ٹیکس کلچر کے فروغ سے کشکول سے ٹوٹے گا !
کالم نگار: تحریر :شاہد ندیم احمد
پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے کہ جہاں سب سے کم شہری ٹیکس ادا کرتے ہیں، ہر نئی حکومت یہ پرانا مسئلہ حل کرنا چاہتی ہے،مگر لاکھ کائوشوں کے باوجود حل نہیں کرپارہی ہے،کیو نکہ ہمارے ہاںبااثر طبقات نے ٹیکس چوری کرنا یا سرے سے ٹیکس ادا نہ کرنا اپنا شعار بنالیا ہے، اس میں بطور خاص ارکان پارلیمنٹ کی بڑی تعداد شامل ہے کہ جنہیں ٹیکس کی ادائیگی میں خود کو مثال بنا کر پیش کرنا چاہیے
،مگر وہ ٹیکس بچانے میں اپنی مثال بنے ہوئے ہیں،جبکہ ٹیکسوں کا سارا بوجھ تنخواہ دار طبقات اور عام آدمی اُٹھارہاہے، یہ کیسا یک طرفہ تماشا ہے کہ ٹیکس چوری کے عادی طبقات خود کو واجب الادا ٹیکسوں سے محفوظ رکھتے ہوئے انواع و اقسام کی مراعات بھی سرکاری خزانے سے حاصل کررہے ہیں، جبکہ جبری طور پر ٹیکس ادا کرنے پر مجبور عام طبقات ہر قسم کے ٹیکس ادا کرنے کے باوجود زندگی کی بنیادی ضروریات اور لازمی سہولتوں سے بھی محروم ہیں۔
یہ امر انتہائی افسوس ناک ہے
کہ ٹیکس وصولی کیلئے قانون سازی کرنیوالے ارکان پارلیمنٹ ہی خود کو مروجہ قوانین سے مبرہ سمجھتے ہیں اور پوری دیدہ دلیری کے ساتھ ٹیکس چوری میں ملوث ہوتے ہیں، پیپلزپارٹی کے سابق دور میں وزیر خزانہ حفیظ شیخ نے اپنی بجٹ تقریر کے دوران واضح طور پر انکشاف کیا تھا کہ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کے مجموعی بارہ سو ارکان میں سے ساڑھے آٹھ سو ارکان ٹیکس کی مد میں ایک دھیلا بھی جمع نہیں کرواتے
اور جو باقی ماندہ ارکان ٹیکس ادا کرتے ہیں، وہ وصول شدہ مجموعی ٹیکسوں کا عشرِعشیر بھی نہیں ہوتاہے، اس بنیاد پر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے سابقہ ادوار میں ٹیکس سسٹم کی اصلاح کیلئے متعدد اقدامات ضرور اٹھائے جاتے رہے، مگر ایسی اصلاحات کے کوئی موثر نتائج نہیں نکل سکے ہیں،اس کا اندازہ موجودہ ارکان پارلیمنٹ کے جمع کرائے گئے گوشواروں اور انکے ادا کردہ ٹیکسوں سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنی ظاہر حیثیت کے مقابلے میں بہت کم ٹیکس ادا کیا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ ارکان پارلیمان عوامی لیڈر ہوتے ہیں ،ان کا طریقہ کار عوام کیلئے مثالی ہونا چاہئے ،مگر یہاںقوم کے منتخب نمائندے اپنے ذرائع آمدن بھی چھپاتے ہیں اور واجب الادا ٹیکسوں کی ادائیگی سے بھی گریز کرتے ہیں، اس سے ٹیکس چوری کلچرکو فروغ مل رہا ہے ،اگرارکان پارلیمنٹ اپنی ذات کو مثال بنا کرٹیکس کلچر کو فروغ دینگے تو اس سے ً معاشرے کے ٹیکس گزار دوسرے طبقات پر بھی اچھا اثر پڑیگا، اس کے برعکس اگر عوام کے منتخب نمائندے خود ٹیکس چوری کو اپنا شعار بنائیں گے
تو پھر جس کا جدھر دائو لگے گا ،وہ ٹیکس چوری کا راستہ اختیار کرنے کی کوشش کرے گا ، عوام کے منتخب نمائندوں اور حکومت و مملکت کے کلیدی مناصب پر متمکن شخصیات کو ٹیکس کلچر کے فروغ کیلئے اپنی ذات کو مثال بنانے کی کوشش کرنی چاہیے ،اگرہمارا ٹیکس نیٹ بڑھنے کے ساتھ مستحکم ہوگا تو ہی مجموعی قومی آمدنی ہماری تمام ضرورتیں پوری کرنے کیلئے کافی ہوگی اور ہمیں کشکول اٹھا کر کڑی شرائط کے ساتھ بیرونی قرضوں کی بھیک مانگنے کی مجبوری لاحق نہیں ہو گی۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہمار ے وفاقی ترقیاتی اور صوبائی میزانیوں کا دارومدار ٹیکس کی وصولی پر ہی ہوتا ہے، کیونکہ میزانیوں میں ٹیکس وصولی کے جو اہداف متعین ہوتے ہیں‘ انکی بنیاد پر ہی ترقیاتی منصوبوں کیلئے رقوم مختص کی جاتی ہیں،اگر ٹیکسوں کی وصولی کی شرح متعینہ اہداف سے کم رہے تو اس سے ترقیاتی منصوبوں پر کام رک جاتا ہے ،اس سے جہاںصنعتی پہیہ جامد ہوتا ہے
،وہیںہماری معیشت کے استحکام کے خواب بھی ادھورے رہ جاتے ہیں اور حکومت کو بیرونی قرضوں پر تکیہ بھی کرنا پڑتا ہے، اگر ملک میں ٹیکس کلچر مستحکم ہو گاور معاشرے کا ہر طبقہ اپنی قابل ٹیکس آمدنی پر خوش دلی اور خوش اسلوبی کے ساتھ ٹیکس ادا کر رہا ہو گا اور ایف بی آر سمیت متعلقہ انتظامی مشینری ٹیکس چوروں کیخلاف بروقت اورٹھوس تادیبی اقدامات اٹھا رہی ہو گی تو نہ صرف ٹیکس وصولی کے متعینہ اہداف پورے ہو سکتے ہیں، بلکہ ٹیکس نیٹ میں وسعت بھی پیدا ہو سکتی ہے۔
بے شک عوام کشکول سے نجات چاہتے ہیں،لیکن اس کیلئے اپنے رویوں میں تبدیلی لانا ہو گی ، پاکستان میں مراعات یافتہ طبقات پارلیمنٹ میں سب سے مضبوط ہے ،اس کے باوجود ان سے ٹیکس دینے کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو وہ ٹیکس دینے کی بجائے حکومت کے لیے بہت سے مسائل پیدا کرنا شروع دیتے ہیں،جبکہ عام غریب آدمی خاموشی سے ٹیکسوں سمیت بڑھتی مہنگائی کا بوجھ بھی اُٹھارہا ہے ،
اس طرح معاملات زیادہ دیر تک نہیں چلیں گے کہ اشرافیہ ٹیکس چوری کرکے مزے لوٹے اور پا کستان چند ارب ڈالر کے لیے عالمی اداروں کے سامنے کشکول لیے گھومتا رہے، اگر ہم نے کشکول سے نجات حاصل کرنی ہے تو ٹیکس کلچر کو فروغ دینا ہو گا،اس میںاراکین پارلیمنٹ پر سب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے
کہ خود کو دوسروں کے سامنے مثال بنا کر پیش کریں،اگراس ملک کی اشرافیہ درست طریقے سے ٹیکس ادائیگی میں شفافیت کا مظاہرہ کرے تو انہیں دیکھ کر ہر خاص وعام بھی قومی فریضہ سمجھ کر ٹیکس ادا کرنا شروع کردیگا ،اس ملک میں جب تک ہر خاص وعام ٹیکس کلچر کو فروغ نہیں دیگا ،ملک کبھی ترقی وخوشحالی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکے گا۔