آئی ایم ایف کے ضمنی بجٹ کا کھیل! 145

لوٹی دولت واپس لانے کا عزم

لوٹی دولت واپس لانے کا عزم

کالم نگار: تحریر :شاہد ندیم احمد

دنیا بھر میںوائٹ کالر کرائم کے ذریعے ترقی پذیر ممالک سے سالانہ ایک کھرب ڈالر غیر قانونی طور پر ترقی یافتہ ملکوں میں منتقل ہو جاتے ہیں، اس رقم کی واپسی کیلئے ترقی پذیر ممالک کو ایسے قوانین بنانے کی ضرورت ہے کہ جس کے ذریعے غریب اور ترقی پذیر ملکوں سے دولت کی غیر قانونی منتقلی روکی جاسکے

،بلکہ اس کے ذریعے غیر قانونی لوٹی دولت واپس بھی لائی جاسکے ، اس حوالے سے او آئی سی کے زیر اہتمام اسلام آباد میں ہونے والے سیمینار میں غیر قانونی لوٹی گئی رقوم کی واپسی کے لئے عالمی تعاون بڑھانے کا عزم کیا گیا ہے،وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ملک سے لوٹی گئی دولت واپس لانا ایک بڑا چیلنج ہے ،تاہم عالمی تعاون سے لوٹی دولت واپس لانے میں ضرور کامیاب ہو جائیں گے۔
اس میں شک نہیں کہ کرپشن،بدعنوانی تمام ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کا مشترکہ مسئلہ ہے ،لیکن اس معاملے سے نمٹنے کیلئے اب تک زبانی کلامی باتوں کے علاوہ کوئی عملی اقدامات نہیں کیے گئے ہیں،اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کے قواعد و ضوابط کی موجودگی میں قانونی خلاف ورزیاں جاری ہیں ،

اس کے انہیں کئی برے نتائج بھی بھگتنا پڑے ،مگر یہ غیر قانونی رقوم کی منتقلی کا سلسلہ بدستور جاری ہے ،اس لحاظ سے پاکستان کی حالت بھی کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے ،یہاں پر حکمران طبقات سے لے کر ملازمت پیشہ تک عشروں سے بدعنوانی میں ملوث ہیں،ملک سے دولت لوٹ کر لندن‘پیرس‘متحدہ عرب امارات اور سوئٹزر لینڈ میں جمع کی جارہی ہے،مگر کوئی روکنے والا نہیں ہے ۔
پا کستان میں احتساب اور کرپشن روکنے کی باتیں بہت کی جاتی ہیں ،مگر یہاں کسی کا بلا امتیاز احتساب ہوا نہ کرپشن کا سد باب کیا جاسکا ہے ،اس حمام میں سب ننگے ایک دوسرے کو ڈھانپ رہے ہیں،یہ بدعنوانی اور رشوت بظاہر سماجی برائیاں ہیں، لیکن ان کا دائرہ انتظامی اور ریاستی امور کو بھی متاثر کررہا ہے،

خصوصاً اس صورت میں کہ جب ہر بااختیار بدعنوانی کا ارتکاب کرنے میں نڈر ہو جائے اور ریاستی قوانین کا خوف اٹھ جائے،اس ملک میںبدعنوانی کس درجہ پنجے گاڑ چکی ہے ، اس کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے کہ جب ایک عام شہری کا پالہ پٹوار خانے‘تھانے‘ ہسپتال یا پنشن آفس سے پڑتا ہے،جبکہ بالائی طبقات میں بدعنوانی کا طریقہ کار بالکل مختلف ہے ،اس میں پہلے عوام کے مسائل اجاگر کئے جاتے ہیں،

اس کے بعد ان مسائل کے حل کے نام پرعالمی مالیاتی اداروں سے قرض لیا جاتا ہے‘قرض کی کچھ رقم منصوبے اور باقی ساری رقم سے اپنی تجوریاں بھری جاتی ہے۔بدقسمتی سے پاکستان میں ایسا کوئی موثر نظام ہی نہیں ہے کہ جس کے ذریعے ان تجوریوں تک پہچا جاسکے یا ان تجوریوں سے بیرون ملک منتقل ہونے والی دولت کو واپس لایاجاسکے ،پانامہ پیپرز میں حقائق سامنے آنے د پر کچھ لوگوں کو سزائیں ضرور ملیں ،

لیکن ان سزائوں کی حقیقت سب کے سامنے ہے کہ سزا یافتہ لوگ عدالتوں سے عجیب و غریب طریقے سے ضمانت پر رہا ہو کر بدعنوانی کے خلاف بروئے کار ریاستی نظام کا منہ چڑا رہے ہیں، یہ اپنی کار گزاری پر شرمندہ ہونے کی بجائے ریاستی اداروں پر کیچڑ اُچھال رہے ہیں اور کوئی انہیں لگام ڈال کر سلاخوں کے پیچھے دھکیلنے والا نہیں ہے

،قانون سے لے کر حکمران تک اشرافیہ کی کرپشن کے خلاف بے بس دکھائی دیتے ہیں۔وزیر اعظم عمران خان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران ایک سے زائد مرتبہ بدعنوانی کی روک تھام کے لئے بین الاقوامی تعاون پر زور دے چکے ہیں،اصولی طور پر ان کے موقف کی حمایت سب کرتے ہیں

،لیکن بڑے ممالک کی دو عملی کاوٹ بن کر سامنے آ جاتی ہے،غریب اور پسماندہ ممالک کے حکمران اور افسر اپنی غیر قانونی دولت جن بڑے ممالک میں جمع کرتے ہیں، وہ ممالک اس رقم کو چوری کی رقم سمجھنے کی بجائے سرمایہ کاری کا درجہ دیتے ہیں،دوسری جانب ان بڑے ممالک نے چوری شدہ رقم کی تفتیش،برآمدگی اور واپسی کا قانونی نظام اتناپیچیدہ بنا رکھا ہے کہ رقم کی واپسی ناممکن ہو جاتی ہے
۔
تحریک انصاف قیادت نے برسراقتدار آنے کے بعد لوٹی دولت واپس لانے کا عہد کیا تھا ،مگر ساڑھے تین سال گزرنے کے باوجود عہد وفا نہیں ہو سکا ہے ،تاہم او آئی سی سے اُمیدیں وابستہ کی جارہی ہیں کہ اس پلیٹ فارم پر ورکنگ گروپ کی تشکیل سے بہتر نتائج حاصل کیے جاسکیں گے،اس ورکنگ گروپ کی سفارشات میں بین الاقوامی تعاون کے طریقوں اور رقوم کی واپسی کو سہل بنانے کی تجاویز ضرور شامل کی جانی چاہئے،

اگرممکن ہو تو بڑے ممالک کو قائل کیا جائے کہ مالیاتی جرائم میں ملوث افراد کو اپنے ہاں پناہ دینے کا معاملہ انسانی حقوق سے نہ جوڑا جائے ،کیو نکہ بدعنوان شخص کئی انسانوں کا حق غصب کر کے دولت اکھٹی کرتا ہے،اس کے لئے انسانی حقوق اور شہری حقوق جیسے معتبر حوالے دینا کسی صورت مناسب نہیں ہے،

او آئی سی مسلم ممالک میں تعاون کی تنظیم ہے‘آگاہی کی حد تک تنظیم کے اعلامیئے کی اہمیت ضرور ہے،مگر اس سے لوٹی دولت کی واپسی کی اُمید نہیں لگائی جاسکتی، تاہم اس کا ایک فائدہ ضرور ہو گا کہ اس کے تعاون سے طاقتور اور بڑے ممالک کو بڑی حد تک رقوم چوری میں ملوث افراد کی مدد سے روکا جا سکے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں