الحمد للہ علی کل حال 125

یوپی انتخابی دنگل کیا رخ اختیار کرتا ہے دیکھنا ہے

یوپی انتخابی دنگل کیا رخ اختیار کرتا ہے دیکھنا ہے

تحریر : نقاش نائطی
۔ +966562677707

تعجب لگتا ہے کہ ہرکوئی کمزور کوہی سمجھانا، دبانا، اور دشمنوں کے لئے راستہ کھلا چھوڑ دینا چاہتا ہے۔ دو دہوں کی محنت کے بعد محترم اسد الدین اویسی نے، اپنی ایک سیاسی پہچان بنائی ہے۔ ایسے میں جب وہ اپنی ذاتی حیثیت سے ملکی سطح پر ایک اچھا سیاسی مقام حاصل کرنے کے قریب ہیں، تب ہر کوئی قوم و ملت کی دہائی دیتے ہوئے، مسلم دشمن قوتوں کی جیت سے ڈرا کر، انہیں پیچھے ہٹنے کی رائے دیتا نظر آتا ہے۔

حضرت مولانا سجاد نعمانی مدظلہ کا مقام و رتبہ ہم مسلمانوں میں ہی کافی اونچا نہیں ہے؟ بلکہ دلت ذات برادری کے ملک گیر پیمانے کے کافی لیڈروں سے، ان کے اچھے روابط ہیں۔ کاش کہ نہ صرف یوپی کے مسلمانوں کو، بلکہ پورے بھارت کے مسلمانوں کی سیاسی رہبری کے لئے، نہ صرف مولانا سجاد نعمانی دامت برکاتہم بلکہ جمیعت العلماء ھند کے قدرے بڑے علماء کرام، اپنے دلت رہنماؤں سے اچھے تعلقات کی بنیاد پر،یوپی انتخاب اعلان سے کافی پہلے سے ان سے ملاقاتیں کرتے ہوئے، سابقہ 5 سالہ یوگی

مہاراج کی اندھیر نگری چوہٹ راج سے دلت مسلمان ھندوؤں کی تمام رعایا، جس قدر پریشان حال ہیں اس تناظر میں، دلت مسلم اتحاد سے کوئی ٹھوس سیاسی نعم البدل کھڑا کرنے کے بارے تگ ودو کرتے،تو یوپی کے 20 فیصد آبادی اور 27% دلت پچھڑی جاتی آبادی کا اتحاد کرتے ہوئے، بی جے پی کا نعم البدل تلاشا جاسکتا تھا۔ کم از کم اپنے تعلقات کا استعمال کرتے ہوئے، اکلیش کے ساتھ ہی ساتھ ملائم سنگھ یادو وغیرہ سے ملاقاتیں کرتے ہوئے 100 نہ صحیح 20 یا 30 سیٹیں آے آئی ایم آئی کے لئےچھوڑ دیتے ہوئے،

سماج وادی پارٹی سے انتخابی مفاہمت کرواتے ہوئے، یوپی کےپورے 20%مسلم ووٹوں کے جھکاؤ سے اکلیش یادو کو آسانی سے اقتدار پر لایا جاسکتا تھا۔یہاں اکلیش کی ایک بات جو نہ ہضم ہونے والی ہے کہ، کل کے مسلم مخالف بیانات دینے والے 5% سے 7% فیصد آبادی والے، مختلف مسلم دشمن لیڈروں کو تو اکلئش گلے لگانے لئے تڑپتا پایا جاتا ہے وہیں پر 20% آبادی والے مسلمانوں کی اسے کوئی فکر نہیں محسوس ہوتی ہے۔

یا تو اکلیش اویسی سے انتخابی سمجھوتہ کرتے ہوئے، مسلم دشمن ٹھاکر ووٹروں کو ناراض نہیں کرنا چاہ رہا ہے یا مسلمانوں کے بارے میں وہ اتنا مطمئن ہے کہ یہ مسلمان اور انکے لیڈران بی جےپی کا ڈر بتا اور جتاکر،مسلم ووٹوں کو بن مانگے انکی جھولی میں خود سے ڈال ہی دینے والے ہیں تو مفاہمت سے کیوں کر انہیں زیادہ مستفید ہونے کا موقع دیا جائے؟اب تو یوپی انتخاب قریب آتے آتے ڈوبتے جہاز سے اپنی جان بچانے،

کود کود سمندر میں چھلانگ لگاتے چوہوں کی طرح، یوگی حکومت کے حالیہ انتخابات ہارتے پس منظر میں، بی جے پی قداور تمام لیڈر بی جے پی کو چھوڑ اکلیش کی نئی حکومت کے من و سلوی سے مستفید ہونے، جوق درجوق سپھا میں جس تیزی سے آرہے ہیں اکلیش کو مسلم ووٹ چھوٹنے کا بھی احساس نہ رہا ہے۔ اس لئے اب کی بار 20% یوپی کے مسلم ووٹ سپھا کی طرف جانے کے بجائے یکجٹ ہوکر آے آئی ایم آئی کے حق میں ڈالتے ہوئے اپنی حق خودداریت دکھا اور درشا سکتے ہیں

اپنے دور اقتدار میں مظفر نگر مسلم کش فساد میں مسلمانوں کے بجائے ظالم ٹھاکروں کی پشت پر کھڑا رہنے والے، اور اپنے ایک وقت کے محسن قد آور مسلم رہنما اعظم خان کو یوگی کے ظلم سے ضرورت کے وقت نہ بچانے والے ،دوہرے کردار کے مالک سیکیولرزم کا نقاب اوڑھے مسلم دشمن، مفاد پرست اکلیش کو ہم مسلمان کیسے ووٹ دے سکتے ہیں؟ اب کی بار اے آئی ایم آئی کے 100 سیٹوں پر پورے دم خم کے ساتھ انتخاب لڑتے پس منظر میں، پوری 100 سو سیٹوں پر نہ صحیح 20% تا 25% سے زیادہ مسلم

اکثریت والی 30 سے 40 سیٹوں پر، یوپی کے مسلمان باہم اتفاق سے صد فیصد ووٹ آے آئی ایم آئی کے حق میں ڈالتے ہوئے ، محترم اسدالدین اویسی کو مسلم رہنمائی کا ایک بھرپور موقع ضرور دے سکتے ہیں اور باقی تمام سیٹوں پر، حضرت مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی مدظلہ صلاح دئیے مطابق، دلت و پچھڑی جاتی امیدواروں سے انتخابی مفاہمت کرتے ہوئے، اپنے علاقے کے دلت و پچھڑی جاتی ووٹوں کے حصول کی کوشش کی جائے۔ ہمیں امید ہے محترم سجاد نعمانی جیسے جلیل القدر مسلم علماء اس سمت

ذرا کوشش کریں تو یوپی کے مسلم رہنماؤں کا بھرپور استعمال کرتےہوئے اکلیش یادو کو اسدالدین اویسی سے انتخابی سمجھوتہ کرنے پر مائل کرسکتے ہیں اور باوجود کوشش کے اکلیش یادو اسد بھائی سے مفاہمت کرنے سے کتراتا پایا جائے، تو تمام تفکرات سے آزاد ہوکر،اپنا گھوڑا اور اپنا میدان، سیاسی بازی جیتنے کی پوری کوشش کی جائے۔ اگر آے آئی ایم آئی انتخاب لڑنے سے کچھ حلقوں کے مسلم امیدوار ہار بھی جاتے ہیں تو ایک بات طہ ہے یوپی میں سماج وادی ہی کی حکومت بننے والی ہے

اور یقینا اکلیش کی متجوزہ سرکار،یوگی جیسی مسلم دشمن تو ثابت نہیں ہوگی؟دوسری اہم بات، سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے کبھی کچھ کہا نہیں جا سکتا ہے۔ کبھی کسی کے بھی موافقت والے حالات کسی اور کی موافقت میں ہموار ہوسکتے ہیں۔ 2017 یوپی انتخاب میں، نوٹ بندی کے جادو سے خیر کی توقعات کئے، یوپی کے عوام ایک طرف بی جے ہی کا ساتھ دے رہے تھے تو، دوسری طرف نوٹ بندی کی وجہ سے سیکیولر پارٹیوں کے ہاس کالے دھن کے فقدان پس منظر میں، بی جے پی والوں نے اپنے کالے دھن کے بل پر، کانگریس مکت بھارت سرکار کے انتخابی جملہ بازیوں سے، سب کو پٹخنی دینے

میں کامیابی حاصل کرلی تھی لیکن اب کے انتخابات میں کانگریس نے خصوصا پرینکا گاندھی کے عملی ساتھ سے ، خصوصا یاتھرس واقعہ کے پس منظر میں، دلتوں کی پشت پر کھڑا رہتے ہوئے یوپی میں ایک اچھا مقام بنانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ ایسے میں سب سے بڑی پارٹی سماج وادی بن کر ابھرنے کے باوجود ،اسے حکومت سازی کے لئے کانگریس کے جیتے دس بیس امیدوار بڑےاہم ہونگے

ایسے میں یوپی کے 20% مسلمان باہم اتفاق و یگانت کے ساتھ کم بیش 15 سے 20 سیٹوں پر بھی اے آئی ایم آئی کو جیت سےہمکنار کرتے ہیں تو، یقین مانئے یوپی حکومت سازی میں اے آئی ایم اے بہت اچھا کردار ادا کرتے ہوئے،سپھا کانگریس جیسی سیکولر پارٹیوں سے بھیک مانگنے کے بجائے مسلمانوں کا انکا حق دلانے کے پوزیشن میں ہوگی ۔ مسلم برادری میں جرائم پیشہ عناصر کی سیاسی پشت پناہی کر یہ سیکولر پارٹیاں انہیں خوب حکومتی من و سلوی سے مستفید کرتے ہوئے ، مسلم ووٹوں کو مسلم دشمن

سنگھی پارٹیوں کا ڈر بتاتے ہوئے، مسلم ووٹ بن مانگے ان نام نہاد سیکیولر پارٹیوں کے بیچ بٹواتے ہوئے 20% یوپی کی مسلم آبادیوں نہ صرف سیاسی طور بے وقعت کئے ہوئے ہے بلکہ بھارت میں سب سے زیادہ ٹیکس دینے والی ہم مسلم اکثریت والی اقلیت کو حکومتی مراعات بھی بھیک کے طور دی جارہی ہے۔
بھاسپا نیتا کاشی رام نے، 40 سال قبل جس کی جتنی سنکھیہ( آبادی) اس کی اتنی ساجھےداری (حصہ داری) کا نعرہ دلتوں کے لئے دیا تھا اور مایاوتی کو یوپی کے سی ایم پد پر بٹھایا تھا، اب مسلمانوں کو بھی اپنے آبادی کے تناسب سے زندگی کے ہر گام پر حصہ داری مانگنا چاہئیے۔ آج جس سیاسی خستہ حالی کے شکار ہم مسلمان جی رہے ہیں ایسے میں آبادی کے تناسب سے حکومت میں ساجھے داری مانگنا

مضحکہ خیز لگتا ہے۔ لیکن یوپی کے 20% مسلمان یکجٹ ہوکر پورے اتفاق کے ساتھ آے آئی ایم آئی کو تیس سے چالیس سیٹوں پر کامیاب کرتے ہیں ،تو اکلیش کو جھک کر، آے آئی ایم آئی کا ساتھ پاتے ہوئے جب حکومت بنانی پڑے گی تب آے آئی ایم والے 20% یوپی کے مسلمانوں کے لئے حکومت کے ہر شعبہ میں آبادی کے تناسب سے انکے لئے حق مانگتے نظر آسکتے ہیں۔ سب سے پہلے ہم یوپی کے

مسلمانوں کو ہر تفکر سے آزاد ہوکر، کسی کے بھی بہکاوے میں نہ آتے ہوئے،کسی بھی طرح کی جوڑ توڑ کوششوں سے 30 سے 40 سیٹوں پر آے آئی ایم آئی کے امیدواروں کو کامیاب کرنا پڑیگا۔ایک مرتبہ بھارت کے کسی بھی حلقہ کے مسلمان اپنا حق حاصل کرنے کی پوزیش میں آتے ہیں تو انشاءاللہ پورے بھارت کے مسلمان اپنے اپنے علاقے میں اپنا حق مانگتے نظر آئینگے۔ واللہ الموافق بالتوفیق الا باللہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں