قوم و ملت کی ترقی، اعلی تعلیم میں ہی مضمر ہے 201

وہ ملکہ گھر, باورچی خانہ تھی

وہ ملکہ گھر, باورچی خانہ تھی

تحریر: ​نقاش نائطی
۔ +966562677707

ڈیڑھ سو سال قبل کے انگریز غلامی سے آزاد ہوئے ابھی 2 ماہ بھی نہیں ہوئے تھے کہ ابوبکر محمد میراں دامدا ابو،کی زوجہ بی بی فاطمہ بنت محمد صاحب عبدالقادر خطیب، المعروف بوڑئیے کوچی ماں کے بطن سے، ماقبل آزادی ھند ہی میں تخلیق پائی لخت جگر،١٣ اکتوبر ١٩٤٧ آزاد بھارت کی فضاء میں، معصوم ننھی پری حمیدہ کی کلکاریوں کے گونجنے نے، گاوں کے اس وقت کے مشہور، بوڑئیے اور دامدا ابو دو خاندان میں، خوشی و شادمانی بکھیر گئی تھی۔ دامدا ابوبکر المعروف تنظیم سکریٹری،

کافی لمبے عرصے تک قومی مرکزی اداراہ مجلس اصلاح و تنظیم کے مختلف عہدوں پر مشتمل ذمہ داری ان کے کندھوں پر رہنے کی وجہ سے، گاوں کے مدبر و ذی فہم ذمہ داروں کا، میں روڈ بازار، اربن بنک موجودہ انجمن بلڈنگ کے سامنے، انکے رہائشی گھر نفیسہ منزل، لوگوں کے آنے جانے کا تانتہ بندھا رہتا تھا۔ اسی لئے شاید اپنے شرارتی مزاج کے باوجود ہمہ وقت گھر میں اپنی کلکاریوں و دھوم چوکڑی برپا کرتے رہنے والی بچی کو، مہمان نوازی کے آداب واقدار کا شروع ہی سے احساس و تربیت تھی،

جو موت سے قبل آخری لمحات تک مرحومہ نے پاس و لحاظ رکھا تھا۔ مرحومہ کی 74 سالہ زندگانی ایک مثالی مکمل زندگانی متصور کی جاتی تھی۔زندگی میں شادی بعد مجازی خدا کی حیثیت اسکی زندگی میں آئے، عبد الرحمن بادشاہ سدی محمد دامودی کے ساتھ، ازدواجی، معشیتی سفر دوران، باد نسیم کے خوشگوار جھونکوں کے ساتھ، خزاں آلود تیز و تند معاشی ابتری تبدیلی کے، کیفیاتی لمحات میں بھی، ہمیشہ رزاق دو جہاں کا تشکر ادا کرتے، اللہ رب العزت جو کچھ عطا کرتا ہے، اسی وسائل پس منظر میں، اپنے حسن اخلاق و حسن تربیت کی کشیدہ کاری تزئین سے، ہمہ وقت مسروریت و سکون و طمانینئت تلاش کرنے کا گر، جو مرحومہ میں تھا بہت کم نساء ان سے بہرور ہوتی ہیں۔

باطن آسیہ، زبیدہ علی اکبرا،بھاللی طاہرہ،بی بی خدیجہ شاہ بندری پٹیل کا شمار انکی خاص سہیلیوں میں ہوتا تھا۔ البتہ سعودیہ الخبرانکی رہائش دوران، ہمارے ساتھ انکے ساتھ اچھے گھریلو تعلقات قائم تھے۔مرحومہ حتی الامکان اپنے متعلقین کے ساتھ،مرتے دم تک تعلقات استوار رکھنے کی کوشش میں منہمک پائی جاتی تھیں۔ اسکا زندہ ثبوت انکی ہمشیرہ نفیسہ زوجہ عبدالقادر شاھجہاں بن محمد جفری محتشم کے ساتھ زندگی بھر انتہائی قربت والے اسکے تعلقات تھے۔اس کورونا وبائی پس منظر میں اپنی ہمشیرہ کی وفات بعد، بالکل ہی مختصر عرصہ میں، اپنی آل اولاد کو وداع کہتے ہوئے، رب دو جہاں کی طرف پلٹ وہ چلی گئی تھیں
معاشرہ میں ان ایام اعلی تعلیم فقدان باعث، آٹھویں کلاس تک نساء بچوں کی تعلیم ہوا کرتی تھی باوجود اسکے، اردو ادب سے مرحومہ کا، شروع ہی سے دلی لگاؤ رہنے کی وجہ ، نثر نگاری کے ساتھ ساتھ شعر و سخن طبع آزمائی شروع جوانی کے ایام سے ہی تھی۔ تاحال وطن میں دستیاب شعر وشاعری کا مزاج، اگر اسے شروع سے ملتا تو، ماقبل وفات صاحب دیوان شاعرہ بھی وہ ہوچکی ہوتی۔ گاوں کے شادی بیاہ ماحول میں دلہن کو گھیرے نساء کے گائے جانے والے لوک گیت، جلوے ، بچوں کو سناتے وقت گائے جانے والی لوریاں، خصوصا مرحومہ ہی کا تحریر کردہ نائطی لغت لوری “ننی تو کر،

سوڑون گیلی، ماکا تو آئے پیاری ماں”، (“سوجا توں، مجھے چھوڑ چلی گئی آئے میری پیاری ماں”) کے علاوہ شوہر کے ساتھ سعودیہ الخبر سکونت پزیر رہتے وقت، مرحومہ کا لکھا معاشرتی اصلاحی نائطی مضمون، ‘ماؤں کؤں ایک وختارسون وھتی’ (“ساس بھی کبھی بہو تھی”) مقابلہ میں اول انعام کا مستحق قرار دیا جاچکا تھا۔ خلیج جماعتوں کے سالانہ عید ملن پروگرام دوران،بچوں کی طرف سے، پیش کئے جانے والے ڈرامے یا طنز و مزاح کے خاکے فکاہئیے، تحریر کر،بچوں کو ہدایت دے تیار کر، اسٹیج پر ڈرامے پیش کرتے ہوئے، اپنی صلاحیت کا لوہا وہ منواچکی تھی

مرحومہ میں شروع ہی سے مالک کائیبات کی طرف سے ودیعت کردہ خوش مزاجی، خوش اخلاقی،:ہمہ وقت چہرے پر پھیلی رہنے والی اسکی مسکان، بچوں کے ساتھ بچی، تو بزرگوں کے ساتھ بزرگ بنے رہتے، خاندان و محلہ گاؤں کی متعلقین میں، میاں بیوی کے درمیان، اونچ نیچ ہوتے، معاملہ آگے بڑھ طلاق تک پہنچتے وقت، خود سے ان کے درمیان جاتے ، مفاہمت کر ڈالنے کا اسکا مزاج ، نساء کی مشہور کتاب بہشتی زیورمیں، المحترم مولانا اشرف علی تھانوی علیہ الرحمہ کے، ازدواجی زندگی

کی کامیابی کے گر، جو کچھ لکھا تھا کہ “اللہ کی عطا کردہ زبان کی دو خصوصیات، گفتاری اور مزہ چکھنے کی تمیزکرنے کی صلاحیت کے منفی استعمال سے، جہاں ازدواجی زندگی بگاڑ یا طلاق طرف گامزن رہتی ہے، وہی زبان کی دو خصوصیات کا مثبت استعمال بنتے رشتے نبھائے آگے بڑھنے میں ممد و مددگار ثابت ہوا کرتے ہیں

” اس قول پر مکمل عمل پیرا، زبان کی چکھنے کی صلاحیت پیاس نظر، نت نئے اقسام کے کھانے تیار کرنے اور اسے بہترین انداز پیش کرنے کی صلاحیئت، گھر صاف ستھرارکھتے، وقتا” فوقتا”، گھر میں موجود فرنیچر ،کبھی اس طرف تو کبھی اس طرف، جگہ تبدیل کرتے، گھر کو تزئین نو کرتے، گھر مینٹینس میں بھی وہ یکتا و لاجواب جہان تھی وہیں پر، بات کرنے منھ کھولنے پرجھڑتے پھول پنکھڑیوں کی طرح، نرم و دلنشیں اسکی باتین ، مرحومہ کے انتقال ہوئے کچھ ماہ بعد بھی، اپنےخویش و اقارب و متعلقین درمیان تاحال وہ زندہ ہی ہے جیسے گمان ہوتا ہے۔

​4 مرد اولاد تو ایک نساء بچی کی تربیت و تدریب، اسکی کتنی مکمل تھی، اسکی اولاد ابھی سب زندہ ہیں، انہیں دیکھ اسکی تربیت کا جیتا زاگتا ثبوت ملتا ہے۔ عموما نساء اولاد والدہ پر جاتی ہیں، لیکن اپنی والدہ کی تمام اچھی خصوصیات بیٹی میں صد فیصد منتقل بھی ہوپاتی ہے یہ ایک زندہ مثال مرحومہ کی اکلوتی بیٹی، اب بھی اسکے خویش عقارب درمیان اس کی یاد تازہ دم رکھنے کافی ہے۔ اللہ ہی مرحومہ کی،’حضرت انسان مرکب الخطاء’ ہونے کی حیثیت،ظہور پذیر ہوئی، کمی و بیشی پر اسکی بال بال مغفرت کرتے ہوئے ، عالم برزخ میں باد بہاراں جنت کی ٹھنڈی ٹھنڈی چھاؤں میں تا روزمحشر اسے رکھتے ہوئے ،بعد محشر جنت کے اعلی مقام کو اس کے لئے متمکن کرے یہی ہماری دعا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں