معاشرتی بگاڑ کیوں؟
تحریر:محمد عرفان قمر جھنگ
پچھلے دنوں کسی کام کے سلسلہ میں مسلسل ایک دوست کے پاس جانا جس کی موبائل شاپ ہے اور بالکل شہر کے پررونق بازار میں ہی اس کی شاپ ہے کل وہاں موجود تھا تو اس نے معذرت کی کہ آپ بیٹھیں ایک گاہک آیا ہے میں اس کو نمٹا لوں تو پھر تسلی سے بات کرتے ہیں۔وہ اپنے کام میں لگ گیا اور میرے ساتھ گیا ہوا میرا دوست اور میں باتیں کرنے لگ گئے تھوڑی دیر بعد اسی دوست کی دوکان سے اونچی اونچی آواز میں لڑنے کی آوازیں محسوس ہونے لگیں دریافت کرنے پہ پتہ چلا کہ ایک لڑکا اور لڑکی موبائل سے بحث کرتے کرتے لڑائی تک آن پہنچے ہیں۔تھوڑی دیر بعد یہی آوازیں گالم گلوچ میں تبدیل ہو گئیں
اور جب انہوں نے ایک دوسرے کو گالیاں دیں تو معلوم ہوا کہ ان دونوں کا آپس میں کوئی رشتہ نہیں ہے سوائے دوستی کے۔ ان دونوں نے باتوں باتوں میں ایک دوسرے کو بہت عجیب و غریب القابات سے بھی نوازا لڑکی نے آخری جملے یہ فرمائے اور ناراض ہو کے چلی گئی کہ میں ہی پاگل ہوں جو روز گھر والوں سے جھوٹ بول کے اور کالج میں جھوٹ بول کے تم سے ملنے آتی رہی ہوں۔اس کے بعد تو وہ چلی گئی مگر اس مارکیٹ میں موجود ہر آدمی کی ذبان پہ الگ الگ باتیں اور آنکھوں میں جدا جدا سوالات تھے۔
کحچھ دیر میں ہم بھی گھر آ گئے مگر میں بہت دیر تک اس واقعہ کو سوچتا رہا کہ کیا ہمارا معاشرہ اس قسم کی آزادی اور بیراہ روی کی اجازت دیتا ہے۔کیا ہماری اخلاقی و تربیتی اقدار اتنی زوال پذیر ہو گئی ہیں کہ ایک لڑکی سرعام ایسی بات کر کے چلی جاتی ہے۔ ہمارا معاشرہ اس قدر خراب ہو سکتا ہے شاید کسی نے بھی کبھی بھی نہ سوچا ہو۔ اس معاشرے میں اتنا گند کیوں آ گیا۔ظاہری طور پہ یہ معاشرہ اتنا حسین اور خوبصورت نظر آتا ہے مگر اسکی اندرونی حالت ٹھیک اس دروازہ جیسی ہو گئی ہے
جسے پالش وغیرہ کر کے خوبصورت تو بنایا جاتا ہے مگر اس کو اندر سے دیمک کھا چکی ہوتی ہے۔میں اس قسم کے معاشرے کی تشکیل کی ذمہ داری کسی ایک چیز کو نہیں دوں گا۔اگر میں بات کروں اپنے ٹی وی سیریلز کی تو مجھے افسوس سے یہ بات کرنی پڑ رہی ہے کہ آج تک ہمارے ٹی وی چینلز نے کوئی ایسا سیریل بنایا ہی نہیں ہے جس سے کحچھ سیکھا جا سکے۔جتنے بھی چینلز تبدیل کر کے دیکھ لیں صرف موضوع ہی آپکو ملے گا محبت و عشق کا مگر اس پہ جلتی کا کام یہ کہ ہمارے پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز نے کیا ہوا ہے جنہوں نے سارے قاعدے اور اصولوں کو جوتے کی نوک پہ رکھا ہوا ہے۔کسی ڈرامہ میں سسر اپنی بہو پہ فدا نظر آتا ہے تو کسی میں دیور اور کا Secret Relation ہوتا ہے
۔اگر کالج جاتی دیور کی بہن کا باہر کوئی دوست ہو تو بھابی گھر والوں کو نہیں بتا سکتی کیوں کہ اگر وہ بتائے تو اسکا اپنا راز فاش ہونے کا خطرہ ہوتا ہے مطلب کوئی ایک سیریل ایسی ہے ہی نہیں جس سے کحچھ سیکھا جا سکے یا گھر میں بیٹھ کے گھر والوں کے ساتھ دیکھا جا سکے۔نیوز چینل اگر لگا لیں تو وہاں پہ بیٹھی عورت دوپٹہ گلے میں تو سجا لیتی ہے مگر سر پہ نہیں کیوںکہ چینل کی ریٹنگ اچھی نہیں آتیں۔
دوسری بڑی وجہ ہمارے تعلیمی ادارے ہیں جو تعلیم سے ذیادہ فیشن کو پرموٹ کر رہے ہیں گھر میں بیٹھے ماں باپ کو کیا علم کہ انکی شہزادی یا شہزادہ کالج یونیورسٹی یا سکول میں کیا گل کھلا رہا ہے صبح لڑکی اور لڑکے کا بن ٹھن کے گھر سے کالج یونیورسٹی کے لئے نکلنا کوئی چھوڑی بات نہیں ہے۔اگر ایسی حالت سے منہ موڑ لیا جائے بھی تو کیا معاشرہ ٹھیک ہو سکتا ہے
نہیں بالکل نہیں۔مجھے یہ بات کہنے میں کوئی دقت نہیں ہے کہ سکول میں پڑھانے والی ٹیچر یا یونیورسٹی کی لیکچرار صاحبہ آج بنا دوپٹہ کے پڑھانے میں کوئی عار محسوس نہیں کر رہی بلکہ اس باکمال بیغیرتی اور بیشرمی کو فیشن سے محبت منسوب کررہی ہیں۔ اگر ہمارے تعلیمی ادارے پردے پہ صرف لیکچر دینے کے علاوہ عملی طور پہ کحچھ کر کے دکھاتے تو شاید معاشرہ آج اتنا بگاڑ میں نہ ہوتا۔
آج ماشائاللہ موبائل اور انٹرنیٹ تک رسائی سب کی ہے۔گھر میں ہر فرد کے پاس ایک موبائل لازمی ہے جو اسے سب سے دور کر رہا ہے چاہے وہ اپنے گھر کے افراد ہی کیوں نہ ہوں۔جتنا گند اس انٹرنیٹ نے مچا رکھا ہے الامان الحفیظ اور پھر مزے کی بات کہ ان سائیٹس تک بچے بھی بآسانی پہنچ سکتے ہیں مطلب معاشرے کی بگاڑ پورے جوش و خروش سے جاری ہے۔آج بازاروں میں نوجوان لڑکیوں اور عورتوں کی تعداد مردوں کی نسبت کہیں ذیادہ ہے۔ایک چھوٹی سی چیز کے لئے عورت یا لڑکی گھر سے بن سنور کے نکل رہی ہے۔
معاشرے کی بیحسی اس قدر عروج پہ پہنچ چکی ہے کہ ان سارے حالات کی روک تھام کے لئے کوئی بھی اپنا کردار ادا کرنے کو تیار نہیں ہے مطلب جو ہو رہا ہے بالکل ٹھیک اور عین اسلامی ہو رہا ہے۔ٹیچر پیریڈ پڑھا کے خوش ہے اور سٹوڈنٹ پڑھ کے میں یہاں ٹیچرز کو زیادہ قصوروار اس لئے ٹھہرا رہا ہوں کیوںکہ یہ معمار قوم ہوا کرتے ہیں اور انکی ذیادہ ذمہ داری بنتی ہے
کہ معاشرے میں موجود نقائص کو دیکھیں اور دور کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ہمارے عالم حضرات صرف نماز و جمعہ پہ زور نہ دیں بلکہ لوگوں کو معاشرہ کی تشکیل نو سمجھائیں اس میں موجود نقائص کو دور کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔جمعہ و محافل کے انعقاد پہ معاشرہ کو سنوارنے اور اس میں موجود بیحیائی کو ختم کرنے میں نہ صرف کردار ادا کریں بلکہ پوری ذمہ داری سے معاشرہ کو بہتر بنائیں۔اللّٰہ پاک ہمیں سب کو اپنی امان میں رکھے اور سیدھا راستہ پہ چلنے کی توفیق بخشے آمین۔