انسانیت نہیں تھی 127

وحشت کے ماحول میں

وحشت کے ماحول میں

جمہورکی آواز
تحریر : ایم سرورصدیقی

وہ میرا دوست بہت شغلی ہے افسردہ لوگوںکا مزاج شگفتہ کرنا اس کے بائیں ہاتھ کا کمال ہے لیکن زندگی کے بارے میں اس کاالگ ایک فلسفہ ہے باتوں باتوںمیں کئی کام کی باتیں کرنے کاہنرجانتاہے اس کا نظریہ ہے کوئی اکھڑمزاج جب اچانک سے اچھی باتیں کرنے لگ جائے توسمجھ لو وہ کہیںسے لتر کھاکر آیا ہے

ورنہ اسے کیا پڑی ہے شد شد بولے۔۔یہ اس کا کہناہے آپ کسی لائف انشورنس کے نمائندے کے پاس دس منٹ بیٹھ جاؤ تو۔ وہ یقین دلا ہی دیتا ہے جینے سے زیادہ مرنے میں فائدہ ہے۔ شغلی کا مشاہدہ بڑا تیزہے اس کے پاس یہ منطقی دلائل موجودہیں کہ موبائل پچاس ہزار کا اور بیلنس زیرو۔ ایسے لوگ صرف پاکستان اور بھارت میں ہی پائے جاتے ہیں کسی اور ملک میں ایسے نابغہ روزگارلوگ نہیں پائے جاتے۔
ایک روز مجھے ایک شاعردوست ملنے آواردہوا اتفاق سے شغلی بھی موجود تھا اس نے کہا رات ایک غزل ہوئی ہے یہ سن کر وہ ترنت بول پڑا واہ واہ شاعر کے ہاں غزل کی ولادت شاعرنے برا سا منہ بناکرآنکھیں نکالیں تو وہ بولا جناب میںتو شغل کررہاتھا ارشادفرمائیے شاعرتو غزل سنانے کو بے تاب تھا فوراً مطلع عرض کرنے لگا
بے چینی، بے زاری، تنہائی، اداسی شغلی مطلع پر ہی جھومنے لگا بولا واہ ۔۔واہ کیا خوب کہا
شاعرنے بڑی یاسیت سے مکررکہا بے چینی، بے زاری، تنہائی، اداسی شغلی نے کہا جناب اس پر گرہ میں لگائوں گا شاعرنے چار ناچار اثبات میں سرہلادیاتو شغلی نے فوراً کہہ ڈالااکیاسی،بیاسی، تراسی،چوراسییہ سن کرشاعرمنہ ہی منہ میں بڑبڑاتاچلاگیا اور آج تک مجھ سے ناراض ہے اب آپ ہی بتائیں اس میں میرا کیا قصورہے؟
ایک دن مجھے کوئی کام تھا میںشغلی کے گھرچلاگیامیںنے محسوس کیا اس کے بیٹے بھی باپ سے مختلف نہیں ایک سے بڑھ کر شغلی باپ بیٹے بڑے سے : بیٹا ایک گلاس پانی لے آؤ۔ بڑابیٹا کہنے لگا ابو میں گیم تو موبائل پر کھیل رہا ہوں اس نے دوسرے بیٹے کی طرف دیکھا وہ کہنے لگا : ابو یہ تو ہے ہی بدتمیز – آپ ایسا کریں خود جا کرپانی لے آئیں۔
میں حیرت سے ایک دوسرے کی فوٹو کاپیوںکو دیکھنے لگا تو بڑا بولا انکل میں آپ کو ایک بات بتائوں میں ایک شادی پر گیامیری ایک کزن 2 پلیٹ بریانی ، 2 پلیٹ قورمہ ، سیخ کباب،کولڈ ڈرنک اور گاجرکا حلوہ پلیٹ بھر کے کھانے کے بعد کہنے لگی ہائے امی پیٹ میں درد ہورہاہے اس کی امی نے مصنوعی خفگی سے کہا میں نے بولا بھی تھا مت پہنو لال جوڑا اب لگ گئی نا نظر ۔۔۔اور میں دل ہی دل میں سوچ رہاتھا لگتاہے

یہ پورا ٹبر ہی شغلی ہے۔اب چھوٹا بولا انکل۔۔ انکل یہ عورتیں بھی عجیب ہوتی ہیں کبھی کہتی ہیں کہ مرد بیوقوف ہوتے ہیں… پھر کہتی ہیں ہم مردوں سے کم ہیں کیا؟ ہے نا ہاسے والی بات باقی میںتو اپنی چھو ٹی کزن کو صاف صاف کہہ ڈالا تھا جو آپ سے سچی محبت کرتا ہے وہ رات کے دو بجے بھی آپکو گول گپے کھلانے لے جا سکتا ہے!! باقی یہ تارے وارے توڑ کر لانے والے سب لڑکیوںکو بیوقوف بناتے ہیں: آنٹی تولیہ دھو رہی تھی میں نے پوچھا آنٹی تولیہ دھو رہی ہیں؟ آنٹی نے گھور کر میری طرف دیکھا اور کہا نہیں

تولئے کو اس لئے پانی دے رہی ہوں کیا پتہ بڑا ہو کر کمبل بن جا ئے کمبل بنے نا بنے میں جاننے والے ایک : بابا جی کہتے ہیں کہ دنیا کے سارے نوٹوں پر تصویر مردوں کی ہے پر قبضہ عورتوں کا ہوتا ہے شایداسی لئے میری چھوٹی کزن وہ میرے ہاتھوں پر ہاتھ رکھ کے بولتی ہے یسو پنجو ہار کبوتر ڈولی اب میں کیا کہوں میںاس کے دل کاحال جانتاہوںوہ اس کی آڑمیں کہتی ہے میں اس کی ڈولی لے جائوںمگرکیاکروںبڑا بھائی ابھی کنواراہے

ابھی تعلیم مکمل نہیں ہوئی میٹرک کے بعدمزید نہ بھی پڑھوںتوخرچے پورے کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی کاروباریاملازمت کرناہوگی کیاکروں انکل آپ ہی میری کچھ رہنمائی کریں میں اسے انپا دکھڑا سناتاہوںوہ آگے سے کہتی ہے نہ جانے تم کیا چیزہو امریکا میںبیٹری لو ہونے پر سیل فون چارچ کرتے ہیں لیکن پاکستانی۔۔بیٹری کو تھوک لگا کے17مِنٹ معشوق سے بات کر لیتے ہیں تم شادی کیوںنہیں کرسکتے اب بتائیں

اے کیہڑی سائنس ای میںتونہیں جانتا حالانکہ بھارت ہویا بنگلہ دیش یاپھر پاکستان یہ دنیا کے ایسے ممالک ہیں جہاں آپ اگر جہاز بھی بیچنے بیٹھ جائیں تو چار پانچ لوگ اس کا ریٹ ضرور پوچھیں گے کتنے کا ٹکٹ ملا پوچھنے والے کے چاہے جیب میں ٹکا بھی نہ ہو جو وہ مجھے تنہائی میں ملی تھی میں نے تو صاف صاف کہہ دیا تھا

یہ تیرے چہرے پر جو نور ہے یہ تیرا نہیں مکس کریموں کا قصور ہے وہ غراکربھاگ گئی میں تو ایک بھی شادی نہیں کرنا چاہتا کیونکہ کبھی کبھی جب آپ کو یقین نہیں آئے گا لیکن میں پھر بھی بتا رہا ہوں میں بچپن میں چھوٹا سا تھا سوچا تھا چار شادیاں کرونگا دو ماریں گی اور دو بچائیں گی کل رات خواب دیکھا دو نے پکڑا ہوا تھا اور دو مار رہی تھیں ۔انکل ایک دن میں ہسپتال گیا ایک بڑی خوبصورت سی نرس: ایک ایجڈ مریض سے کہہ رہی تھی باباجی: لمبا سانس لو
’’اچھا
نرس: اب کیا محسوس کر رہے ہو؟
باباجی : آپ نے پرفیوم تو اچھا لگایا ہے مجھے گفٹ کردو
وہ نرس مجھ سے عمر میں بڑی نہ ہوتی میں کزن کی بجائے اسی سے شادی کرتا۔۔انکل آپ کا کیا مشورہ ہے میں یہ ساری باتیں سن کر اس نتیجے پر پہنچاہوںکہ موبائل نے نوعمربچوںکو وقت سے پہلے جوان کرڈالاہے اس غضب ناک ماحول نے وحشت کو جنم دیاہے جس کی خبروں سے اخبارات اورمیڈیا بڑاپڑاہے

یقین جانئے اس وحشت نے معاشرے کی جنسی بھوک میں اضافہ کردیاہے ہم جب جوان ہوئے تھے اس وقت کئی کئی ماہ لولیٹردینے کی ہمت نہیں پڑتی تھی اور آج شغلی سے بچے ہم سے مشورے مانگتے پھررہے ہیں واقعی زمانہ قیامت کی چال چل رہاہے اور ہم اس ماحول میں ٹھہرے بدھو۔۔جو لولیٹردینے کی بجائے عاشق ِ بے روزگارکی طرح اکثر ناکام گھر لوٹ جایاکرتے تھے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں