا۔

حتی کہ بہت بڑے عالم دین بن گئے۔ مگر دونوں بھائیوں میں فرق تھا۔ امام غزالی ؒ اپنے وقت کے بہت بڑے واعظ اور خطیب تھے اور مسجد میں نماز پڑھاتے تھے۔ ان کے بھائی بھی عالم تھے اور بہت نیک بھی ، مگر وہ امام غزالی ؒکے پیچھے نماز پڑھنے کی بجائے اپنی الگ نماز پڑھتے تھے۔ ایک دن امام غزالیؒ نے اپنی والدہ محترمہ سے کہا کہ امی جان لوگ مجھ پر اعترض کرتے ہیں تو اتنا بڑا خطیب اور امام مسجد ھے مگر تیرا بھائی تیرے پیچھے نماز نہیں پڑھتا، امی جان آپ بھائی سے کہ دیں وہ میرے پیچھے نماز پڑھا کرے۔
ماں نے بلا کر نصیحت کی ،چنانچہ اگلی نماز کا وقت آیا ،امام غزالیؒ نماز پڑھانے لگے اور ان کے بھائی نے بھی ان کے پیچھے نیت باندھ لی، لیکن عجیب بات ہوئی کہ جب ایک رکعت پڑھنے کے بعد دوسری رقعت شروع ہوئی ،تو ان کے بھائی نے نماز توڑ دی اور نماز کی جماعت سے الگ ھو گئے۔ اب جب امام غزالیؒ نے نماز مکمل کی تو ان کو بڑی سبکی محسوس ہوئی ، وہ بہت زیادہ پریشان ہوئے۔ لہٰذا مغموم دل کے ساتھ گھر واپس لوٹے۔ ماں نے پوچھا بیٹا بڑے پریشان نظر آرہے ہو ،کہنے لگے

امی بھائی نہ جاتا تو بہتر تھا ،ایک رکعت پڑھنے کے بعد دوسری میں واپس آگیا اور اس نے الگ نماز پڑھی۔ یہ سن کر ماں نے چھوٹے بیٹے کو بلایا اور پوچھا کہ بیٹا تو نے ایسا کیوں کیا؟ چھوٹا بیٹا بولا میں ان کے پیچھے نماز پڑھنے لگا ، پہلی رکعت انھوں نے ٹھیک پڑھائی ،مگر دوسری رکعت میں اللہ کی طرف دھیان کی بجائے ان کا دھیان کسی اور جگہ تھا۔ اس لیے میں نے ان کے پیچھے سے نماز چھوڑ دی، اور آ کر الگ پڑھ لی۔ ماں نے امام غزالی ؒ سے پوچھا کہ کیا بات ہے ؟ کہنے لگےکہ امی بلکل ٹھیک بات ہے میں نماز سے پہلے فقہ کی کتاب پڑھ رہا تھا،اور نفس کے کچھ مسائل تھے، جن پر غورو فکر کر رہا تھا۔

جب نماز شروع کی تو پہلی رکعت میں میری توجہ الی اللہ میں گزری ،لیکن دوسری رکعت میں وہی نفس کے مسائل میرے ذہن میں آگئے۔ ان میں تھوڑی دیر کے لیے ذہن دوسری طرف متوجہ ہو گیا۔ اس لیے مجھ سے یہ غلطی ہوئی تو ماں نے اس وقت ٹھنڈا سانس لیا، اور کہا افسوس کہ تم دونوں میں سے کوئی بھی میرے کام کا نہیں بنا۔ اس جواب کو جب سنا، دونوں بھائی پریشان ہو گئے۔ امام غزالیؒ نے اللہ سے معافی مانگ لی، امی مجھ سے غلطی ھو گئی۔ مجھے تو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ مگر دوسرا بھائی کہنے لگا

،امی مجھے تو کشف ہوا تھا ،اس لیے اس کشف کی وجہ سے میں نے نماز چھوڑ دی۔ تو میں آپ کے کام کا کیوں نہ بنا ؟۔ تو ماں نے جواب دیا کہ تم میں سے ایک تو نفس کے مسائل کھڑا سوچ رہا تھا اور دوسرا پیچھے کھڑا اس کے دل کو دیکھ رہا تھا۔ تم دونوں میں سے کوئی بھی اللہ کی طرف متوجہ نہیں تھا۔ لہٰذا تم دونوں میرے کام کے نہ ہوئے۔ یہ تھی ایک بیوہ ماں کی تربیت کا اثر کہ بچے اس قدر نیک پرہیز گار اور متقی کہ صدیاں بیت گئیں ،ان کا نام اور کام آج بھی زندہ ہے۔

بقول اقبال
کیا یہی ہے معاشرت کا کمال
مرد بے کار و زن تہی آغوش !

Exit mobile version