کیا ہماری تحریک آزادی صرف ہندووں سے الگ ہونے کے لیے تھی؟
آج کی بات۔شاہ باباحبیب عارف کیساتھ
صرف خیبرپختونخوا ہی نہیں بلوچستان میں بھی ریاستی محکموں کے ہاتھوں کوئی محفوظ نہیں لگتا طلبا، اساتذہ، سماجی کارکن غرض زندگی کے ہر شعبے سے وابسطہ افراد کو اپنی سلامتی کے متعلق تحفظات ہیں دوسری جانب سندھ میں بلوچستان کے برخلاف ریاستی محکموں کے بجائے خود سیاسی حکمران جماعت کے رئیس،
جاگیردار، وڈیرے جو اپنی خدمت میں شہرت کے بجائے جبر اور طاقت کے بل پر اسمبلی کی سطح کے ممبران کی حیثیت رکھتے ہیں عام انسان کے لیے ویسا ہی خوفناک وطیرہ رکھتے ہیں جو کم و بیش خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں سرکاری محکموں نے اختیار کر رکھا ہےجام اویس ایم پی اے سندھ اسمبلی کے ہاتھوں عربوں کی ناجائز شکار کھیلنے کی ویڈیو بنانے کے ایک معمولی عمل اور احتجاج پر ایک شادی شدہ تین معصوم بچوں کانوجوان باپ ناظم جوکھیو کو شہید کیا جا چکا ہے، جبکہ،ناظم جوکھیو کا کیس لڑنے والے ملیر کے سینئر وکیل محمد خان شیخ کہتے ہیں کہ انہیں دہمکیاں دی جارہی ہیں
دہمکیاں دینے والوں کے نام سینیئر وکیل محمد خان شیخ اپنےدوستوں کو بتا چکے ہیں کہ کل کو اگر ان کی جان کو کچھ ہوا تو ان کے دوست وہ تمام نام آشکار کردیں گے! ہمارے ملک میں ہر جانب افراتفری، لاقانونیت اور جبر و تشدد کا دور دورہ ہے، جبکہ فخریہ طور پر رائج نظام کو ہائبرڈ نظام اور ایک صفحے کا نظام بتایا جاتا رہا ہے کیا اس ہائبرڈ نظام کو رائج کرنے کا مقصد جبر و تشدد، افراتفری معیشت کی تباہی اور لاقانونیت کا بازار گرم کرنا تھا ۔۔؟ اس ملک میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے
جو ایک ہی وقت میں ظالم اور مظلوم ہیں جب تک یک رنگ نہیں ہوں گے یہی تماشا ہی دیکھنے کو ملے گا ہم نے پہلی بار کسی کاسینہ اس دھرتی پر گولیوں سے چھیلنی ہوتے ہوۓ نہیں دیکھا اورنہ صرف ہمارا محمدزادہ کوئی پہلا نڈر اوردلیر نوجوان تھا جس نے جرات اوربہادری کامظاہرہ کرتے ہوئے شہادت کاجام نوش کیا تاریخ اٹھا کردیکھ لیں ایسے دلخراش سانحوں سے بھری پڑی ہے یہاں اب تری پیس سوٹ میں نہیں
ان سے ملکر شلوارقمیص میں دشمن ملبوس ہے چاہے وہ حکمران ہو قانون ہو یاکسی بھی قسم کا مافیا ہو یہاں اگر مافیا سرگرم ہے تواس میں مندرجہ بالاشلوارقمیص والے بھی ملوث ہے کیونکہ آزادی سے لیکر آج تک نہ حکومت نے نہ اپوزیشن نے اورنہ ہی مذہبی رہنماوں نے اس ملت کی وہ تربیت کی جو انہیں کرناچاہیئے تھا جو اس پاکستان بنانے کا مطلب تھا اس سے دور ہوتے گئے لیکن یہ اللہ تعالی کا احسان ہے
کہ ماضی کی طرح اب بھی چند دلیرنڈر بہادر ان کرپٹ مافیا کے خلاف بھرپور آواز بلند کرنے کے لیے موجودہیں جو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان کرپٹ عناصر کو پاکستان کا مطلب سمجھانا چاہتے ہیں جو اس اسلامی قلعے کی تعمیروترقی اور عوام کی بہتری اور خوشحالی کی بات کرتے ہیں تو ان کو بھی اسی تاریخ کی اوراق میں دفنایا جاتا ہے جس میں آج محمدزادہ سندھ کے ناظم جوکھیوکو بھی دفن کردیا گیا آپ اس ملک کے کسی بھی صوبے کاجائزہ لیں تو نقیب اللہ بھی دکھائی دے گا اور سندھ میں ناظم جوکھیو کی شکل بھی نظرآئیگا حیات اللہ خان اورمحمدزادہ کی شہادتیں یا یہ ظالمانہ رویش کوئی پہلی بار سرزد نہیں ہوا
یہ توپاکستان کی پیاسی خونریز تاریخ کاتسلسل ہے جو حق اوسچ کے خون سے سیراب ہورہاہے کس کس سانحے کویاد کراوں کوئی ایک ہو تو دل کھول کراس پربات مکمل کروں سینکڑوں نہیں ھزاروں وقوعات ہیں جواس خونی تاریخ میں مدفن ہیں جس میں صرف عوام ہی نہیں اس میں محب وطن باضمیر لیڈر مذہبی رہنماء سول اورسرکاری شخصیات بھی شامل ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ مافیا کو مضبوطی یہاں قانون کی کمزوری سے ملتی ہے کیونکہ یہاں حکومتی رٹ قائم نہیں
اسی لئے ایسے گورگھ دھندے کرنے والوں کو کھل کر کھیلنے کا موقع مل رہا ہے اورسب سے اہم سوال تو یہ ہے کہ یہاں سسٹم کی خرابی کا ذمہ دار کون ہے۔۔؟ سب سے پہلے تو اس کا تعین کیا جانا چاہئے اور پھر ان کے خلاف بھرپور ایکشن لینا چاہیئے توتب یہ سسٹم ٹھیک ہو گا تب ایسے واقعات پر قابو پایا جا سکے گا وگرنہ ایسے ظلم حسب دستور ہوتے رہیں گے جو چند دن پرنٹ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی زینت بننے کے بعد تاریخ کے اوراق میں حسب روایت ہمیشہ ہمیشہ کے لیےدفن ہو جائیں گے
اوریہ بات میں طنزیہ نہیں بلکہ نہایت سنجدگی سے زمینی حقائق کومدنظر رکھتے ہوۓ کہہ رہا ہوں اور نہ ہی میں تحریک آزادی کی تاریخ کی بات کررہا ہوں بلکہ آزادی کے بعد کی اس بھیانک تاریخ کی بات کررہاہوں جس میں پاکستان بننے کے بعد ہائے روز ایک نئے سیاہ باب کااضافہ ہوتا رہتا ہے جس پر ماضی میں بھی اختجاج ہوتے رہے اور آج بھی ہورہے ہیں لیکن ان سے کوئی فائدہ حاصل نہ کرسکے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم انہیں یاد نہیں کرتے اس سبق کو جو ہمیں دیاجاتا ہے توپھر یہ شکوے شکایتیں کیوں
یہ مذمتی اختجاجیں کس لیے صرف ٹائم پاسی نہیں چلے گی شہید کے مشن کوعملی جامہ پہنانے کے لیے ٹھوس اورمثبت اقدامات اٹھانے ہڑینگے ایک بار پھر ہمیں اس ظلم وستم سے آزاد ہونے کے لیے ایک بھرپور تحریک چلانے کی ضرورت ہے تب یہ سب سلینڈر ہونگے ورنہ ہم اسی طرح روتےرہینگے جسطرح محمدزادہ کی دلخراش سانحے کی اختجاجی ریلی میں سب رو رہے تھے
۔۔۔۔۔۔؟