الحمد للہ علی کل حال 150

گھر میں بوڑھے والدین ہم پر بوجھ کیوں بن جاتے ہیں؟

گھر میں بوڑھے والدین ہم پر بوجھ کیوں بن جاتے ہیں؟

تحریر :نقاش نائطی
۔ +966562677707

ہماری اپنی گاڑی کافی پرانی ہوچکی ہے۔ ہر ہفتہ کسی نہ کسی مسئلہ کی خاطر اسے گیراج لے جانا پڑتا ہے ۔ وہی کاربیریٹر کا مسئلہ باربار ہمیں تنگ کرتا رہتاہے ۔ بیٹری کمزور ہوتی ہے تو بار بار اسے لے جا چارچ کروانا پڑتا ہے۔ لیکن ہم ان تمام نخروں کو ہمہ وقت برداشت کرتے رہتے ہیں،اس لئے کہ پورے ہفتہ وہ کار ہمارے آفس جانے کے کام آتی ہے ویک اینڈ پر ہم پوری فیملی کے ساتھ باہر سیر کے لئے جاتے ہیں

ہم انسان بھی عمر کے ساتھ بوڑھے ہوجاتے ہیں تو ہمارے جسمانی اعضاء بھی کمزور ہونے لگتے ہیں آنکھیں کمزور ہو دکھائی کم دینے لگتی ہیں، سننے کی طاقت کمزور ہو تو سنائی کم دینے لگتاہے ۔ جوانی میں میوزک کی بڑی آواز جو سوہانی لگتی تھیں اب وہی آواز نہ صرف بوجھ لگنے لگتی ہیں بلکہ جھنجلاہٹ محسوس ہوتے ہوئے، سر درد ہونے لگتا ہے۔ ذہن کی کمزوری کی وجہ اب تھوڑی دیر پہلے کی ہوئی باتیں یاد رکھنا محال ہوتا ہے
ایسے میں ہم جوان ہوتے ہیں ۔ آفس سے تھکے تھکے گھر آتے ہی بڑی آواز میں میوزک سننےکو دل کرتا ہے، ہم ڈیک پر یا ٹی وی پر بڑی آواز میوزک سن رہے ہوتے ہیں کہ اچانک ھال میں بوڑھے والدین آتے ہیں یا دوسرے کمرے سے آواز دیتے ہوئے میوزک کی آواز کم کرنے کو کہتے ہیں۔شروع شروع میں احتراما” ہم آواز کم ضرور کردیتے ہیں لیکن تھوڑے وقت بعد، اپنے ذہنی سکون کے لئے، بے خیالی میں آواز کچھ اور تیز کردیتے ہیں۔

پھر ھال میں بوڑھے والدین آتے ہیں آواز ذرا دھیمی کرنے کو کہتےہیں۔ ہمیں جھنجلاہٹ ہوتی ہے لیکن خاموش رہ جاتے ہیں۔ تیسری دفعہ حسب معمول والدین آواز کم کرنےکی درخواست کرتے ہیں تو، یا تو ہم ان پر برس پڑتے ہیں کہ اپنے ہی گھر میں ہم اپنی مرضی مطابق کچھ نہیں کرسکتے ہیں کیا؟ یا وہ ہم پر برستے ہوئے اپنی تکلیف کا اظہار کرنے کے بجائے، اللہ رسول کی بات کہتے اخلاقیات کا درس دینے لگتے ہیں اور یوں گھر میں ایک تناؤ والی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔

ایک دوسرے نظرئیے سے ، ہم افس سے تھکے تھکے سے گھر آتے ہیں، ہمارے اپنے بچے آپس میں کھیلنے میں مشغول ہیں لیکن ہمارا دل کرتا ہے کہ ہم اپنے بچوں کو گود میں اٹھائیں کچھ دیر ان سے کھیلیں اپنی ذہنی کوفت دور کریں۔ اسلئے گھر آتے بچوں کو پیار سے اٹھاتے ہیں توٹلی زبان میں ان سے باتیں کرنے لگتے ہیں

ان کی عجیب و غریب آوازیں گو سمجھنے لائق نہیں ہوتیں لیکن ممتا ہمیں بچوں کی سب کچھ باتوں کا مفہوم سکھا دیتی ہے۔ہم انہی کے انداز میں ان سے باتین کرتے ان سے کھیلنے میں مشغول ہوجاتے ہیں بعض وقت ہمارے اپنے بچے ہماری الفت چاہت سے بیزار، وہ ہم سے دور ، آپس میں کھیلنا چاہتے ہیں لیکن ہم ہوتے ہیں کہ اپنی محبت میں انہیں بھینچتے چلے جاتے ہیں۔ہمارے چھوٹے بچے بعض وقت ہمارے آفس سے واپس آنے کے منتظر دروازے کے پاس پائے جاتے ہیں ذرا آہٹ سے دروازے پر پہنچ جاتے ہیں۔

یہاں تک کہ پالنے میں پڑا چھوٹا بچہ بھی ہمارے آفس سے واپس آنے کے اوقات میں ،بے چین دروازے کی طرف نظریں گاڑھتے دیکھنے کے بارے میں جب بچے کی امی ہمیں بتاتی ہیں تو ہم نہ صرف پھولے نہیں سماتے ہیں بلکہ اپنے بچے کی کیفیات اپنے دوستوں تک بتاتے پائے جاتے ہیں۔ وہیں پر دوسرے کمرے میں ہمارے بوڑھے والدین ہم سے دو منٹ بات کرنے تڑپتے رہتے ہیں ہمارا دن بھر انتظار کرتے رہتے ہیں ہم ہیں کہ گھر میں گھستے ہی، انہیں سلام و آداب کہتے فورا ان سے پیچھا چھڑا،اپنے کمرے میں لپک جاتے ہیں

یہ سوچ کر بوڑھے والدین کسی موضوع پر بات کرنا شروع نہ کردیں۔ہمیں احساس ہونا چاہئیے جس طرح ہم اپنے بچوں سے کھیلنا، انہیں اپنے پاس ہی رکھنا چاہتے ہیں جب ہم چھوٹے تھے ہمارے والدین نے بھی ہمیں ویسے ہی پیار اور دلار کیا تھا۔ہماری ہرضرورتوں کا خیال رکھا تھا۔آج دن بھر بستر پر پڑے پڑے وہ اکتا جاتے ہیں، ہم سے تھوڑی دیر بات کرنا چاہتے ہیں تھوڑی دیر کا سکون پانا چاہتے ہیں اور ہم ہیں

کہ انہیں دو نوالے کھلانے کا بندوبست کر، ان پر بہت بڑا احسان کئے جیسا، پیش آتے ہیں۔ اصل میں اس بڑھاپے میں کچھ لمحے انکے پاس بیٹھ کر ان سے بات کریں انکی دلجوئی کریں تو یقینا ہمارے اس برتاؤ سے بے انتہا خوش ہوجائیں گے۔ ہمیں ڈھیر ساری دعائیں دینگے۔ اور اپنے بوڑھے والدین کا کماحقہ حق ادا کرتے ہوئے، ہم اپنے خالق و مالک دوجہاں کو بھی راضی کررہے ہونگے

یاد رکھئے ہمارے پیدا ہونے سے لیکر ہمیں پڑھا لکھا جوان کماؤ لائق بناتے تک، ہمارے لئے انہوں نے بڑی قربانیاں دی ہوئی ہوتی ہیں، ہماری ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے، اپنی خواہشات کا گلا گھونٹ گھونٹ ہماری ضروریات پوری کی ہوتی ہیں ۔ایسے میں کیا ہم اپنے دن کے کچھ حصوں کے کچھ لمحات ان کے ساتھ بتا انہیں ذہنی سکون فراہم نہیں کر سکتے ہیں؟

یہ ہم جیسے پڑھے لکھے جوانوں کے سوچنے کے لمحات ہیں یاد رکھیں فطرت کے اوصول کے تحت یہاں وہی کچھ دہرایا جاتا ہے جو آج یم۔کرتے ہیں۔ آج ہم اپنے بوڑھے والدین کی خدمت سے جی چراتے پائے جائیں گے تو کل ہماری اپنی ہی اولاد، ہمیں اپنے بڑھاپے میں اپنے پچھتاوے کے آنسو رلائے گی ،اور ان کی اولاد انہیں اس سے کہئں زیادہ رلاتی پائی جائیگی۔وما علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں